مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
14 دسمبر، 2016
گزشتہ تحریر میں ہم نے وجود کی حقیقت اور ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی جس کے ضمن میں ہم نے یہ مطالعہ کیا کہ اس کائناتِ رنگ و بو کا سب سے بڑا راز اور حقیقی غیب صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کی ذات ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہر لحظہ اور ہر لمحہ ایک نئی آن و شان کے ساتھ اپنی آشکارائی اور ظہور پذیری کے لیے بے تاب و بے قرار رہتی ہے۔ اور وحدہ الوجود کی حمایت کرنے والے علماء اور حکماء نے وجود سے یہی وجود مراد لیا ہے۔
لہٰذا، جو ذات پنہاں اور اس کائنات کا سِر عظیم ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ظہورر کے لیے ہر آن اور ہر لحظہ بے تاب و بے قرار بھی ہے وہ صرف ذات باری تعالیٰ ہی ہے اور اس کائنات کی تمام چیزیں اسی وجود کی بناء پر موجود ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ صوفیاء اور عرفاء حقیقی وجود صرف حق یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وجود کو مانتے ہیں اور ما سوا وجودِ حق کے تمام اشیاء کو موجود قرار دیتے ہیں وجود نہیں اس لیے کہ ان تمام کا وجود وجودِ حق کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر حق کا وجود ہے تو اس پوری بزم ِکائنات کا وجود رواں دواں ہے اور اگر وجود حق کا ظہور نہ ہوتا تو اس کائنات کی کوئی شئی معرض وجود میں نہیں آتی۔ اسی لیے حق کے وجود کو صوفیاء اور حکماء وجودِ مطلق کہتے ہیں۔ کیوں کہ وجودِ حق کے سوا اس کائنات میں ایسی کوئی شئی نہیں ہے جس پر وجود کا اطلاق کیا جا سکے۔ اسی لیے تصوف کی اصطلاح میں باقی تمام چیزوں کو موجود کہا گیا ہے وجود نہیں۔
ایک لطیف نقطہ
اس استدلال کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب بھی امور غیبیہ کی بات آتی ہے تو ہمارے ذہن میں فوراً تقدیر، جنت، دوزخ، عالم قبر، عالم برزخ، حشر و نشر اور ملائکہ کا تصور یا ان چیزوں کا تصور پیدا ہوتا ہے جو ہمارے سامنے موجود نہیں یا جن کا ادراک ہم حواس ظاہرہ کے ذریعہ نہیں کر سکتے۔ جبکہ قرآن میں جابجا اللہ نے اپنی شان میں "علام الغیوب" اور اس کے ہم معنیٰ الفاظ کا استعمال کیا ہے، جس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ غیوب یعنی پوشیدہ اور چھپی ہوئی باتوں کا سب سے بڑا جاننے والا ہے۔ یہ قضیہ اپنی جگہ مسلم ہے اور اس میں کسی کو کلام کی کوئی مجال نہیں۔ جس طرح یہ ایک واضح حقیقت ہے اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس میں بھی کسی کو مجال انکار نہیں کہ اس کائنات کی ہر چھوٹی بڑی اور ظاہر و پوشیدہ چیز کا خالق صرف اللہ ہی ہے، یہاں تک کہ اللہ ان چیزوں کا بھی خالق ہے جنہیں امور غیبیہ میں سے مانا جاتا ہے یعنی تقدیر، جنت، دوزخ، عالم قبر، عالم برزخ، حشر و نشر، عذاب و ثواب اور ملائکہ کا بھی خالق وہی ذات وحدہ لا شریک ہے اور اس کی صفت تخلیق میں کسی غیر کا شریک ہونا عقلاً اور نقلاً دونوں محال ہے ورنہ شرک کا دروازہ کھل جائے گا۔
لہٰذا، جب یہ ثابت ہو چکا کہ اس کائنات کو زیور تخلیق سے آراستہ کرنے والا صرف اللہ ہے اور امور غیبیہ یعنی تقدیر، جنت، دوزخ، عالم قبر، عالم برزخ، حشر و نشر، عذاب و ثواب اور ملائکہ کو بھی وجود بخشنے والا صرف وہی ذات وحدہ لا شریک ہے اور قرآن میں جا بجا اس بات کا اعلان موجود ہے کہ وہ ذات جو وحدہ لا شریک ہے وہ کائنات کے تمام غیوب پر مطلع ہے، اور صرف یہی نہیں کہ وہ غیوب پر مطلع ہے بلکہ وہ جسے چاہتا ہے ان غیوب پر مطلع بھی فرماتا ہے۔ لہٰذا، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مخلوقات میں سے بعض چیزیں خود خالق کے لیے غیب بن جائیں یعنی بنانے والے کی نظروں سے خود اس کی بنائی ہوئی بعض چیزیں پوشیدہ ہو جائیں؟ لہٰذا، لا محالہ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ غیب خود اپنے آپ میں کوئی مستقل وجود نہیں رکھتا بلکہ غیب اور بوشیدہ ہونا ایک اضافی امر ہے۔
یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شئی یا کوئی حقیقت کسی کے لیے غیب ہو لیکن جب اسی شئی کی نسبت جب کسی دوسرے کی طرف کر دی جائے تو ممکن ہے کہ وہ غیب غیب نہ رہے بلکہ معلوم اور ظاہر ہو جائے۔ مثلاً جب تقدیر، جنت، دوزخ، عالم قبر، عالم برزخ، حشر و نشر، عذاب و ثواب اور ملائکہ کی نسبت اس عالمِ مادیت میں رہنے والے کسی انسان کی طرف کی جاتی ہے تو یہ تمام اشیاء اور یہ تمام حقائق امور غیبیہ یعنی غیب کی باتیں قرار پاتے ہیں لیکن جب انہیں امور غیبیہ کی نسبت خدا کی طرف کر دی جائے تو یہ غیب غیب نہیں رہتے بلکہ معلوم اور موجود ہو جاتے ہیں اور اس صورت میں جن و انس اور امور غیبیہ سے متعلق تمام مخلوقات کے لیے غیب صرف وجود حق اور ذات باری تعالیٰ قرار پاتی ہے اس لیے کہ وہ غیب الغیوب اور سر الاسرار ہے اور اس کی ذات پر پہنچ کر تمام اسرار اور غیوب کی بلندی ختم ہو جاتی ہے اور صرف ایک ہی سر اور ایک ہی غیب بچتا ہے اور وہ وجود حق اور ذات باری تعالیٰ کا وجود ہے۔
بالکل یہی حال تصورِ وحدۃ الوجود کا ہے۔ جب ایک سالک، ایک صوفی اور ایک عارف دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر ریاضت و مجاہدات کے ذریعہ مادی علائق سے خود کو پاک کر لیتا ہے، اسرار باطنی پر توجہ کرتا ہے اور دریائے عرفان و معرفت، کشف و روحانیت اور ملکوتیت کے موج ناپیدا کنار میں غوطہ زن ہوتا ہے تو اس کائنات رنگ و بو کی تمام مخلوقات کے ظاہری اجسام موجود ہوتے ہوے بھی اس عارف کامل کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ ان تمام کے باطن میں صرف ایک ذات حق کی تجلیات کو رواں دواں دیکھتا ہے اور یکلخت یہ صدائیں بلند کرتا ہے کہ ہر شئی میں وجودِ حق کے ظہور کی جلوہ نمائی ہے اور اس کائنات کی تمام تر کثرتِ موجودات میں صرف ایک ہی وحدۃ یعنی تجلی ذات حق جلوہ گر ہے۔
جس طرح لا تعداد ستارے ایک سورج کی روشنی کی تاب نہیں لا سکتے اور جس طرح عربوں انجم اور کہکشاں سورج کی کِرنوں میں گم ہو جاتے ہیں حالآنکہ وہ موجود ہوتے ہیں اور ان کے وجود سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اسی طرح جب صوفیاء اور عرفاء پر تجلئ ذات حق جلوہ فگن ہوتی ہے تو تمام اشیائے کائنات موجود ہونے کے باوجود اس کی نظروں سے محجوب ہو جاتے ہیں اور وہ عارف ان تمام کے اندر حقیقت یعنی نورِ ذاتِ حق کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اور پھر ایک عارف کا یہی عرفان اور ایک سالک کا یہی کشف جب ایک علمی نظم اور ایک نظریاتی پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے تو وحدۃ الوجود کا ایک مکمل تصور جنم لیتا ہے۔
جاری.................................
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism