New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 09:27 AM

Urdu Section ( 16 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Cultural Narcissism- Part 10 (تہذیبی نرگسیت حصہ( 10

 

مبارک حیدر

نرگسیت کا مرض

علم نفسیات کی اصطلاحات میں سے ایک نرگسیت بھی ہے، جس کا بنیادی مفہوم خودپسندی کا ہے۔ نفسیات کی یہ اصطلاح قدیم یونان کی ایک دیو مالائی کہانی سے اخذ کی گئی ہے۔ جس کا مرکزی کردار نارسس ایک خوبصورت ہیرو ہے جسے اپنے چاہنے والوں اور ارد گرد کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اپنی تعریف سنتے سنتے وہ اتنا خودپسند ہو گیا تھا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہو گیا۔ رات دن اپنے عکس کو دیکھتا رہتا۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے بھی پانی کو چھو نہیں سکتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ پانی کی سطح ہلنے سے عکس ٹوٹ جائے گا اور اسکی شکل کا حسن ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ چنانچہ پیاس سے نڈھال مر گیا۔ دیو مالا کے ایک بیان میں ہے کہ دیوتاؤں نے اسے نرگس کا پھول بنا دیا ۔ اسی وجہ سے خودپسندی کو نرگسیت کا نام دیا گیا۔

نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ نرگسیت کی صحت مند حالتیں ہم سب میں موجود ہوتی ہیں، یعنی خود اعتمادی اور عزت نفس اور مسابقت جو عمدہ انسانی صفات مانی جاتی ہیں، نرگسیت کی صحت مند شکل ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق بھی ہماری انا سے ہوتا ہے۔ لیکن خودگری یعنی اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر کہ جس کی بنیاد دوسروں کی تباہی پر نہ رکھی گئی ہو ، خودبینی یعنی اپنی کمزوریوں اور صلاحیتیوں کا ادراک جسے خودشناسی بھی کہہ سکتے ہیں، اور خودنگری یعنی اپنی نگرانی کرنا یعنی زوال پرور مریضانہ اور مہلک رویوں سے خود کوبچانا۔۔۔ یہ سب کسی بھی متحرک معاشرت کے بنیادی جوہر ہوتے ہیں۔ اگرچہ کردار کی ان کیفیتوں کا تعلق بھی فرد کی انا سے ہی ہے، تاہم ان کے لئے نرگسیت کی اصطلاح استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ نرگسیت سے مراد بالعموم ایسی نرگسیت ہوتی ہے جس کا علاج کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ شخصیت کا وہ مرض ہے جو تنظیمی اور سماجی معاملات میں سنگین مسائل کا سبب بنتا ہے۔ اس مرض کا شکار ہونے والے لوگ ارد گرد کی دنیا میں اذیت اور تباہی کا باعث بنتے ہیں اور اس کا سب سے بڑھ کر خطرناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ مریض کبھی خود کو مریض نہیں مانتا۔ نہایت چابکدستی سے اپنا دفاع پیش کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جو اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں انہیں حاسد ، گستاخ یا بدنیت ثابت کر دے۔ لہٰذا ایسے مریضوں کا علاج کرنے کے لئے عزیزو اقارب اور دوستوں کو بالآخر سختی یا جراحی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔

فرد کی مریضانہ نرگسیت جس طرح نتظیم یا خاندان کے لئے شدید مسائل کا باعث بنتی ہے، اسی طرح اجتماعی یا تہذیبی نرگسیت اقوامِ عالم کی علاقائی اور عالمی تنظیموں میں کشیدگی، اضطراب اور بالآخر تصادم کو جنم دیتی ہے اور انسانی برادری کی اجتماعی نشوونما کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔

مختلف تہذیبوں میں پائی جانے والی مریضانہ نرگسیت کا مطالعہ ایک ایسا کام ہے جو اس مختصر کتابچہ کے احاطہ سے بہت بڑا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تحریر اسلامی تہذیب کا جائزہ لینے کا دعویٰ بھی نہیں کرتی، بلکہ برصغیر کے پس منظر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال پر ایک نہایت سرسری اور سطحی سی دعوتِ فکر ہے جو شاید مستقبل کی زیادہ گہری اور جامع تصنیفات کا پیش خیمہ بنے۔

اس سرسری اور سطحی جائزہ سے پہلے انفرادی نرگسیت پر کی جانے والی تحقیق کا مختصر بیان ضروری ہے۔ یہ تحقیق ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دوسری بڑی کاروباری یا انتظامی تنظیموں کے اندر پیدا ہونے والے ایسے مسائل کے حل کی خاطر کرائی جاتی ہے جو اِن تنظیموں کے طاقتور یا اہم افراد کی نرگسیت سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی تنظیم کی اجتماعی کاکردگی میں کسی ایک شخص کی حد درجہ بڑھی ہوئی خودپسندی اور جارحانہ اناپرستی ایسی رکاوٹیں اور ایسی الجھنیں پیدا کر دیتی ہے جس سے تنظیم کو نقصان پہنچتا ہے، جبکہ متعلقہ شخص کو نہ تو اس کا احساس ہوتا ہے نہ ہی وہ احساس دلائے جانے پر اپنی اذیت ناک کوتاہی کو قبول کرتا ہے۔ ایسے افراد کے لئے ماہرین کی تقریباً متفقہ رائے یہ ہے کہ ان کا علاج صرف یہ ہے کہ ان کے خلاف اجتماعی اور کرخت تنقید کا نشتر استعمال کیا جائے۔ ان کے وہ ہاتھ باندھ دیئے جائیں جن سے وہ تنظیم کو توڑتے پھوڑتے ہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے نرگسیت کے مریض کو پہچاننا اس لئے مشکل ہوتا ہے کہ یہ ہر لمحہ اداکاری کے ذریعے اپنی انا کی حفاظت کرتا ہے اور دنیا کے سامنے ایک جعلی تشخص بنائے رکھتا ہے۔ چنانچہ نرگسیت کے مریض دھوکہ دہی کے استاد بن جاتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو پہچاننا اس لئے ازحد ضروری ہے کہ کیونکہ یہ اپنے منفی رویوں سے تنظیم کی کارکردگی خراب کرتے ہیں۔

نرگسیت کے مرض کی مندرجہ ذیل علامات قابل غور ہیں:

1۔ نرگسی شخص کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اجتماعی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر اولیت دے سکے۔ وہ دوسروں کے لئے ہمدردی سے خالی ہوتا ہے مثلا جب وہ آپ کی خیریت پوچھتا ہے تو یہ ایک عادت اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسے حقیقت میں آپ کی خیریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

2۔ جب نرگسی شخص کی انا کو خطرہ پیدا ہو جائے تو وہ صحت مند آدمی سے کہیں زیادہ جذباتی ردعمل ظاہر کرتا ہے، حتیٰ کہ نرگسی طیش کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جب کسی تقابلی جائزہ کے نتیجے میں وہ دوسروں سے کم تر نظر آئے تو وہ عام آدمی سے کہیں زیادہ غم و غصہ اور جارحیت دکھاتا ہے۔ دراصل اس کے مزاج کے اتار چڑھاؤ کا تعلق عام طور پر اسی بات سے ہوتا ہے کہ سماجی تقابل میں اسے اپنے بارے میں کیا خبر آئی ہے۔ یعنی تعریف ہوئی تو اتراتا ہے اور اگر کمتر قرار دیا گیا ہے تو آپے سے باہر ہوتا یا پھر احساس مظلومیت کا شکار ہو جاتا ہے۔

3۔ عام آدمی ناکامی کی صورت میں خود کو قصور وار سمجھتا ہے، لیکن نرگسی شخص اپنی ناکامی کو اپنی ذات سے باہر نکال دیتا ہے یعنی دوسروں پر ڈال دیتا ہے، کیونکہ ایسے شخص میں اپنی ناکامی کو شرم ناک بنا کر اپنی نفسیات میں مستقل گوندھ لینے کا رجحان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس شرمناک بات کو یعنی اپنی ناکامی کو ہر صورت میں اپنے اوپر سے ہٹا کر کسی اور پر ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔ البتہ کبھی کبھی جب نرگسی شخصیت کی نظر میں اپنا مقام بہت ہی بلند ہو اور اسے اپنا مقام پست ہونے کا خطرہ نہ ہو تو ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ ناکامی کی ذمہ داری قبول کر لے۔ تاہم اس میں بھی اپنی عالی ظرفی کی دھاک بٹھانے کا جذبہ موجود ہوتا ہے، اور وہ اپنی کوتاہی کی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے اس بات کی تسلی کر لیتا ہے کہ اس کا ثمر اسے تعریف و توصیف کی صورت میں ملے گا۔

4۔ تکبر، خودنمائی، فخر اور فنکارانہ مطلب براری نرگسی شخص کی صفات ہیں جن کا مظاہرہ وہ کبھی کھلے بندوں اور کبھی نفاست سے کرتا ہے۔ وہ تعریف و تحسین کا بھوکا ہوتا ہے۔ نرگسی طیش، دوسروں کی کردار کشی اور اپنی نمائش، نرگسی شخصیت کے طرزِ عمل کے ظاہری حصے ہیں۔ مثلاً اپنے ہم پلہ یا فائق لوگوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مجھ سے جلتے ہیں، یا یہ کہ میرے خلاف سازش کرتے ہیں۔ ایسے الزامات وہ کبھی کھلے بندوں اور کبھی اشارتاً لگاتا ہے۔

5۔ ندامت اور تشکر دونوں سے انکار نرگسی شخصیت کا وہ نفیس ہتھکنڈا ہے جس سے وہ اپنی فضیلت و عظمت کا تحفظ کرتا ہے ، یعنی اگر اپنی کوتاہی پر نادم ہو یا دوسروں کی نوازشات کا شکرگزار ہو تو اسے اپنی عظمت جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر میٹنگ میں دیر سے آئے تو کہتا ہے فلاں شخص نے مجھے باتوں میں الجھائے رکھا اور دیر کرا دی۔ یا اگر کاروبار میں نقصان ہو جائے تو عالمی سرمایہ دار کی چکربازی کو ذمہ دار ٹھہرائے گا یا اپنے شراکت دار کی نالائقی وغیرہ وغیرہ۔

6۔ چاہے اس کی گفتگو میں نمائش کا عنصر صاف نظر آ رہا ہو، پھر بھی نرگسی مریض کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اہمیت کا تاثر اس انداز سے چھوڑے کہ جیسے اس کا مقصد نمائش یا بڑ مارنا نہیں تھا۔ مثلاً کسی بڑی شخصیت سے ملاقات کا خصوصی ذکر کرنے کی بجائے اس طرح سے خبر پھیلائے گا جیسے اس شخصیت سے ملاپ ایک معمول کی بات تھی۔ مثلاً مسٹر فلاں میرے ہاں کھانے پر آئے تو کہنے لگے یار تمہاری وہ بات اور وہ بات وغیرہ وغیرہ۔ مقصد دو ہوتے ہیں: سننے والے سے ایک حد ادب قائم کرنا اور اپنے اعلیٰ مقام کی خبر پھیلانا۔

سائیکالوجسٹ ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کے پی ایچ ڈی پروفائل سائٹ پر نرگسی شخصیت والوں کے خواص مختصراً یوں ہیں:

           ان کے ہر کام میں دوسروں کے جذبات سے لاتعلقی ہوتی ہے ، مثلاً رسمی اخلاقیات اور اپنی نیکوکاری کے اظہار کے لئے مزاج پرسی وغیرہ۔ جس میں حقیقی دلچسپی موجود نہیں ہوتی۔

2۔ ان کے تقریباً تمام خیالات اور طرزِ عمل دوسروں سے مستعار ہوتے ہیں، یعنی یہ لوگ ایسے لوگوں کے خیالات و اطوار کی نقالی کرتے ہیں جنھیں یہ سند مانتے ہیں۔ اسے عکس کی پیروی (Mirroring) کہا جاتا ہے، یعنی یہ ان بڑے لوگوں کی پیروی کے ذریعے دراصل خود کو عظیم محسوس کرتے ہیں۔

3 ۔ دوسرے کے مسائل و جذبات سے لاتعلقی کے نتیجہ میں انہیں دوسروں کی بات کاٹنے اور اپنی سنانے کی جلدی ہوتی ہے۔ یہ کبھی دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے نہیں سنتے بلکہ اس لئے سنتے ہیں کہ اس کے جواب میں انہوں نے کیا کہنا ہے۔ لہٰذا ان کا سیکھنے کا عمل محدود اور ان کا علم انا سے رنگا ہوا ہوتا ہے۔

4۔ یہ چھوٹے کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے، بلکہ دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں چھوٹے چھوٹے کاموں میں وقت ضائع کرنا ان کی اہم شخصیت کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔

5۔ ان کے خیال میں کام کے قواعد کی پابندی کرنا ان پر لازم نہیں ہوتا۔

6۔ اگر انہیں یقین ہو کہ پکڑے نہیں جائیں گے تو دھوکہ دہی سے نہیں چوکتے۔

7۔ جب آپ کام میں ان سے شراکت کریں تو آپ یقین رکھیں کہ کام کا بڑا حصہ آپ کو ہی کرنا ہو گا۔

8۔ یہ جب کوئی کام دوسروں کے سپرد کرتے ہیں تو پھر اس کی چھوٹی چھوٹی تفصیل میں دخل اندازی بھی جاری رکھتے ہیں۔ پھر اگر کام خوبی سے مکمل ہو جائے تو اس کا سہرا اپنے سر باندھ لیتے ہیں، لیکن اگر بگڑ جائے تو الزام اس پر ڈال دیتے ہیں جسے کام سپرد کیا گیا تھا۔

9۔ جب موضوعِ گفتگو یہ خود ہوں تو یہ دیر تک سنتے ہیں اور کبھی روکتے نہیں، تھکتے نہیں۔ لیکن اگر گفتگو کا موضوع کوئی دوسرا ہو یا ایسا مسئلہ زیر بحث ہو جس میں ان کی ذات کا ذکر نہیں آتا تو یہ دوران گفتگو بے قرار یا لاتعلق ہو جاتے ہیں۔

10۔ نرگسی شخص کے ساتھ کام کرنے والوں پر ذہنی اور نفسیاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا جن تنظیموں میں یہ لوگ بالادست حیثیت میں ہوں وہاں ملازموں اور اہلکاروں میں غیر حاضری کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ جہاں یہ ماتحت اہلکار کی حیثیت میں ہوں، وہاں ساتھیوں سے ٹکراؤ کی حالت میں رہتے ہیں یا احساسِ مظلومیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

1)           Downs, A. 1997: \"Beyoyond the Looking Glass\"

2)           E.G. Kenberg.1992: \"Borderline Conditions of Pathological Narcissism\":

3)           Bogart M, Benotsh, EG. & Pevlovic, J.D. 2004:\"Feeling Superior but Threatened\":

4)           Campbell, W.G.,Goodie,A.S. and Foster, J.D. 2004: \"Narcissism, Confidence and Risk Attitude..\"

5)           Campbell, W,G., Foster, J.D.and Brunell, A.B. 2004: \"Running from Shame and Reveling in Pride:\"

6)           Reich, A. 1933, : \" Character Analysis\".

7)           M.C. Williams, N. and Lependorf,S. 1990: \" Narcissistic Pathology of Everyday Life. The Denial of Remorse and Gratitude.\"

8)           Brown, A.D. 1997: Narcissism, Identity and Legitimacy:..,\"

URL for Part 9:

https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-9-/d/87539

URL for this part:

https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-10/d/87569

 

Loading..

Loading..