مصباح الہدی قادری ، نیو ایج اسلام
2017-01-28
اب ہم نظریہ وحدت الوجود کے ان پہلوؤں پر ایک سلسلہ وار تحریر کا آغاز کریں جس کے ذکر کے بغیر نظریہ وحدت الوجود کی تفہیم نامکمل ہے۔ اور وہ حقیقت تصوف اور طریقہ معرفت ہے۔ اس لیے کہ تصوف و طریقت ہی راہ سلوک کا ایسا راستہ ہے جو ایک طالبِ صادق کو نظریہ وحدت الوجود کا مشاہد اور قائل بناتا ہے۔ اور اس ضمن میں ہم تصوف کے باب میں منکرین تصوف کے باطل مفروضات اور نام نہاد مدعیان تصوف کے عمل اور افعال و کردار سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا بھی محاسبہ کریں گے۔
قرآن مقدس میں اللہ کا فرمان ہے:
اِنَۤکَ لِعَلیٰ خُلُق عَظِیمٌ (القلم:4)
ترجمہ: اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)
ایک اور مقام پر اللہ نے فرمایا:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنکبوت:69)
ترجمہ: اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقیناً انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے۔
راقم الحروف نے اب حقیقت تصوف اور طریقہ معرفت کے عنوان پر جن حقائق کی روشنی میں سلسلہ تحریر کا آغاز کرنے کا ارادہ کیا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ ایسےلوگو کو خلافِ مزاج کوئی نئی بات معلوم ہو جنہیں راہ سلوک کی کوئی معرفت نہیں ہے، جنہوں نے تعلیماتِ صوفیاء کے بحر بیکراں میں غوطہ زنی نہیں کی ہے اور جو تصوف کے حقائق اور طریقت و معرفت کے دقائق و معارف سے واقف نہیں ہیں۔ اور جنہوں نے تصوف کی بناد رکھنے والے اور قرآن و سنت کی روشنی میں تصوف کے اصول وضع کرنے والے علمائے کرام اور صوفیائے عظام کی تعلیمات کا مطالعہ نہیں کیا ہے اور جنہوں نے تصوف کا صحیح علم اور اس کی حقیقی معرفت حاصل نہیں ہے کیانہیں مندجہ بالا دونوں آیتیں تصوف کے باب میں غیر متعلق معلوم ہوں گیں۔
لیکن مذکورہ آیات قرآنہ پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے میںاس مقام پر ایک انتہائی اہمنقطے کی وضاحتکرنے کی جسارت کروں گا اور وہ یہ ہے کہ تسبیحات پر انگلیاں پھیرتے رہنا، اوراد و وظائف میں مشغول رہنا، کسی خاص قسم کا جبہ قبہ اور امامہ پہننا، کسی کو پیر بنا لینا یا کسی کا مرید ہو جانا، کسی خانقاہ سے وابستہ ہو جانا اور کسی خانقاہ کا گدی نشین بننا تصوف نہیں ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی شئی اصل تصوف یا حقیقت تصوف ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک معمولاتِ تصوف اور مراسم طریقت میں داخل ہیں اور نظام تصوف و طریقت میں ان میں سے ہر ایک اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور سلوک و تصوف میں ان میں سے ہر ایک کی جدا جدا حیثیتیں ہیں اور صوفیاء اور سالکان راہ حق کے نزدیک ان میں سے کسی کی اہمیت زیادہ ہے اور کسی کی اہمیت کم ہےلیکن ان میں سے کسی بھی شئی پر نہ تو تصوف، نہ معرفت، نہ سلوک اور نہ ہی طریقت کی بنیاد ہے۔
بلکہ تصوف اور سلوک کی بنیاد تہذیبِ اخلاق پر ہے اور تصوف کلیۃً اخلاق حسنہ کا نام ہے۔اور یہ بات محض کوئی بے بنیاد مفروضہ نہیں ہے بلکہ تمام اولیائےکاملین اور امت محمدیہ ﷺ کے تمام صوفیائے عظام نے اس کی تائید و تصریح کی ہے خواہ وہ حضرت جنید بغدادی ہوں، حضرت سری سقطی ہوں، حضرت بشر الحافی ہوں،حضرت ذو النون مصری ہوں، حضرت بایزید بسطامی ہوں، حضرت حاتم اصم ہو، حضرت شقیق بلخی ہوں، حضرت داؤد طائی ہوں، حضرت امام حسن بصری ہوں، سیدنا امام جعفر الصادق ہوں، حضرت امام ابو الحارث المحاسبی ہوں، حضرت امامیحیٰ ابو نصر السرّاج الطوسی ہوں، خواہ امام سُلمی ہوں، خواہ امام قشیری ہوں، خواہ امام غزالی ہوں، خواہ سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر الجیلانی ہوں، حضرت امام سید احمد الرفاعی ہوں، حضرت امام ابو الحسن الشاذلی ہوں،حضرت سیدنا شیخ شہاب الدین سہروردی ہوں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہوں، داتا گنج بخش علی ہجویری ہوں، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ہوں، حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی ہوں، حضرت شاہ نقشبند ہوں اورحضرت مجدد الف ثانی ہوں خواہ مخدوم بہاری حضرت شاہ شرف الدین یحیٰ منیری (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) ہوںان تمام اولیاء، مشائخ اور صوفیاء کرام کا اس بات پر اجماع ہےاور اگر کوئی قرون اولیٰ کے تمام اولیاء اور عرفا کی کتابیں پڑھ ڈالےتو وہ کو یہی پائے گا کہ اس معاملے میں کسی نے کوئی اختلاف نہیں کیا بلکہ تمام مشائخِ طریقت نے یہی تعلیم دی کہ تصوف کچھ اور نہیں بلکہ مکمل طور پر اخلاق حسنہ سے عبارت ہے۔اور پوری دنیا کے تمام سلاسلِ طریقتکے اولیاء، علماء اور مشائخِ راہ سلوک و ولایت کا اس بات پر اجماع ہے خواہ وہ طریقِ قادریہ کے مشائخ ہوں، طریقِ رفاعیہ کے مشائخ ہوں،خواہ طریقِ شاذلیہ کے مشائخ ہوں، طریقِ چشتیہ کے مشائخ ہوں، طریقِ نقشبندیہ کے مشائخ ہوں خواہ طریقِ سہروردیہ کے مشائخ ہوں اس میں کسی کی کوئی دو رائے نہیں ہے۔
لیکن بڑے افسوس کی بات کے کہ آج تصوف کے اس تصور کو مخالفینِ تصوف نے تو مسخ کیا ہی ہے لیکن نام نہاد اہل تصوف نے اور تصوف و طریقت کے نام پر اپنی دکانیں چلانے والے مدعیان تصوف نے بھی تصوف کی اس بنیا کو فراموش کر دیا ہے۔ اگر ان کی کارستانیاں صرف یہیں تک محدود ہوتیں تو کچھ غنیمت تھا لیکن صغیر ہند و پاک میں تصوف و طریقت کا نقصان اس وقت سب سے زیادہہوا جب انتہاپسندوں نےاپنی ’’انا‘‘کی تسکین کے لیے اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے انتہاپسندی اور جہالت کے بطن سے جنم لینے والے رد عمل کو بھی شریعت، طریقت اور تصوف کے آئینے میں دیکھا۔ جس کی سب سے واضح مثال چند سال قبل پاکستان میں سلمان تاثیر کا قتل ہے۔
اگر چہ پاکستانی عدلیہ نے قاتل کو موت کی سزا دی لیکن دین سے نابلد طبقے نے اپنے دل کی تسکین کے لیے قاتل کی تربت پر ایک شاندار روضہ تیار کیا اور اس پر گنبد ومینار بھی بلند کیا اور رہ گئی جاہل اور نادان عوام تو انہوں نے بھی اس کی تربت کو اسی طرح عقیدت و احترام کی نظروں سےدیکھنا شروع کر دیا ہےاور اسے بھی اپنی عقیدتوں کا مرکز اسی طرح بنا لیا ہے جس طرح ان کی نظر میں حضرت داتا گنج بخشعلی ہجویری رضی اللہ عنہ کی ذات با برکتہے۔ اب لوگ اس کے مزار پر بھی اسی عقیدت مندی کے ساتھ حاضری دیتے ہیں جس نیاز مندی کے ساتھ وہ حضرت داتا گنج بخش کے روضہ پر حاضر ہوتے ہیں۔یہ امت مسلمہ کا اتنا بڑا المیہ ہے کہ پوری تاریخ تصوف میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اور میں نے ایسے وقت میں کہ جب ہر طرف خاموشی ہے، اس پہلو پر قلم کی جسارت سے کام اس لیے لیا کہ انتہاپسندوں کا یہ رویہ امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا خسارہہے کیوں کہ ان کے اس عمل سے منکرین تصوف کو تصوف کو بدناک کرنے کا موقع میسر ہوتا ہے اور وہ ان کے اس کاروبارِ تصوف کو لوگوں کے سامنے پیش کر کے انہیں ورغلاتے ہیں اور تصوف اور صوفیائے کرام کے خلاف ان کی ذہن سازی کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے سادہ ذہنوں میں یہ بات بڑی آسانی کے ساتھ گھر کر جاتی ہے کہ اگر یہی سب کچھ ولایت ہے اور اولیاء اور صوفیاء کا کردار ایسا ہوتا ہے تو اللہ ایسے صوفیوں سے بھی بچائے اور ایسے طریق تصوف سے بھی محفوظ رکھے۔اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے اس لیے کہ کہاں ایک خون ناحق کا ارتکاب کرنے والا اور کہاں حضرت داتا گنج بخش جن کے مزار مقدس پر ہندوستان میں ولایت کے تاجدار حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکتساب فیض کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور جن کی شان میں آپ بر ملا یہ اعلان کرتے ہیں کہ:
گنجِ بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہ نما
(بخشش و عطا کا گنج گراں مایہ، کائنات کو اپنے فیض سے نوازنے والے اور اللہ کے نور کے مظہر کامل۔ آپ ناقصوں کے لیے ایک کامل شیخ ہیں اور کاملوں کے لیے آگے کا راستہ دکھانے والے رہبر و رہنماں ہیں)
جاری............
URL: https://newageislam.com/urdu-section/unfolding-real-face-sufism-(part-1/d/109880
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism