مبارک حیدر
تلون مزاجی
نرگسیت میں مریض کسی اصول کا پابند نہیں ہوتا۔ اسے اپنی خواہشات اور پیش قدمی کے لئے جو بھی موزوں لگے، کر گزرتا ہے۔ مثلاً اگر اسے اپنی طاقت پر اعتماد ہے تو وہ طاقت کو میرٹ قرار دے گا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اگر اس کا حریف طاقتور ہوتا نظر آئے تو وہ طاقت کے استعمال کو ظلم اور بربریت قرار دے کر اپنی کمزوری کو میرٹ قرار دے گا۔ یا اگر اس کا حریف وطن اور قوم کے تصورات کا پرچار کر رہا ہے تو وہ قومی وطنیت کو بدترین گناہ اور ابلیسی فلسفہ کہے گا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اگر اسے کسی علاقہ پر حکومت حاصل ہونے کی امید دکھائی دے تو وہ قومی وطنیت کے اصول کو حکمِ خدا وندی قرار دے گا۔ مندرجہ ذیل اسی فنکارانہ متلون مزاجی کی مثالیں ہیں:
اقتباس 3 ۔’’ چونکہ ہندوؤں کے لئے بھارت ماتا نہایت مقدس تصور ہے اور الگ وطن کا مطالبہ کر کے مسلمان گویا بھارت ماتا کو ٹکڑے کرنا چاہتے تھے، لہٰذا ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت اور دشمنی پیدا ہو گئی۔ اور اس دشمنی کا ظہور تقسیم ہند کے وقت ہوا۔ چنانچہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا، انسان بھیڑیوں سے بڑھ کر سفاک بنا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو نیزوں میں پرویا گیا، لاکھوں عورتوں کی عصمت دری ہوئی، بے شمار عورتیں اغوا ہوئیں، لاکھوں آدمی قتل ہوئے۔۔۔‘‘۔
تقسیم ہند کے مرحلہ پر قتل و غارت گری اور معصوم بچوں اور عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بے شک انسانی تاریخ کے بدترین واقعات میں شمار کیے جائیں گے۔ قدامت پسند ہندوؤں کے جتھے آج بھی اسی مکروہ مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان مکروہ اور وحشیانہ اقدامات پر مؤثر تنقید خود بھارت کے دانشور ہی کر سکتے ہیں، اور وہ یقیناًایسا کر رہے ہیں، اور ہندوستان کے آئین نے سیکولر نظام کے ذریعے حتیٰ المقدور ہندو تہذیبی نرگسیت کو کمزور کرنے یا صحت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ نرگسیت کے مریض مسلم مفکرین کا طیش صرف ان الجھنوں کو بڑھانے اور مزید الجھنیں پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ انسانی معاشروں کی نشوونما کا بہترین نسخہ انصاف اور غیر جانبداری ہے۔ عدل و انصاف عملی زندگی میں بھی ضروری ہے اور افکار میں بھی۔ فکری عدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ خود کو اسی طرح پرکھا جائے جیسے ہم دوسروں کو پرکھتے ہیں۔ جس معاشرے کے اہل فکر نرگسیت کا شکار ہوں وہ دوسروں کی رہنمائی کیسے کر سکتا ہے۔
اب اس اقباس پر ایک نظر ڈالیں جو اوپر درج کیا گیا ۔ اس سے پہلے ہندوستان پر حکمرانی کے لئے ڈاکٹر صاحب موصوف مسلمانوں کا شمشیرو سناں میں پلڑا بھاری ہونے کو اقتدار میں رہنے کا جواز بتا رہے تھے اور پرامن عددی اکثریت کی بنیاد پر اقتدار انہیں ناقابل قبول تھا۔ اب جب کمزور اور ڈرپوک بنیا تہذیب نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں تو اب طاقت کا استعمال بھیڑیا پن ہو گیا ہے۔
ہماری تہذیبی نرگسیت کا نتیجہ ہے کہ ہمیں محمود غزنوی، تیمور، احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کے ہاتھوں ہند کی پرامن آبادیوں کا قتل عام جائز لگتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کا احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر حملہ کی دعوت دینا کہ وہ مرہٹوں کو تہ تیغ کر کے مسلمانوں کا جبر دوبارہ مسلط کرے جائز لگتا ہے، کیونکہ یہ سب مسلمان ہیں۔ لیکن اگر کوئی جوابی کارروائی میں ہتھیار اٹھائے تو ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ ہم ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ نرگسیت کی بیماری میں اصولوں کا استعمال ہمیشہ اپنے حق میں کیا جاتا ہے۔
اگر مسلمان فاتحین دوسرے ملکوں پر حملہ آور ہو کر وہاں کی عورتوں کو اٹھا لائیں، لونڈیاں بنا لیں۔ حتیٰ کہ ان کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے بھی غلام رہیں تو اس کے حق میں ہم دلائل پیش کریں گے کہ اس کی فلاں ضرورت تھی اور فلاں فضیلت تھی۔ لیکن اگر کوئی دوسری قوم آٹھ سو سال کی غلامی کے بعد آزاد ہونے کے عمل میں چند روز ہماری عورتوں کی بے حرمتی کا ارتکاب کریں تو یہ انسانی فطرت کا ایسا خلل تصور کیا جائے گا جس کی کبھی معافی نہیں۔
اسی نرگسیت کی ایک تازہ مثال پاکستان کے فوجی مجاہدوں نے مشرقی پاکستان میں 1970-71ء میں پیش کی، جب وسیع پیمانے پر اپنی ہی بنگالی مسلم عورتوں کے اجتماعی ریپ کیے گئے۔ اس پر احساس جرم اس لئے نہیں تھا کہ تہذیبی تکبر حسِ انصاف کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اخلاقیات کے عالمی اصول مر جاتے ہیں۔
قومیت کے سوال پر فکری تضاد دیکھیں:
اقتباس 4۔ ’’ اقبال نے ایک اور بہت بڑا کام جو کیا وہ ان کی طرف سے وطنی قومیت کی شدید ترین نفی ہے۔ اس لیے کہ اس وقت وطنی قومیت مسلمانوں کو اپنے اندر ہڑپ کرنے کے لئے پوری قوت کے ساتھ زور لگا رہی تھی۔ ہندوؤں نے وہ ترانہ بنایا جس میں زمین کی بندگی کا تصور ہے کہ بھارت ماتا ہم تیرے بندے ہیں۔ بھارت میں آج بھی مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ سکولوں کے اندر یہ ترانہ پڑھیں اور مسلمان ابھی تک اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔‘‘
’’ اقبال نے وطنیت کی شدید ترین نفی کی‘‘
لیکن چند پیرا گراف کے بعد فرماتے ہیں
’’ اس وقت کے لئے اِن (علامہ اقبال) کی تجویز یہ تھی کہ ہندوستان میں ایک صوبہ بنا دیا جائے جیسے آج کا پاکستان ہے یا کچھ عرصہ ون یونٹ کے طور پر مغربی پاکستان تھا۔ برٹش انڈیا میں بھی ون یونٹ کی حیثیت سے ایک سٹیٹ بن جائے تاکہ اس علاقہ میں مسلمانوں کے اندر قومیت کلچر اور زبانوں کے تھوڑے بہت فرق کے باوجود مل جل کر رہنے سے ایک قوم کا تصور باقاعدہ پیدا ہو جائے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں ’لہٰذا میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں‘ ‘‘۔
اس بیان میں تضادات کی بھرمار دیکھیں:
اقبال نے وطنی قومیت کے بُت کی شدید نفی کی۔ ایک وطن میں ایک قوم کا ہونا شِرک ہے۔ لیکن اقبال نے ایک صوبہ یا ون یونٹ مغربی پاکستان، یعنی ایک سٹیٹ، یعنی الگ مسلم ریاست کا مطالبہ کیا، کیونکہ ایک وطن میں ایک قوم کا ہونا بہت اچھی بات ہے اور اب یہ شِرک نہیں۔ آٹھ سو سال ہندوؤں کے وطن میں ہندوؤں کے ساتھ رہنا اچھی بات ہے، کیونکہ ہم حکمران ہیں ، لیکن ہندوؤں کے ساتھ ہندوستان میں رہنا شِرک ہے، بہت بری بات ہے، کیونکہ اب ہم حکمران نہیں ہوں گے۔ اسی طرح وطنی قومیت کا ترانہ کہ زمین کو ماں کہا جائے، بڑی خطرناک سازش تھی، جس کا مقصد مسلمانوں کو ہڑپ کرنا تھا۔ مسلمان کسی ارضِ وطن کے بُت کو نہیں مانتا، نہ زمین کو ماں مانتا ہے لیکن سرزمینِ حجاز ہماری آنکھ کا سُرمہ ہے ہمارا وطن ہے جس کی طرف لوٹ جانا ہماری آرزو ہے اور چاہے عرب اس کی اجازت دیں یا نہ دیں ہماری تمنا ہے کہ ہم وہیں دفن ہوں۔ عربوں کی وطنی قومیت پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ لیکن دنیا کی مہذب ترین اور انتہائی انصاف پرور قوموں کی وطنی قومیت قبول نہیں۔ مثلاً سویڈن، سوئزر لینڈ، ہالینڈ، فرانس ، جرمنی اور چین کسی بھی ملک میں مسلمان تارکین وطن آباد ہوں، ان کا حق اور فرض ہے کہ وہاں کی قومی وحدت کو چیلنج کرتے رہیں۔ ہر جگہ ان کا نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ یہ ملک اسلام قبول کر کے ہمارے ماتحت آ جائیں، تو ان کی وطنی قومیت برحق ہو جائے گی، لیکن اگر ہم حاکم نہیں تو پھر ان کی وطنی قومیت ایک بُت ہے جسے توڑنا ہمارا حق اور فرض ہے کیونکہ ہم محمود غزنوی ہیں اور بُت ہمیں برداشت نہیں۔ ہاں اگر یہ ہمارے اپنے بُت ہوں تو پھر یہ پتھر نہیں بلکہ مرکز تقدیس ہیں۔ تہذیبی نرگسیت کے کئی درجے ہیں۔ پہلے درجے میں غیر مسلموں سے نام کے مسلمان اچھے ہیں۔ دوسرے درجے میں مسلمان معاشرہ کے اندر عام مسلمانوں کے مقابل تحریک اسلامی سے وابستہ مسلمان بہتر ہیں۔ تحریک اسلامی سے وابستہ مسلمانوں کے مقابلے میں تحریک کی قیادت بہتر ہے۔
URL for Part 14:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-14/d/97673
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-15/d/97725