مبارک حیدر
یکسانیت اور یک رنگی
تہذیبی نرگسیت کی مثال ایک ایسے سٹرکچر کی ہے جس کا تقریباً ہر حصہ اُس کی اپنی تصویر ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بھارت میں ایک قدیم قلعہ ایسا ہے کہ جسے میلوں کے فاصلے سے دیکھیں تو مہاتما بدھ کا ایک بُت دکھائی دیتا ہے۔ جب قلعہ کے پاس آئیں تو اس کی ہر دیوار اسی بڑے بُت کی چھوٹی چھوٹی مورتیوں سے بنی ہوئی دکھائی دیتی ہے، یعنی ہر اینٹ یا بلاک جو قلعہ کو تعمیر کرنے میں استعمال ہوا ہے اُس کے ماتھے پر وہی بُت بنا ہوا ہے جو میلوں کے فاصلے سے دکھائی دیتا ہے۔ ہر دیوار، ہر ممٹی، ہر کلس اسی اصول سے ڈھلا ہے۔
معاشرہ اور فرد کی مشابہت صرف پاکستان یا ملتِ مسلمہ سے خاص نہیں۔ بھارت، چین، جاپان، یورپ حتیٰ کہ افریقہ کے کمزور ترین معاشروں میں بھی نرگسیت کا اصول یہی ہے کہ جہاں جتنی نرگسیت موجود ہے، وہاں اجتماعی اور انفرادی نرگسیت کی خصوصیات کا حُلیہ اکثر اوقات ایک سا ہوتا ہے۔ مثلاً جاپانی معاشرہ کا پروقار دھیما پن اور مثبت ردعمل جاپانی فرد کے رویوں میں بھی بالعموم ملتا ہے۔ برطانوی تہذیب کی سرد مہر کم گوئی یا کم آمیزی کے پیچھے جھلکتا ہوا فخر آپ کو فرد کے انداز میں بھی ملے گا۔
تاہم ہر معاشرہ اس قانون پر ایک طرح فٹ نہیں ہوتا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تہذیبوں اور معاشروں کا اجتماعی طرزِ عمل فرد کے طرزِ عمل سے بالکل جدا ہو، جیسا کہ امریکہ میں ہو رہا ہے، جہاں مختلف قوموں اور تہذیبوں سے آنے والوں کی آمد بدستور جاری ہے۔ اس طرح رنگ رنگ کے کلچر، نظریات اور عقائد کا میل جول ہونے سے برداشت اور مفاہمت بڑھ رہی ہے، جس کا ایک مظہر بارک اوبامہ کی کامیابی ہے، جبکہ حکومت ایک طاقتور کارپوریٹ کلچر کی نمائندگی پر مامور ہے۔ چنانچہ قومی یا حکومتی عمل کو دیکھیں تو ایک سخت گیر، متکبر، فاتح اور مداخلت پسند نظام کا حلیہ دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاشرہ کے افراد سے رابطہ کریں تو مزاج کے ان گنت حلیے ملتے ہیں۔ کسی ایک مزاج کو اگر امریکیوں کا مزاج کہہ سکتے ہیں یعنی وہ مزاج جو زیادہ امریکیوں کا ہے تو وہ لاابالی پن اور بے فکری کا ہے، جو قومی طرزِعمل سے ہر گز مشابہہ نہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ امریکی عوام اپنے حکمران طبقہ کی طرف سے رائج کی گئی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اور شکار ہونے کی یہ صفت بھی لاابالی پن اور لاتعلقی کا قدرتی نتیجہ ہے، یعنی فرد اپنی حکومت یا اپنے قائدین کے اعلانات کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیتا اور افراد کے باہم تبادلہ خیال کا ماحول موجود نہیں جو بالخصوص ہمارے معاشروں میں ہے۔ شاید یہ کہنا بھی درست ہے کہ امیگریشن اینڈ ڈائی ورسی فیکیشن کی وہ پالیسی جو امریکہ کے طاقتور حکمرانوں نے اختیار کر رکھی ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے یعنی دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں سے لوگوں کو نقل مکانی کر کے امریکہ میں آنے، رہنے اور شہریت حاصل کرنے کی اجازت دینا اور اس کے نتیجے میں سماجی تنوع پیدا کرنا، یہ امریکی معاشرہ کو ایک ایسا ہجوم بناتا ہے جو قانون اور ریاست سے سرکشی تو نہیں کرتا لیکن پوری شدت کے ساتھ شخصی آزادیوں کا استعمال کرتا ہے جو اسے قانوناً میسر ہیں۔ لیکن یہ ہجوم کبھی یکسانیت پر متفق نہیں ہو سکتا۔ سنجیدہ افکار سے بے نیاز لوگوں کے اس عظیم اور مصروف ہجوم کا غالب تشخص بے فکری اور بے نیازی کے علاوہ شاید کوئی اور نہیں۔ پھر بھی مملکت کے منظم نظریہ سازوں کے تشخص کی نہ تو یہ نقل کرتا ہے نہ پرتشدد مخالفت۔ کیونکہ آئین اور نظام مؤثر ہے اور قوم جتنی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتی ہے ، اتنی تبدیلی انتخابات کے ذریعے ہو جاتی ہے۔ مملکت سے بغاوت کے جو مظاہر پاکستان میں دکھائی دے رہے ہیں وہ صرف ایک ایسے نرگسی معاشرے میں ممکن ہے جہاں فرد یا گروہ خود کو مملکت سے بڑا یا برابر سمجھتا ہے اور دوسری طرف مملکت فرد کو کسی آئینی اور قانونی اصول سے تبدیلی کا موقع فراہم نہیں کرتی، یعنی فرد اور مملکت اپنی اپنی نرگسیت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب قوم اور مملکت کے تصورات افراد کی نظر میں قابلِ احترام تصورات نہ ہوں بلکہ اُن کی جگہ کسی دوسرے تصورِ اجتماعیت کو تقدس حاصل ہو۔ چونکہ پاکستانی معاشرہ میں فکری طور پر مذہبی حکمرانی کو تقدس حاصل ہے اور عملی طور پر جابر اور عسکری قوت کو یہ حق حاصل ہے، لہٰذا قومی اور ملکی تشخص بتدریج بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ میں دنیا کے بہترین جمہوری حقوق کے مروج ہونے کے باوجود یا شاید اُن کی وجہ سے امریکی فرد کی اِنفرادی نرگسیت اور امریکہ کی ریاستی نرگسیت میں وہ یکسانیت پیدا نہیں ہو پاتی جو پاکستان یا سعودی عرب کے کرخت آمرانہ معاشروں میں ملتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اظہار خیال کی آزادی اور اختلاف کا حق اس امر کی ضمانت بنتے ہیں کہ ہر طرح کی نرگسیت پر تنقید اور نگرانی ہوتی رہے چنانچہ فرد کی نرگسیت پر اجتماعی چھاپ نہیں لگتی۔ اس کے برعکس آمرانہ معاشروں میں چونکہ قبائلی جبر اور آمرانہ نظام فرد کی آزادانہ نشوونما کو روکتے ہیں اور معاشرہ تنوع سے محروم ہو جاتا ہے لہٰذا فرد اور معاشرہ کی نرگسیت میں یکسانیت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔
بغور مشاہدہ سے لگتا ہے کہ انفرادی رویوں پر تہذیبی نرگسیت کی چھاپ اتنی ہی گہری ہوتی جاتی ہے جتنی کہ ان معاشروں میں اختلافِ رائے پر پابندیاں سخت ہوتی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر مذہبی تعلیم کا ایک مدرسہ لے لیں۔ مدارس کا اصول تعلیم یہ ہے کہ اختلاف اور سوال کی حدیں سختی سے مقرر ہیں۔ اسلاف کے بنائے ہوئے علمی معیار اور نصاب کو آخری سچائی تسلیم کیا جانا ضروری ہوتا ہے، جن پر سوال صرف اس حد تک کیے جا سکتے ہیں جس حد تک نصاب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہو۔ اختلاف کو گستاخی تصور کیا جاتا ہے یا اختلاف کو رد کرنے کے لئے مقررہ دلائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ استاد کی عزت و تکریم کا تقاضا بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ طالب علم اُن سے اختلاف نہ کرے۔ مدرسہ میں استاد اور اسلاف کے ادب کا اصول وہ پہلی شرط ہوتا ہے جس کے بغیر علم کا حصول ناممکن سمجھتا جاتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب میں مدرسوں اور معاشروں کے اندرونی معاملات کی کھوج لگانے والے محقق اور نقاد اگرچہ اپنے مشاہدات کھلے عام بیان نہیں کر سکتے، تاہم استاد اور شاگرد کے درمیان تابع داری کے بعض ایسے حقائق کا پتہ چلتا رہتا ہے جو کبھی کھبار منظر عام پر بھی آ جاتے ہیں اور بڑے سکینڈل کی شکل اختیار کرتے ہیں تاہم یہ کہہ کر گندگی کوڈھانپ دیا جاتا ہے کہ یہ انفرادی فعل ہے اور یہ کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آمرانہ معاشروں میں پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں یا نہ ہوں شکل اور ساخت میں یہ انگلیاں برابر یا لگ بھگ برابر ہوتی ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کے مدرسوں کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ مدرسوں میں پائی جانے والی یکسانیت صرف ظاہری وردی اور آداب کی یکسانیت تک محدود نہیں ہے۔ یہ افکار اور رویوں کی یکسانیت کا ویسا ہی نمونہ پیش کرتی ہے جیسا کہ قرآن کو حفظ کرنے والے بچوں میں دیکھا گیا ہے۔ یعنی سوچنے اور پوچھنے کا عمل مکمل طور پر بند اور موقوف کر کے صرف الفاظ کی آوازوں کو یاد کرنا، جن کے کسی مفہوم کا بچے کو علم نہیں ہوتا اور بسا اوقات تمام عمر وہ یہ مفہوم نہیں جان پاتا۔
چونکہ دین اسلام کے مختلف امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ آج تک زیرو زَبر کے ساتھ ویسے کا ویسا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے وقت میں تھا۔ اور چونکہ ازمنہ وسطیٰ کے فاتح عرب مفکرین کا یہ نظریہ تھا کہ اسلام کی ہر تفصیل، ہر ضابطہ، ہر فیصلہ، ہر روایت تبدیل کیے بغیر ہر دور میں نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ واجب العمل ہے، اور چونکہ برصغیر پاک و ہند وغیرہ میں قابض و فائز مذہبی علماء کا فیصلہ ہے کہ دنیا بدلتی ہے نہ انسان، نہ انسانی معاشرہ میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے۔ اور مسلمان کو تو اس لیے بھی بدلنا منع ہے کیونکہ اُس کا فرض ہے کہ خود کو اسلام کے مطابق ڈھالتا رہے، جبکہ اسلام نے قیامت تک پہلی صدی ہجری والی حالت میں قائم رہنا ہے۔ اس نظریہ کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان اور دنیا کو اسلام کے مطابق ڈھلنا چاہیے کیونکہ اسلام کے کسی ضابطہ یا قانون کو حالات کے مطابق تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ زمانے کی مجبوریوں کے ماتحت بعض اسلامی مکاتب فکر نے یہ گنجائش نکالی کہ اجتہاد کی اجازت ہے، لیکن یہ اجازت بھی عام مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ صرف علماء کو ہے۔ اور علماء کے لئے شرائط کڑی ہیں۔ جبکہ شیخ عبدالوہاب کے پیروکار تو اس حق پر بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ چنانچہ عملاً اسلامی معاشرہ شدید دباؤ اور دو دلی کا شکارہے۔ جس کے باعث ریاکاری زوروں پر ہے۔ ایک طرف اسلامی قوانین اور اعتقاد ہیں ، جن میں علما کے بقول کسی تبدیلی یا ترمیم کی گنجائش نہیں مثلاً قتل، زنا، چوری اور دوسرے فوجداری جرائم کی سزائیں اور غلام لونڈی وغیرہ کی اجازت۔ اسی طرح فنون لطیفہ اور موسیقی ، تصویر کشی، بُت تراشی کی ممانعت۔ دوسری طرف آج کی دنیا کے اصول و ضوابط ہیں جن میں اسلامی سزاؤں کے لئے گنجائش نہیں اور لونڈی غلام کا تصور بھی جرم ہے۔ اسی طرح انفرادی حقوق اور جمالیات کے ایسے تصورات زوروں پر ہیں جن سے اسلام کراہت کرتا ہے۔ مسلم فرد اس دنیا میں عقیدہ اور عمل کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔ لہٰذا اسلام کے یہ مختلف امتیازات باہم مل کر تبدیلی اور تنوع کے عمل کو روک دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مدرسہ کے مہتمم سے لے کر مبتدی تک سب ایک ہی فکری اور جذباتی سانچہ میں ڈھلے ہوئے ملتے ہیں۔ یکسانیت کی یہ خواہش اتنی شدید ہے کہ احیائے اسلام کے لئے چلنے والی تحریک سے جو بھی شخص وابستہ ہوتا ہے سب سے پہلے اپنے حلیہ اور ظاہری انداز کو تحریک کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ڈھالتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ میں دین دار مردوں اور عورتوں کا ایک مخصوص حلیہ اور آداب حتیٰ کہ لب و لہجہ یکسانیت کی اسی خواہش کا نتیجہ ہے۔
ایک اور مثال پاکستان کے شمالی علاقوں اور فاٹا کے قبائل کی ہے۔ چونکہ قبائلی طرزِ زندگی انسانی تہذیب کی ابتدائی اور کم ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے، لہٰذا قبائلی نظام شدت کے ساتھ روایت پر انحصار کرتا ہے۔ اور چونکہ علم و فکر کا معیار ایسا نہیں ہوتا کہ فیصلے علم کی بنیاد پر کیے جائیں یا عقل اور دلیل کو اہمیت دی جائے، چنانچہ قبائلی نظام اجتماعی جبر کا نظام ہوتا ہے۔ یعنی چاہے فرد پر سردار کا جبر ہو یا نہ ہو روایت کا جبر اتنا مکمل اور آخری ہوتا ہے کہ اس سے فرد کا اختلاف واجب القتل حدوں تک خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ہی قبائلی جبر میں رسول اللہ ﷺ کو شدید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالانکہ اسلام نے چند بنیادی اصولوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قبائل کے بہت سارے تعصبات اور میلانات کا احترام کیا۔ مثلاً جہاں بُت پرستی کو سختی سے مسترد کیا وہاں غلاموں اور لونڈیوں اور ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت بھی دی۔
URL for Part 10:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-10/d/87569
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-11/d/87589