New Age Islam
Fri May 23 2025, 05:30 PM

Urdu Section ( 26 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Misconceptions About Freedom Of Speech اظہار رائے کی آزادی کے غلط تصورات

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

26 اپریل 2025

یہ ناقابلِ تردید صداقت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی عہد حاضر کا ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ عام طور پر معاشرے اس حوالے سے افراط و تفریط میں مبتلا ہیں۔ اس کی مثالیں آئے دن دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کو درست پیرائے میں سمجھا بھی جائے، اور متوازن طور پر اس کا استعمال بھی کیا جائے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 19 میں اظہار رائے کی آزادی کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے۔

Everyone has the right to freedom of opinion and expression, this right includes freedom to hold opinion without interference and to seek, receive and impart information and ideas thought anymedia and regardless of frontier.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں اظہار رائے کی آزادی کا منفی استعمال کیوں کیا جاتاہے۔ جبکہ جو لوگ یہ مکروہ حرکت انجام دیتے ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کے حدود و قیود اور شرائط ہیں۔ اس لیے کسی بھی شخص کو خواہ اس کا تعلق کسی بھی سماج یا معاشرے سے ہو، اس کا ایمان و یقین اور عقیدہ کچھہ بھی ہو۔ اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت اس کے متعینہ اصولوں اور ضوابط سے متجاوز ہرگز نہ کرے۔

در اصل سماج میں  اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے درج ذیل نظریات رائج ہیں۔ جن سے عموما سابقہ پڑتا ہے رہتا ہے۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جو اپنے آپ کو بہت زیادہ لبرل یا مذہب بیزار سمجھتا ہے ۔ وہ کسی بھی نظریہ، دھرم اور فکرو و فلسفہ پر منفی تنقید کرتا ہے اور پھر اسے اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں شامل کرنے کی تاویلات پیش کرنے لگتا ہے۔ جب کہ اظہار رائے کی آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی کے مذہب و دھرم اور اس کے عقائد و نظریات پر لعن طعن کرنے لگے۔ یاد رکھیے مذہب و عقیدہ کا معاملہ نہایت حساس ہوتا ہے، اس لیے خواہ سامنے والے کا نظریہ اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،ںتب بھی کسی کے دین و مذہب اور نظریہ پر منفی رائے دینے سے پوری طرح اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ سماج میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب دشمنی اور عناد میں  اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال کرتاہے۔ اس حوالے سے مغرب میں آئے دن بہت ساری چیزیں ہوئیں ہیں  جن کو دنیا نے دیکھا ہے۔ سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو ادارے اظہار رائے کی آزادی کے قانون ساز ہیں۔ آخر وہ کیوں ایسے لوگوں پر شکنجہ نہیں کستے ہیں جو رائے کی آزادی کے نام پر ملک و سماج میں بد امنی اور خلفشار و انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ مسلمانوں کے عقائد ، ان کی مقدس شخصیات کے خلاف بولنے والوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے۔ یقینا یہ رویہ نہایت افسوسناک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کے نام پر جو کھیل دنیا بھر میں کھیلا جارہا ہے، یا اب تک مسلمانوں کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کے نام پر جو کچھ بھی ہوا ہے وہ کسی منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے۔

اس رویہ سے ان اداروں کی ایمانداری اور اخلاص پر بھی حرف آتا ہے کہ جو اپنے آپ کو انسانی حقوق اور سماجی ہم آہنگی کے ذمے دار قرار دیئے جاتے ہیں۔ اب تو صرف مغرب میں ہی نہیں بلکہ خود ہمارے وطن عزیز یعنی بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر متعدد بار مسلمانوں کی مقدس و محترم شخصیات اور ان کے ایمان و یقین کو گرد آلود کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ کرب کی بات یہ ہے کہ یہ رویہ مخفی طور پر نہیں اپنایا گیا بلکہ کھلے عام اس طرح کی حرکت کی گئی۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے اور ملک میں جو ادیان و مذاہب کے لیے جانا جاتاہے، اپنے اپنے افکار و خیالات اور نظریات کے احترام کے ساتھ ساتھ، دیگر افکار و نظریات کا احترام بھی یہاں اسی طرح سے کیا جاتا رہا ہے، جس طرح سے لوگ اپنے دین ودھرم کا کرتے ہیں۔ یہ ہماری مشترکہ و قومی ثقافت کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود اظہار رائے کی آزادی کے نام پر خاص  مذہب یا اس کی محترم شخصیات کو سب وشتم کیا گیا۔ یقیناً یہ کردار ہندوستان جیسی سرزمین کے لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔ دھرم کوئی بھی ہو ، اس کا احترام کیا جائے ،خواہ ہم اس کے تابع ہوں یا نہ ہوں۔

یہ یاد رہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کسی بھی کمیونٹی کو ہراساں کرنے سے جو اثرات سماج و معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے نتائج ہمیشہ مایوس کن ہی ہوتے ہیں۔ مذہب دشمنی  یا اپنے دین کی تبلیغ واشاعت کی وجہ سے  ہم اسقدر حد اعتدال سے نہ نکل  جائیں کہ کسی کے مذہب کو ہی لعن طعن کرنے لگیں۔ یاد رکھیے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ صرف اس قوم کا ہی دشمن نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے مذہب کے لیے بھی مخلص نہیں ہے۔

اسی طرح ہمارے سماج  میں اظہار رائے کی آزادی کے مثبت تصور کو پوری طرح مسخ کردیا گیا ہے۔ اگر آج ہم اپنے دینی اداروں، خانقاہوں کا رویہ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں توجائز سوال کرنے تک کو گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی حضرت نے جو فرمادیا وہی اٹل اور حق ہے۔ اگر اس پر آپ کو کوئی اعتراض ہے ۔ یا اس کا کوئی دوسرا بھی پہلو آپ کے دماغ میں ہے تو اس کا اظہار کرنا حضرت کی شان میں گستاخی سمجھا جاتاہے ۔ جب کہ اسلام میں کہیں بھی اس طرح کی روایات و تعلیمات نہیں ملتی ہیں۔ دینی حلقوں میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو جس طرح محدود کیا گیا ہے۔ وہ کسی بھی ترقی پسند اور ترقی یافتہ سماج کے لیے بالکل درست نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک بات اور ہے جو عام طور پر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ اگر کسی بزرگ یا کسی دینی شخصیت نے کچھ فرمادیا تو اس حلقے کے لوگ اس کے خلاف سوچنا تو دوسری بات اس کے خلاف بولنے تک کو ناگوار محسوس کرتے ہیں۔ یہ جو کردار ہم اپنے دینی حلقوں میں دیکھتے ہیں۔ اس سے خود ہمیں بھی نقصان ہوتا ہے اور انہیں باتوں کو بنیاد بناکر اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ اس لیے فوری طور ہمیں اپنے اس رویے سے پورے طور پر گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ قرآن کریم میں بار بار نوع انسانی کو تدبر وتفکر کرنے پر زور دیا گیا۔ اسی طرح اسلام کی پوری روشن تاریخ میں ایک روایت بھی ایسی نہیں ملے گی کہ کہیں یہ کہا جا گیا ہو کہ بغیر سوچے سمجھے چیزوں کو تسلیم کرلیا جائے۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ خود حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا واقعہ معروف ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ جو ہمیں اس بات کا پیغام دیتی ہیں کہ رائے کی آزادی کا اظہار کرنا کوئی قباحت کی بات نہیں ہے ۔ ہاں رائے کی آزادی کے اظہار سے کسی کو آزار نہ پہنچے۔ لبرل طبقہ ہو، یا مذہب دشمن، اسی طرح دینی متشددین کا طبقہ ہو۔ ان تمام کو چاہیے کہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کا کسی بھی طرح غلط استعمال نہ ہونے پائے۔   اصول و قوانین  کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ، توازن و اعتدال اور میانہ روی پر زور دیا جائے۔ جب چیزوں کو اس انداز میں پیش کیا جائے گا تو یقیناً اس کا علمی و فکری حلقوں میں بھی مثبت اثر ہوگا ،نیز سیاسی اور سماجی حلقے بھی متوازن طور پر مستفید ہوں گے۔

آج سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ہم نے اظہار رائے کی آزادی کی تعبیر و تشریح اپنے اپنے فائدے اور نقصان کے اعتبار سے وضع کرلی ہے۔ جس کی بناء پر بہت سارے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں امن و امان اور ہم آہنگی بنی رہے، تو ضروری ہے کہ جو آزادی رائے ہم اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں، وہی سامنے والے کے لیے بھی ضروری سمجھنا چاہیے۔ اختلاف آراء اور نظریاتی عدم اتفاق کے باوجود جو مشترکہ قدر ہے،وہ یہ ہے کہ باہمی اراء کا احترام وتقدس، معاشرتی یکجہتی اور قومی و بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک ایسا بنیادی ادارہ ہے جس کے فروغ وبقاء سے نتائج دور رس اور مفید مرتب ہوں گے۔

جب اظہار کی آزادی کا درست اور متوازن استعمال کیا جائے گا تو ہمارے درمیان اس حوالے سے جو غلط تصورات رائج ہوچکے ہیں، ان کا قلع قمع ہوگا، نیز تکثیری سماج میں مذہبی احترام کی ایک متمول اور صحت مند وصالح فکر کے رواج پانے کے ساتھ ساتھ ،علمی و تحقیقی راہ بھی ہموار ہوگی۔ اب ضروری ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے جتنے بھی اور جس قدر بھی منفی یا جانبدار تصورات معاشرے میں پائے جاتے ہیں ان پر اجتماعی طور پر قدغن لگائی جائے۔

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/misconceptions-about-freedom-speech/d/135321

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..