مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
15 جون 2017
شیخ نجدی کے سگے بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب (متوفی 1208ہجری) کی یہ عبارتیں پوری وہابی لابی کا یہ بھرم توڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کہ وہابی تحریک خالص توحید پرستی کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے بر عکس اس سے یہ بات متحقق ہوتی ہے کہ وہابی مذہب کا شیش محل تکفیر مسلمین کی ریت پر قائم ہے اور اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہ تو قرآنی تعلیمات پر ہے اور نہ ہی حدیث نبوی پر ہے، بلکہ وہابی نظریہ کلیۃً اسلام کی روح سے عاری چند گمراہ کن، متشدد، عدم روادار اور انتہاپسند افکاو نظریات اور اصول و معتقدات کا پلندہ ہے جس میں سوائے ایک گروہ کے پوری امت کو کافر و مشرک قرار دیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی تکفیر نہ کرنے والوں کا بھی ایمان اس مذہب میں قابل قبول نہیں ہے،نیز ایسے تمام لوگوں سے جہاد کرنا، ان کا خون ناحق بہانا اور ان کا مال و متاع لوٹنا بھی وہابی مذہب کا تقاضا ہے۔ گو کہ :
فریب کھا ہی گئے اہل جستجو آخر
چراغ ڈھونڈنے آئےتھے شام لے کے چلے
اسی سلسلے میں شیخ سلیمان بن عبد الوہاب (متوفی 1208ہجری) شیخ نجدی کا رد بلیغ کرتے ہوئے ‘‘الصواعق الالٰہیہ’’ میں رقم طراز ہیں:
‘‘تمہارے مذہب کے بطلان پر بخاری و مسلم میں مذکور حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ کی وہ روایت شاہد ہے کہ حضور ﷺ ایک دن منبر پر جلوہ بار ہوئے اور آپ نے فرمایا : مجھے اس بات کا خوف نہیں ہے کہ تم سب میرے بعد شرک میں ملوث ہو جاؤ گے، بلکہ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ تمہیں دنیاوی مال و اسباب بکثرت حاصل ہوں گے اور ان کی محبت میں پڑ کر اختلاف و انتشار کا شکار ہو جاؤ گے اور مال و دولت کی وجہ سے تم ایک دوسرے سے لڑو بھڑو گےاور ہلاکت میں گرفتار ہو جاؤ گے، جس طرح سابقہ امتیں ہلاکت میں مبتلاء ہو گئی تھیں۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے منبر پر آخری خطبہ یہی سنا تھا۔
یہ حدیث تمہارے مذہب کے بطلان پر دلیل اس طور پر ہے کہ حوادث و فتن کے حوالے سے قیامت تک جو بھی احوال و ادوار امت محمدیہ پر گزرنے تھے وہ سب ایک ایک کر کے تصریح کے ساتھ آپ ﷺ نے بیان فرما دئے اور اس حدیث ِصحیح میں بھی آپ ﷺ نے واضح طور پر بیان فرما دیا کہ میری امت ہمیشہ بت پرستی سے محفوظ رہے گی۔ لہٰذا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے حوالے سے نہ تو کبھی بت پرستی کا خطرہ تھا اور نہ ہی آپ ﷺ نے کبھی کسی حدیث میں اس کی خبر دی ہے۔ بلکہ آپ ﷺ کو جس چیز کا خطرہ تھا اور آپ ﷺ نے اپنی امت کو جس بات سے ڈرایا وہ مسلمانوں میں مال و دولت کی فراوانی (اور اس کی محبت میں ڈوب کر آپسی قتل و قتال اور شر و فساد میں مبتلاء ہونا) ہے۔
جبکہ تمہارا مذہب اس حدیث سے متصادم ہے، کیوں کہ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ پوری امت نے بت پرستی کی اور تمام بلاد اسلام بت پرستی سے بھر گئے اور پوری دنیا میں کہیں اگر اسلام کا نام و نشان باقی ہے تو وہ نجد میں ہے۔ یہاں تک کہ تمہارے زعم (باطل) میں روم یمن اور مغرب کے تمام علاقے سب بت پرستی سے بھرے ہوئے ہیں، نیز تمہارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جو انہیں کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے۔ لہٰذا، تمہارے مطابق نجد کے علاوہ تمام بلاد اسلام میں بسنے والے مسلمان کافر ہیں۔ جبکہ جو نیا دین تم لیکر آئے ہو اس کی عمر ابھی صرف دس برس ہے [1]۔
اس کے بعد شیخ سلیمان بن عبد الوہاب شیخ نجدی کی جانب سے پوری امت مسلمہ پر بت پرستی کے الزام کی تردید میں سند صحیح کے ساتھ امام مسلم، ابو یعلیٰ، بیہقی، اور حاکم کی مختلف روایات نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں۔
‘‘ان احادیث سے تمہارے مذہب کے بطلان پر دلیل یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق جس قدر چاہا نبی ﷺ کو اپنے غیب پر مطلع فرمایا اور قیامت تک جو بھی معاملات امت کے ساتھ پیش آنے والے ہیں ان سب کی خبر اللہ نے آپﷺ کو دے دی اور آپ ﷺ نے امت کو اس بات پر مطلع کیا کہ جزیرہ عرب میں شیطان اپنی عبادت سے مایوس ہو چکا ہے اور شداد کی روایت میں آپ ﷺ نے خبر دی ہے کہ جزیرہ عرب میں بت پرستی نہیں ہوگی اور یہ تمام اخبار و روایات تمہارے مذہب سے متصادم ہیں۔ کیوں کہ تمہارا عقیدہ ہے کہ بصرہ اور اس کے گرد و نواح اور عراق میں دجلہ سے لیکر حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی قبروں تک، اور اسی طرح پورے یمن اور حجاز میں شیطان اور بت کی پرستش کی جاتی ہے اور یہاں کہ مسلمان بت پرست اور کفار ہیں۔ حالآنکہ یہ تمام مقامات سرزمین عرب کے وہ علاقے ہیں جن کی سلامتی، ایمان اور کفر سے برأت کی خبر خود صادق و مصدوق پیغمبر ﷺ نے دی ہے۔ اور تم یہاں کے تمام لوگوں کی بالعموم تکفیر کرتے ہو اور انہیں بھی کافر کہتے ہو جو ان کی تکفیر نہ کریں۔ لہٰذا، ان تمام احادیث سے تمہارے مذہب کی تردید ہوتی ہے۔ .....اس لئے کہ حضور ﷺ کی بشارت کبھی باطل نہیں ہوتی، البتہ مذکورہ بالا احادیث میں حضور ﷺ نے بت پرستی کے علاوہ دوسری غلط باتوں مثلاً قتل و قتال اور اختلاف و انتشار سے امت کو ڈرایا ہے۔ جو کہ حدیث پاک سے بالکل ظاہر ہے، اور جن امور کو تم شرک اکبر کا نام دیتے ہواور ان پر عمل پیرا ہونے والے مسلمانوں کو بت پرست کہتے ہوان پر چھ سو سے زیادہ عرصہ سے تمام اہل مکہ ان کے عوام اور علماء عمل پیرا ہیں، اس کے باوجود یہ تمام لوگ اب تمہارے دشمن ہیں، تمہیں شب و ستم کرتے ہیں اور تمہاری بدعقیدگی کی وجہ سے تم پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اور جن کو تم شرک اکبر قرار دیتے ہو ان تمام امور پر مکہ مکرمہ کے تمام علماء شرفاء احکام اسلام جاری کرتے ہیں، اگر تمہارا گمان حق ہے تو یہ تمام لوگ علی الاعلان کافر ہیں، لیکن یہ حدیثیں تمہارے زعم فاسد کی تردید کرتی ہیں اور تمہارے مذہب کا بطلان ثابت کرتی ہیں[2]۔’’
علامہ ابن عابدین شامی، متوفی 1252 ہجری رقم طراز ہیں
‘‘یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا ورنہ ان کے خارجی ہونے کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو کافر کہا جن کے خلاف انہوں نے خروج کیا تھا۔جیسا کہ ہمارے زمانےمیں محمد بن عبد الوہاب کے پیروکار جو نجد سے نکلے اور حرمین شریفین پر قابض ہو گئے اور وہ خود کو حنبلی المذہب کہتے تھے۔ لیکن ان کا اعتقادیہ تھا کہ مسلمان صرف وہ اور ان کے ہمنوا افراد ہیں، اور عقیدے میں جو ان کے خلاف ہیں وہ مسلمان ہی نہیں ہیں، بلکہ مشرک ہیں۔ اسی بناء پر انہوں نے اہل سنت اور علماء اہل سنت کے قتل کو جائز رکھا[3]۔’’
علامہ جمیل عراقی ‘‘الفجر الصادق’’ میں رقم طراز ہیں
‘‘شیخ نجدی نے محمد بن سعود کے لئے ‘‘کشف الشبہات’’ نامی ایک رسالہ لکھا۔ جس میں اس نے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گزشتہ چھ سو سال سے تمام مسلمان کفر اور شرک میں ملوث ہیں اور کفار کے حق میں نازل ہونے والی قرآن کی آیتوں کو صالح اور برگزیدہ مسلمانوں پر چسپاں کیا۔
جبکہ ابن سعود نے اپنی مملکت کی حدود کو وسیع کرنے کے لئے اس رسالہ کا استعمال کیا تاکہ اہل عرب اس کی پیروی کریں۔ شیخ نجدی لوگوں کو اپنے دین کی دعوت دیتا اور لوگوں کو یہ باور کراتا کہ اس وقت زیر آسمان جتنے مسلمان ہیں وہ سب بلا شک و شبہ مشرک ہیں اور جو مشرکین کو قتل کرے گا اس کے لئے جنت واجب ہو گی۔ شیخ نجدی جو بھی احکام جاری کرتا ابن سعود اسے عملی شکل عطا کرتا۔ جب شیخ نجدی کسی مسلمان کے قتل یا اس کے مال و اسباب لوٹنے کا حکم جاری کرتا تو ابن سعود اس کے حکم کی تعمیل کرتا، لہٰذا نجدیوں کی اس قوم میں محمد بن عبد الوہاب ایک نبی کی شان سے رہتا تھا۔ اس کی ہر بات پر عمل کیا جاتا تھا اور وہ کوئی بھی کام اس کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے تھےاور نجد کے لوگ شیخ نجدی کی اتنی تعظیم کرتے تھے جتنی کسی نبی کی تعظیم کی جا سکتی ہے[4]۔’’
..............................................
[1] سلیمان بن عبد الوہاب، متوفی 1208 ہجری، اردو ترجمہ، الصواعق الالٰہیہ ص، 43-45۔
[2] سلیمان بن عبد الوہاب، متوفی 1208 ہجری،اردو ترجمہ، الصواعق الالٰہیہ ص، 47۔
[3] علامہ ابن عابدین شامی، متوفی 1252ھ، اردو ترجمہ: رد المحتار ج3، ص 427-428۔
[4] علامہ جمیل عراقی، اردو ترجمہ: الفجر الصادق، ص 21-22۔ (بحوالہ: تاریخ نجد و حجاز)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism