مبارک حیدر
انفرادی فعل
ہمارے ہاں پاکئ داماں کا فریب قائم رکھنے کے لئے بعض فقرے اور جواب سبق کی طرح رٹ لئے گئے ہیں۔ لگتا ہے اس کے لئے تحریکی سطح پر کام کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی ، اخبارات اور رسائل کے علاوہ جمعہ کے خطبوں میں، گلی محلہ میں جاری درس میں، تیزی سے چھا جانے والے خطیبوں کی کیسٹوں میں اور ان گنت مدرسوں میں، تحریک کے مرکز سے جاری ہونے والے فقرے اور رویے ایک ہی طرح سکھائے جاتے ہیں۔ مثلاً جب بھی ایسا فکر انگیز سوال آئے کہ اگر ہم بہترین امت ہیں تو یہ جرم اور وہ بدکاری، وہ ظلم اور یہ بے حسی کیوں ہے، تو جواب آئے گا ’’ بیچ میں برے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ یہ کالی بھیڑیں ہیں۔ کوئی شخص برا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ اس میں امت کا کیا قصور ہے؟‘‘
اسی طرح جب بھی جدید تہذیب کی انسانی خدمات کا ذکر آئے، فوراً ایک طے شدہ رد عمل سامنے آئے گا ’’اس تہذیب نے انسان کو صرف مادیت سکھائی ہے، اُن کے اخلاق تباہ ہو چکے ہیں، اُن کی جنسی آوارگی اور عریانی تو دیکھیں۔ اُن میں روحانیت ختم ہو چکی ہے۔ ہم مادی طور پر پیچھے ہیں مگر ہمارے پاس الحمد اللہ اسلام اور روحانیت ہے۔‘‘
ہم خود فریبی کے نشے میں یہ دیکھ ہی نہیں پاتے کہ ہمارے صدر سے لے کر چپڑاسی او ر مزدور تک، روحانی افق پر چھائے ہوئے عظیم دینی سکالر سے لے کر گدھا گاڑی والے ان پڑھ تاجر تک، ایک سے بڑھ کر ایک نٹ کھٹ چنڈال شکار پر نکلا ہوا ہے۔ مارکیٹوں میں جاؤ تو خریدنے والوں کی حرص اور بیچنے والوں کی بھوک کا کوئی کنارہ نہیں، زرو مال کی دیوانگی اور ماتھے پر آنکھیں، کاروبار اور کیرئیر پر عزیز رشتہ دار سب قربان، خوشامد اور موقع پرستی کا بازار گرم، طاقت کے آگے لیٹنے اور کمزور پر بپھرنے میں خوشحال اور غریب، غنڈہ اور حاجی ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، دودھ سے لے کر فولاد تک ہر سودے میں’’ ہوشیاری‘‘ اور دیہاڑی لگانے کے رویوں نے باہمی اور عالمی اعتماد برباد کر دیا ہے، اقوام عالم ہی نہیں ہم خود بھی اپنے کیے پر اعتماد نہیں کر سکتے،اعتبار کریں تو لٹ جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ سب کمزوریاں انفرادی ہیں اور روحانیت تو ماشاء اللہ الحمد اللہ۔
روحانیت کیا ہے؟
روحانیت بالعموم ایک مبہم لفظ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مذہب اور فلسفہ میں اس کا مفہوم ایک جیسا نہیں۔ پھر سارے مذاہب میں بھی ایک جیسا نہیں، مثلاً ہندو مذہب میں موسیقی روح کی بنیادی غذا ہے، ہندو عقیدہ میں سرسوتی ماں جو سُر اور موسیقی کا سرچشمہ ہے، ایک دیوی ہے، یعنی مذہبی تقدس کی علامت ہے۔ یعنی موسیقی مقدس صفت اور ہر ساز اس پاک عمل کا معاون ہونے کے باعث روح کو طاقت دیتا ہے۔ لیکن اسلام کے نزدیک موسیقی روح کو ناپاک کرتی ہے۔ اور ایک مخصوص اسلامی فقہ کے حامی تو آلات موسیقی کی تصویر دیکھ کر بھی کچھ نفسیاتی سی کیفیت میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔ اسلام میں روح کی غذا عبادت ہے یعنی عبادت میں روحانیت ہے۔ اور عبادت کے تصورات اہل شریعت اور طریقت کے ہاں ایک جیسے نہیں۔ یعنی ایک کے ہاں ارکانِ اسلام کی ادائیگی مکمل روحانی عمل ہے، جبکہ مشائخ کے ہاں روح کا سفر تو اس معمول کی عبادت سے آگے کہیں شروع ہوتا ہے۔ پھر اِس سوال پر کئی جواب ہیں کہ انسان کی روح کو کتنی غذا چاہیے؟ یعنی اگر عبادت ہی روح کی خوراک ہے تو کتنی عبادت؟ اسلام کے مطابق دن میں پانچ بار ایک مقررہ معمول کے مطابق عبادت اور رمضان میں اس سے کچھ اور زیادہ۔ بہت سے مسلمانوں کے نزدیک درود و سلام کی محافلِ شبینہ اور کثرت سے وظائف اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن مسیحیت میں ہفتہ وار اور ہندوؤں میں دن میں ایک بار دیوی دیوتا کے آگے حاضری یا پرنام روح کو تروتازہ کر دیتا ہے۔
پچھلے زمانے کے مقابلے میں انسانی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی یہ آئی ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی مصنوعات اور انسان کے بنائے ہوئے اصول و قوانین نے قدرتی طور پر میسر آنے والی اشیاء اور مذہب کے دئیے ہوئے قوانین کی جگہ لے لی ہے یا لے رہے ہیں۔ اس عمل سے ایک طاقتور مذہبی طبقہ کو شدید اختلاف ہے۔ ہر معاشرہ میں ایسے مذہبی عناصر موجود ہیں جو ماضی قریب تک معاشرہ کی فیصلہ کن قوت رہے ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان دنوں بھی یہ فیصلہ کن طاقت کے مالک ہیں۔ فطری طور پر ان عناصر کی خواہش اور کوشش ہے کہ ان کے معاشرے مذہب سے رہنمائی حاصل کریں، تاکہ فضیلت کا مقام ان کے پاس رہے۔ مذہبی قیادت کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کی رہنمائی خالق ہی کر سکتا ہے، انسان کی عقل ناقص ہے لہٰذا اسے اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں کرنے چاہئیں۔ مذہب چونکہ خالق کی طرف سے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آیا ہے لہٰذا انسان کو مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ جب یہ نقطہ سمجھ لیا تو فطری طور پر اگلی بات یہ ہے کہ مذہب چونکہ ایک اعلیٰ ارفع علم ہے، نیز ہر مذہب کی اپنی ایک مقدس زبان ہے، مثلاً ہندو مت کی سنسکرت، مسیحیت کی لاطینی اور اسلام کی عربی، لہٰذا وہی لوگ معاشرہ کی بہترین رہنمائی کر سکتے ہیں جو اس اعلیٰ علم اور اس کی مقدس زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ یعنی ہندو معاشرہ میں برہمن، مسیحیوں میں پادری اور مسلم اُمہ میں مدرسوں سے فیض یاب ہونے والے علماء اور طالبان۔ چنانچہ جدید صنعتی دور میں رونما ہونے والی تبدیلی کے خلاف مذہبی تنظیموں کی طرف سے ایک طاقتور تحریک چلائی جا رہی ہے۔ 2007ء میں خطیر سرمایہ خرچ کر کے امریکہ کی بعض یونیورسٹیوں میں ’’ اکیسویں صدی میں مذہب کے اعلیٰ تر مطالعہ کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر سیمینار ہوئے ہیں۔ ’’مسیحی سائنس‘‘ کو کفری سائنس کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اسلامی ملکوں میں سائنس کے مضر اثرات سے بچانے کے لئے وسیع پیمانے پر دینی درس و تدریس کے سلسلے چلے ہیں۔ یہی حال بھارت میں ہندو مت کی تحریک کا ہے۔ اس عمل کو بالعموم تحریک احیائے مذہب کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس وسیع سرگرمی کو دیکھنے والے عام آدمی کو یوں لگتا ہے کہ جیسے جدید سائنسی دور میں مذہب کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔
اس کے پہلو بہ پہلو ایک صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی جسے تبدیلی میں دِقت ہوتی ہے، تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی سے پریشان ہے۔ زندگی کے انداز اور تقاضے اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ عام آدمی کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔ دیہاتوں میں شہری انداز داخل ہو رہے ہیں، شہروں کو خوشحالی اور نئی مصنوعات کی ریل پیل نے عالمی بازار بنا دیا ہے۔ اس ساری دوڑ میں ذہن کی تربیت اور ثقافت کی تربیتِ نو پر توجہ نہیں دی جا سکی۔ معاشی تضادات بھی زوروں پر ہیں۔ ہوشیار اور نٹ کھٹ لوگ کم ذہین لوگوں کو ہر طرح سے مات دے رہے ہیں۔ ایسے میں سماجی انصاف کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ شاید یہی عوامل ہیں کہ یورپ کے ہاں اکھاڑ پچھاڑ اور سماجی اضطراب کا یہ عمل موجود نہیں، وہ آج بھی احیائے مذہب کی تحریک سے الگ ہے۔ جبکہ امریکہ جہاں نت نئے لوگ بکثرت داخل ہو رہے ہیں، احیائے مذہب کی تحریک میں بہت حد تک شریک ہے۔
جب تک دنیا میں سوسلشٹ انقلاب کی جھوٹی سچی تحریکیں موجود تھیں، اس محرومی کو ایک سہارا میسر تھا، جس میں اکھڑے اور پچھڑے ہوئے لوگ جدید دور کی نعمتوں تک رسائی کا خواب دیکھتے تھے، اور یوں جدید دور کے خلاف احتجاج مایوسی کی بجائے شامل ہونے اور مقابلہ کرنے کی شکل اختیار کرتا تھا۔ اس امید کے غائب ہونے سے ہر معاشرہ کے گھبرائے ہوئے لوگوں کی نظر اگلے جہان پر لگ گئی ہے، نہ صرف پچھڑے ہوئے لوگوں کی بلکہ ہر اس نٹ کٹھ کامیاب شخص کی نظر بھی ثواب اور گناہ پر لگ گئی ہے جسے صدیوں کے تربیت یافتہ ضمیر کی چبھن ستاتی ہے کہ شاید اس سے کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ علمی انقلاب سے محروم اور سماجی آداب سے عاری زندگی کی جدوجہد بالآخر احساسِ جرم پر منتج ہوتی ہے۔ یہ صورتحال ایسی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے جو فکری تربیت کے بغیر آئی ہیں۔
ایسے ذہنی خلفشار اور فکری خلاء میں مذہبی قیادت کا یہ بیان مرہم کی طرح سکون دیتا ہے کہ ’’ بندے تیری پریشانی کا باعث یہ ہے کہ تو مادیت کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اپنی روح سے غافل ہو گیا ہے، آ روحانیت کی طرف پلٹ کہ اسی میں تجھے سکون ملے گا‘‘۔ الا بذکراللہ تطمئن القلوب۔ (خبر دار دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے) قرآن کی اس آیت میں اللہ کے ذکر سے مراد کیا ہے اس کے کیا اعلیٰ معنی ہیں اس سے بے خبر مذہبی عالم جو خود دنیا داری میں سر کے بالوں تک ڈوبا ہوا ہے یہ بیان کرتا ہے کہ مذہبی عبادات اور احکام پر عمل کرنا ہی ذکر اللہ ہے۔ صدیوں کی عادت اور روایت یہی رہی ہے کہ لوگ مذہب کے تحت زندگی گزارتے آئے ہیں۔ چنانچہ عالمِ دین کی یہ آواز اپنی طرف کھینچتی ہے اور فکری تربیت سے محروم عام آدمی قبول کر لیتا ہے کہ پلٹ کر مذہب کی آغوش میں آ جانا، یعنی اپنے آباء و اجداد کی بتائی ہوئی عبادات پوری کرنا روحانیت ہے۔
URL for Part 22:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-22/d/97984
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-23/d/98059