مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
23 دسمبر، 2016
تصورِ وحدۃ الوجود کے موضوع پر اب تک کا ہمارا مطالعہ اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ کس طرح چند باطل پرست فرقے اور ان کے ناعاقبت اندیش اور جاہل و نادان نمائندے توحید پرستی کی آڑ میں نوجوان نسلوں کے ذہن و دماغ کو شرک اور کفر کے زہر سے آلودہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی واضح ہو چکا کہ توحید پرستی کے جنون میں وہ اس حد تک اپنا شعور کھو چکے ہیں کہ ان کے دل پر اس بات کا خطرہ بھی نہیں گزرتا کہ اس مسئلہ میں وہ علماء، حکماء اور محققین کی جس جماعت پر شرک اور کفر کی گولیاں داغ رہے ہیں اس میں کہیں ان کے اپنے بھی تو شامل نہیں، چہ جائیکہ ان سے اس بات کی توقع کی جائے کہ وہ اس امر پر غور کریں کہ ان کی اس زہر افشانی کا نتیجہ کس صورت میں ظاہر ہو گا۔ اور اس کا خمیازہ پوری امت مسلمہ کو کن کن صورتوں میں بھگتنا پڑے گا۔
آج امت مسلمہ کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کے داخلی اور خالص علمی، فکری اور نظریاتی اختلاف رائے کا غلبہ مسلمانوں کے ذہن و دماغ پر اتنا شدید ہو چکا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی سوچ و فکر کو بھی فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔مسلمانوں کی مذہبی اور ایمانی وفاداریاں بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین کا ایک کامل نظریہ اور ایک جامع تصورِ اسلام کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ کوئی طبقہ دین کے کسی ایک ٹکڑے پر قبضہ کر لیتا ہے اور یہ پروپگنڈہ کرتا ہے کہ یہی اصل دین ہے۔ اور دین کے باقی دیگر اجزاء کفرو ضلالت اور گمراہی ہیں۔ اور دوسرا طبقہ دین کے کسی دوسرے ٹکڑے کو اپنا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ دین کی صحیح تعبیر و تشریح یہی ہے، حالآنکہ وہ بھی دین کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ایک تیسرا طبقہ پیدا ہوتا ہے اور وہ بھی اسی روش کو اختیار کر لیتا ہے، پھر چوتھا طبقہ پیدا ہوتا ہے پھر پانچواں اور پھر اسی طرح ایک کے بعد ایک طبقے سر اٹھانے لگتے ہیں اور دین جو کہ ایک مکمل نظام حیات ہے کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور امت لا مرکزیت کا شکار ہو جاتی ہے۔
عملی طور پر اس کا اثر عام مسلمانوں پر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے عقیدت اور محبت کے الگ الگ مراکز تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ایک طبقہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ صرف اللہ کی محبت خالص ہے۔ دوسرا طبقہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت خالص ہے، تیسرا طبقہ صرف صحابہ کرام کے لیے محبت کو خاص کر دیتا ہے، چوتھا گروہ یہ کہتا ہے کہ سچی محبت صرف اہل بیت اطہار کی ہے۔ اور پھر ہر طبقہ دین کے اس ٹکڑے کی روشنی اپنے عقیدہ، اپنے مزاج، اپنے ذوق، اپنے رجحان، اپنے نظریہ اور اپنی فکر کے مطابق پورے دین کی تعبیر و تشریح میں لگ جاتا ہے۔ اس سے دین کا شیرازہ منتشر ہو جاتا ہے۔ اور دین کی کلیت () ختم ہو جاتی ہے۔ اور اس کا نقصان امت مسلمہ پر یہ مرتب ہوتا ہے کہ ان کے درمیان سے دینِ کل کا تصور معدوم ہو جاتا ہے۔
اور اب اس امت کے قائدین اور زعماء اور ان کی جماعتوں اور ان کی تحریکوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ایک سنگل پوائنٹ ایجنڈا () یک نکاتی خطوط پر کام کرنا شروع کر دیا ہے اور انہوں نے اپنی پوری توانائی صرف کسی ایک نقطہ () پر مرکوز کر کے امت کے نوجوانوں کی ذہن سازی () شروع کر دی ہے۔ جو کہ آج سب سے آسان کام ہے۔ کم علم اور کم صلاحیت رکھنے والے نام نہاد قائدین بھی اس تحریک کو بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ مگریہ دین اسلام کے ساتھ جو کہ دین رحمت ہے، سب سے بڑی عداوت ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں پوری قوم تباہی و بربادی کے دہانے پر چلی جاتی ہیں اور اس میں کئی کئی نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ آج پورا عالم اسلام جس آگ میں جل رہا ہے وہ اسی فرقہ پرستی کی چھوٹی سے چنگاری سے پیدا ہوئی ہے۔ اور فرقہ پرستی کی یہ آگ اتنی شدید ہے کہ اس میں عالم عرب کے نہ جانے کتنے ممالک اور کتنی مملکتیں جل کر خاکستر ہو گئیں اور اسی فرقہ پرستی کی زد میں آکر اتنی نسلیں تباہ ہو گئیں، اتنی نوجوانیاں برباد ہو گئی اور اتنی عصمتیں لُٹ گئیں کہ جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا۔
آج سب سے مشکل کام دین کے ایک جامع تصور کو اس کی کلیت () کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔ اور صرف اسے پیش کرنا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کر کے دکھانا اور اسے رواج بخشنے کے لیے جد و جہد کرنا بھی ہے۔ موجودہ صورت حال میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت اور اہمیت و افادیت شدید ہو جاتی ہے جو دین کے کسی ایک ٹکڑے کی تعلیم نہ دے بلکہ ایک دینِ کل کے نظریہ کو بر قرار رکھتے ہوئے اسلام کی مکمل تعلیمات کا احاطہ کرے۔ جو عقیدت اور محبت کے الگ الگ مراکز تلاش کرنے کی ترغیب نہ دے بلکہ ایک ہی چشمے سے نکلنے والے محبتوں کے تمام مراکز کو یکجا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے، امت مسلمہ کے سامنے دین کی معتدل تصویر () رکھے اور لوگوں کو توسط اور اعتدال کا راستہ دکھائے اور دین کے کسی بھی شعبے میں انتہاء پسندی کے شائبہ سے بھی گریز کرے۔ یہی تعلیم تمام انبیاء و رسل لے کر آئے اور یہی وہ راستہ ہے جس کا پیغام تمام پیغمبران عظام نے پیش کیا تھا۔
یہ وہ چند باتیں تھیں جنہیں عرض کرنا راقم الحروف نے ضروری سمجھا۔ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور تصورِ وحدۃ الوجود کے تاریخی عروج و ارتقاء کے حوالے سے چند بنیادی حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں۔
جب ہم قبل از اسلام کے قدیم یونانی فلسفوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ وحدۃ الوجود کا تصور افلاطونی خیالات و نظریات میں موجود تھااور یہی افلاطونی خیالات و نظریات فلسفہ نو افلاطونیت کی شکل میں مشرق وسطیٰ کے چند ممالک میں فروغ پا چکے تھے۔ چنانچہ اسکندریہ اور مدائن فلسفہ نو افلاطونیت کے خاص مراکز میں سر فہرست تھے۔
جاری.......................................
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism