مبارک حیدر
غلبۂ اسلام
دوسرا بڑا مفروضہ جس پر تہذیبی نرگسیت کی بنیاد ہے، یہ ہے کہ اسلام کو ہر دوسرے دین پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس مفروضہ کی بھی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کی صرف ایک آیت مبارکہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو یوں ہے :
ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ و دین الحق لیظھرہ علیٰ الدین کلہ، ولوکرہ المشرکونo (61:9)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام دینوں پر ظاہر، نمایاں، ممتاز کر دے، چاہے شرک کرنے والوں کو برا لگے‘‘۔
ظہر یااظہر کے معنی غالب کرنا یا مسلط کرنا کیسے بنائے گئے یہ معلوم نہیں۔ قرآن میں یہ لفظ دوسری جگہوں پہ بھی استعمال ہوا ہے جہاں معنی ظاہر کرنے یا کھول دینے کے ہیں مثلاً یہ لفظ سورۃ تحریم میں بھی آیا ہے اور وہاں بھی اس کے معنی یہی ہیں:
فلما نبات بہ و اظھہرہ اللہ علیہ عرف بعضہ و اعرض عن بعض ج
پس جب اُس نے اس بات کی خبر کر دی اور اللہ نے انہیں (نبیﷺ کو اس پر آگاہ کردیا تو نبیﷺ نے تھوڑی بات بتا دی اور تھوڑی ٹال گئے)
یہ اس واقعہ کا بیان ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے راز کی ایک بات حضرت حفصہؓ کو بتائی تو انہوں نے حضرت عائشہؓ کو بتا دی لیکن حضرت حفصہؓ کا یہ فعل اللہ نے اپنے نبی پر ظاہر کردیا تو آپ ﷺ نے حضرت حفصہؓ کو اشارتاً جتلا دیا کہ آپ ﷺ کو حضرت حفصہؓکی اس غلطی کا علم ہو چکا ہے۔
چنانچہ لیظہرہ کے معنی یہی بنتے ہیں کہ’’ تاکہ وہ (رسول اللہﷺ )اس دین کو ظاہر کریں، نمایاں کریں، ابھاریں، واضح کریں۔ چاہے مشرکوں کو برا لگے۔ اس سے پہلے کی آیت میں ہے:
یریدون لیطفؤا نوراللہ بافوا ھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرونo
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں، اور اللہ اپنے نور کو تکمیل تک پہنچانے والا ہے چاہے کافروں کو برا لگے۔
نور کو تکمیل تک پہنچانے اور دینِ حق کو سب دینوں سے یا دینوں پر نمایاں کرنے کا عمل دونوں اس انداز سے بیان ہوئے ہیں جن میں اچھائی کے پھلنے پھولنے اور مخالفوں کی مخالفت کے باوجود سچائی کے آگے بڑھنے کا عمل ہے۔ جبکہ اس عمل میں کافروں کی اس کوشش کا ذکر اہم ہے جو وہ نورِ حق کو بجھانے کے لئے کرتے تھے۔ یعنی ایک جارحانہ عمل کے مقابلے میں سچائی کے زندہ رہنے اور پنپنے کا بیان ہے۔ اس بیان میں کسی ایسے عمل کی طرف اشارہ موجود نہیں کہ اگر کوئی مذہب ، اسلام کو مٹانے یا ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کر رہا تو اسلام آگے بڑھ کر اسے مٹانے کی کوشش کرے۔ سورۃ نمبر 3 آل عمران کی آیت نمبر 85 ہے:
و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخسرین (3:85)
’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی پیروی کرے گا تو اس کا دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گا‘‘۔
یہاں بھی اسلام کی تاکید کا انداز سلامتی کا ہے، دوسروں کی تذلیل یا تسخیر کا نہیں۔ سنجیدہ اعلان کا ہے، فخر یا تکبر کا نہیں۔ اور دوسرے مذاہب کے ختم ہو جانے کا بیان کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا، جو کہ غلبہ کے لفظ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر لیظھرہ کا معنی غالب کرنے کا بھی لے لیا جائے تو بھی یہ عمل پاکستانی مسلمانوں کے یا قبائلی مجاہدین کے سپرد نہیں کیا گیا کیونکہ اس آیت کا وعدہ رسول اللہﷺ کی ذات سے ہے۔ یعنی رسول بھیجا گیا ہے تاکہ وہ اس عمل کو مکمل کرے۔ آیت نمبر 8 میں نور اللہ کی تکمیل کا کام اللہ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور آیت نمبر 9 میں لیظھرہ کے فاعل خود رسول اللہﷺ ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں جو کام مکمل کیا وہی اس آیت کا وعدہ تھا۔ مذاہب کا وجود مٹا دینا یا تمام مذاہب کے ماننے والوں پر مسلمانوں کا چھا جانا، حکمران ہونا یا غالب آنا اس آیت میں یا کسی دوسری آیت میں موجود نہیں۔ فتح کے ذریعے فضیلت حاصل کرنے کا فلسفہ اگرچہ اسلاف نے اپنایا اور ایک عرصہ مسلمانوں نے دنیا کے بیشتر حصوں پر حکومت کی، تاہم اس کا تعلق دین کے کسی حکم سے نہیں، نہ ہی کوئی ایسا حکم آج کی دنیا کے لئے دیا جا سکتا ہے کہ جب مسلمان اپنے کردار اور علم کے اعتبار سے دنیا کی پسماندہ ترین قوموں میں سے ہیں۔
رسول اللہﷺ کو دنیا ایک عظیم صاحبِ دانش اور مدبّر کی حیثیت سے جانتی ہے، جن کی اصابتِ رائے، سیاسی تدبّر اور معاملہ فہمی کا اعتراف دشمنوں نے بھی کیا ہے۔ آپﷺ کے انداز حیات اور طرز سیاست سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر آپﷺ موجود زمانے میں موجود ہوتے تو تشدد سے بڑھتی ہوئی نفرت اور بین الاقوامی رابطوں کے اس دور میں تشدد کے مقابلے میں سفارت اور مکالمہ کو ترجیح دیتے، طاقتور دشمن کی بے انصافی اور ظلم کے خلاف امن پسند اور منصف مزاج قوتوں کو متحرک کرتے۔ دشمن کی اپنی صفوں میں عدل و انصاف کی جو قوتیں موجود ہیں اُن سب مثبت قوتوں کی حمایت آج ہم نے صرف اس لئے گنوا دی ہے کہ ظلم کے خلاف ہماری نام نہاد جنگ کی کمان رسول اللہﷺ جیسے عالمی مدبّر کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایسے جاہلوں کے ہاتھ آ گئی ہے جن کا نظریۂ حیات انسانی تہذیب سے نفرت پر مبنی ہے۔
URL for Part 19:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-19/d/97896
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-20-/d/97918