New Age Islam
Fri Oct 11 2024, 10:56 PM

Urdu Section ( 17 Jun 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Wahhabism –A Peculiar Way to Promote Tawheed (9) نظریہ وہابیت –توحید کی تبلیغ کا انوکھا انداز

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

13 جون 2017

یہ بات اکثر قارئین کے لئے باعث حیرت ہو سکتی ہے کہ ایک طرف تو شیخ نجدی پوری دنیا کو (نام نہاد) خالص توحید پرستی کا درس دینے کے خمار میں ظلم عدوان کی حد تک تجاوز کرتے ہوئے اور وہابی نظریہ توحید سے اعراض کرنے والوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن جب خود اُن کے بھائی سلیمان بن عبد الوہاب (متوفی 1208ہجری) ان کے نومولود توحیدی افکار و نظریات کی علمی گرفت کرتے ہیں تو شیخ نجدی اور ان کی پوری جماعت صم بکم عمی کی تصویر بنی ہوئی نظر آتی ہے۔ جبکہ علمی دیانت داری اور غیرت دینی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر ان کی فکری اور نظریاتی بنیادیں جادۂ حق و صداقت کی رہنمائی کرتی ہیں تو انہیں علماء حق کے اعتراضات کا مدلل اور معقول جواب دینا چاہیے، اور اگر وہ ان علماء حق کی علمی گرفت سے خود کو نہیں بچا سکتے اور ان کے اعتراضات کا معقول جواب نہیں دے سکتے تو انہیں اپنے تمام فتنہ پرور اور شرانگیز توحیدی افکار و نظریات سے رجوع کر لینا چاہیے، اور ان کی تبلیغ و اشاعت کے اپنے تمام مقاصد شریرہ سے دست بردار ہو جانا چاہیے۔

ذیل میں شیخ نجدی کی تکفیر مسلمین کے رد میں اُن کے بھائی سلیمان بن عبد الوہاب (متوفی 1208ہجری) کی ایک شہر آفاق تصنیف ‘‘الصواعق الٰہیۃ’’ سے چند اقتباسات نقل کئے جا رہے ہیں:

‘‘تمہارے عقائد اور تکفیر کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ توحید و رسالت کی گواہی کے بعد اسلام کا سب سے عظیم رکن نماز ہے، اس کے باوجود جو شخص ریاکاری اور نام و نمود کے لیے نماز ادا کرتا ہے اس کے بارے میں فقہاء کا قول ہے کہ اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرمائے گا: میں دوسرے شرکاء کی نسبت اپنے شرک سے زیادہ بے نیاز ہوں۔جس شخص نے اپنے کسی عمل میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کر لیا میں اس کے عمل اور شرک سے بے نیازی کا اعلان کرتا ہوں۔ نیز، قیامت کے دن اللہ ریاکار سے فرمائے گا: جا، جا کر اپنا اجر اس سے طلب کر جس کے لئے تو نے عمل کیا تھا۔ ایسے شخص کے تعلق سے فقہاء نے فرمایا کہ ریاکاری میں انجام دیا گیا اس کا یہ عمل باطل ہے، اور یہ نہیں کہا کہ اس کا قتل کرنا اور اس کا مال و اسباب لوٹنا جائز ہے، جبکہ تم اس سے بہت خفیف اور معمولی بات کو کفر قرار دیتے ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تم فقہاء اسلام اور ان کی عبارتوں کی تقلید نہیں کرتے بلکہ تم نے از خود جو سمجھا ہے بس اسی کو حق مانتے ہواور اسے ضروریات دین قرار دیکر اس کے منکروں کو کافر قرار دیتے ہواور جن مشتبہ عبارات سے تم استدلال کرتے ہو وہ محض تمہاری مغالطہ آرائی ہے۔ ہمارا تم سے مطالبہ ہے کہ تم اپنے خود ساختہ مذہب کی تائید میں فقہاء اسلام میں سے کسی کی بھی نص صریح پیش کرو، اور اگر تم کوئی ایسی عبارت پیش کرنے سے قاصر ہو اور محض مسلمانوں کو سب وشتم اور ان کی تکفیر کرتے ہو تو ہم تمہارے شر سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں’’۔

‘‘مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں تمہارا موقف اس لئے بھی درست نہیں ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا اور نذر و نیاز کرنا قطعاً کفر نہیں، چہ جائیکہ اس کے مرتکب مسلمان کو ملت اسلامیہ سے ہی خارج کر دیا جائے۔ طبرانی نے روایت کیا ہے کہ اگر کوئی شخص مدد چاہتا ہو تو یوں کہے کہ ائے اللہ کے بندوں! میری مدد کرو۔ اس حدیث کو فقہاء اسلام نے کثرت کے ساتھ اپنی مستند کتابوں میں نقل کیا ہے اور اس کی اشاعت عام ہے۔نیز، معتمد فقہاء میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا، چنانچہ امام نووی نےاپنی کتاب الاذکار میں اور ابن القیم اپنی کتاب ‘‘الکلم الطیب’’ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابن مفلح نے اس حدیث کو اپنی کتاب ‘‘کتاب الآداب’’ میں ذکر کے لکھا ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل کے صاحبزادےبیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے پانچ مرتبہ حجِ بیت اللہ کیا ہے، ایک بار میں پیدل جا رہا تھا اور راستہ بھو ل گیا، میں نے کہا ائے عباد اللہ مجھے راستہ دکھاؤ، میں یونہی کہتا رہا یہاں تک کہ میں صحیح راستہ پر آ لگا۔’’

‘‘لہٰذا، میرا کہنا یہ ہے کہ جو شخص کسی غائب یا فوت شدہ ولی یا بزرگ کو پکارتا ہے تو تم اس کی تکفیر کرتے ہو، بلکہ تمام اپنے قیاس فاسدہ میں اتنے جری ہو کہ کہتے ہو کہ ایسے شخص کا شرک ان مشرکین کے شرک سے بھی بڑا ہے جو بحر و بر میں عبادت کے لئے غیر اللہ کو پکارتے تھے اور اس کے رسول کی علی الاعلان تکذیب کرتے تھے۔کیا تم اس حدیث کی نص اور اس کے مقتضی پر علماء اور ائمہ کے عمل کو اس شخص کے حق میں اصل نہیں مانتے جو بزرگوں اور نیک و صالحین کو پکارتا ہے اور محض اپنے فاسد قیاس سے اسے شرک اکبر قرار دیتے ہو، انا للہ و انا الیہ راجعون، جبکہ شہادت قائم ہو جانے کے بعد حدود ساقط ہو جاتی ہیں، لہٰذا، اس مستند اور قوی اصل کی بنیاد پر ایسے شخص سے تکفیر کیوں ساقط نہیں ہو گی۔ نیز، مختصر الروضہ میں ہے: جو شخص توحید و رسالت کی گواہی دیتا ہے اسے کسی بدعت کے ارتکاب کی بناء پر کافر نہیں کہا جائے گا اور ابن تیمیہ نے بھی اس قول کو ترجیح دی ہے[1]۔’’

سلیمان بن عبد الوہاب مزید لکھتے ہیں:

عامۃ المسلمین کی تکفیر کی بنیاد پر تم نے اپنے مذہب کی جو عمارت تعمیر کی ہے اس کے بطلان پر صحیح بخاری کی وہ حدیث شاہد ہے جسے معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے: حضور ﷺ نے فرمایا اللہ جس شخص کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے اور یہ امت ہمیشہ صحیح دین پر قائم رہے گی یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اس حدیث سے ہمارا موقف اس طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے تا قیام قیامت امت کے دین مستقیم پر قائم رہنے کی خبر دی ہے، اور حقیقت حال یہ ہے کہ تم جن امور کو بنائے کفر قرار دیتے ہو وہ ابتداء اسلام سے لیکر آج تک تمام عالم اسلام میں مروج اور مشہور ہیں۔ پس اگر الیاء کے مقابر بڑے بڑے بت ہوتے اور ان سے استمداد اور استغاثہ کرنے والے کافر ہوتے تو تمام امت صحیح دین پر قائم نہ ہوتی، بلکہ ساری امت کافر ہوتی اور تمام بلاد اسلام بلاد کفر بن جاتے جن میں علی الاعلان بتوں کی پرستش ہو رہی ہوتی یا بتوں کی عبادت پر اسلام کے احکام جارے ہوتے۔ نیز، حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق اس امت کے دین صحیح پر قائم ہونے کی حدیث کس طرح درست ہوتی اور یہ بات بالکل ظاہر ہے [2]۔’’

پھر چند صفحات کے بعد شیخ سلیمان بن عبد الوہاب فرماتے ہیں:

‘‘حضور اکرم ﷺ کے بعد سر زمین عرب پر جس پہلے فتنے نے سر ابھارا وہ شیخ نجدی کا فتنہ ہےجس نے عام مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے رائج معمولات کو کفر اور مسلمانوں کو کافر قرار دیا، بلکہ شیخ نجدی نے ان لوگوں کو بھی کافر کہا جو ان مسلمانوں کو کافر نہ مانے۔حالآنکہ حرمین شریفین اور یمن کے علاقوں میں یہ معمولات صدیوں سے رائج ہیں۔ بلکہ تحقیق کے ساتھ یہ بات ہمارے علم میں آئی ہے کہ اولیاء کا وسیلہ، ان کی قبروں سے توسل و استمداد اور اولیاء اللہ کو پکارنا، یہ تمام امور سب سے زیادہ یمن اور حرمین شریفین میں مروج ہیں۔ اور ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ جتنا عظیم فتنہ سرزمینِ نجد میں پیدا ہوا اتنا بڑا فتنہ اب تک کسی زمانے میں کسی بھی جگہ ظاہر نہیں ہوا۔ اور ائے (شیخ نجدی) تمہارا یہ کہنا کہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر تمہاری اتباع واجب ہے اور جو شخص تمہارے مذہب کی اتباع کرے اور اس کے پاس اس مذہب کے اظہار اور دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کی طاقت نہ ہو اس پر واجب ہے کہ وہ تمہارے شہر کی طرف ہجرت کرے اور یہ کہ تم ہی طائف منصورہ ہو، یہ تمام باتیں، حدیث کے خلاف ہیں، کیوں کہ حضور اکر ﷺ کو اللہ نے قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کا علم عطا فرما دیا ہےاور حضور نے امت پر گزرنے والے تمام واقعات کی خبر دے دی ہے۔ اگر حضور ﷺ کو معلوم ہوتا کہ سر زمین مسیلمہ یعنی شہر نجد مآل کا دار الایمان بنے گا اور طائفہ منصورہ اسی شہر میں ہوگا اور ایمان کے چشمے اسی شہر سے جاری ہوں گے، حرمین شریفین اور یمن بلاد کفر بن جائیں گے جن میں بتوں کی پرستش کی جائے گی تو آپ ﷺ ضرور اس کی خبر دیتے اور ہل مشرق اور بالخصوص نجد کے لئے ضرور دعا فرماتے اور حرمین شریفین اور اہل یمن کے لیے بد دعا فرماتے۔ اور حضور ﷺ امت کو اس امر سے باخبر کرتے کہ وہاں کہ باشدے بت پرستی کریں گے اور ان متبرک علاقوں کے لوگوں سے بیزاری کا اظہار فرماتے، جبکہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ اس کے بر عکس حضور نے اہل مشرق کے لئے بالعموم اور نجد کے بارے میں بالخصوص خبر دی ہے کہ وہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگااور اس شہر سے فتنے نمودار ہوں گے اور آپ ﷺ نے نجد کے لئے دعا کرنے سے بھی انکار فرمایااور یہ بات تمہارے زعم کے یکسر برعکس ہے۔ بلکہ تمہارے نزدیک تو کافر وہ ہیں جن کے لئے حضور ﷺ نے دعا فرمائی تھی، اور تمہارے عقیدے میں وہ علاقہ دار الایمان ہے اور وہاں ہجرت کرنا واجب ہے جس کے لئے آپ ﷺ نے دعا کرنے سے انکار فرما دیا تھااور آپ ﷺ نے یہ خبر دی تھی کہ وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور فتنوں کا ظہور ہوگا [3]۔’’

.........................................................

[1] شیخ سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208ھ، اردو ترجمہ: الصواعق الٰہیہ ص، 34-35۔

[2] شیخ سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208ھ، اردو ترجمہ: الصواعق الٰہیہ ص، 40۔

[3] شیخ سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208ھ، اردو ترجمہ: الصواعق الٰہیہ ص، 43-45 (بحوالہ: تاریخ نجد و حجاز)۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/wahhabism-–a-peculiar-way-promote/d/111570

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..