New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 10:03 PM

Urdu Section ( 24 Jan 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Understanding The Concept of WahdatulWajud Through Sufi Literature (7) نظریہ وحدۃ الوجود تعلیمات و اقوال صوفیاء کے آئینے میں

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

24/01/2017

وجود کے مرتبہ اول یعنی مرتبہ "لاتعین" کو (احدیت)، مرتبہ دوم یعنی "تعین اول" کو (وحدت) اور مرتبہ سوم یعنی "تعین ثانی" کو واحدیت بھی کہا جاتا ہے۔ گزشتہ چند مضامین میں ہم شیخ ابو سعید محمد مبارک معزمی کی تصنیف تحفہ مرسلہ کی روشنی میں وجود کے مرتبہ اور یعنی مرتبہ "لاتعین" اور مرتبہ ثانی یعنی مرتبہ " تعین اول" سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں۔ اب ہم وجود کے تیسرے مرتبہ سے اپنی گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔ لہٰذا، وجود کے مرتبہ سوم کی توضیح کرتے ہوئے شیخ ابو سعید محمد مبارک معزمی تحفہ مرسلہ میں رقم طراز ہیں:

          المرتبۃ الثالثۃ: مرتبۃ التعین الثانی و ھی عبارۃ عن علمہ تعالیٰ لذاتہ و صفاتہ و بجمیع الموجودات علیٰ طریق التفصیل و امتیاز بعضھا عن البعض و ھذہ المرتبۃ تسمیٰ بالوحدیۃ و الحقیقۃ الانسانیۃ۔

تیسرے مرتبہ کو "تعین ثانی" کہا جاتا ہے۔  اور اس تعین ثانی سے مراد حق تعالیٰ کا اپنی ذات و صفات اور جملہ موجودات کو ایک دوسرے کے امتیاز کے ساتھ بالتفصیل جاننا ہے اور اسے "واحدیت" اور "حقیقت انسانیہ" بھی کہا جاتا ہے۔ اور وجود کے اس مرتبہ کے دیگر  نام عالم جبروت، ظلِ وحدت، حضرت جمع، فیض اقدس اور نفس رحمانی ہیں۔

اس کی شرح میں حضرت مولانا عبد العزیز قادری، شارح تحفہ مرسلہ رقم طراز  ہیں:

وجود کے اس مرتبہ میں ذات حق کا ظہور صفات کے رنگ میں اور صفات کا ظہور ذات کے رنگ میں ہوا۔ اس مرتبہ میں اسم "اللہ" حق تعالیٰ کا اسم ذاتی ہونے کی وجہ سے تمام اسماء پر حاوی اور مقدم ہے۔ اور اسی طرح انسان اسم اللہ کا مظہر کامل ہونے کی وجہ سے تمام مظاہر کائنات پر مقدم ہے۔ اور اپنے مراتب کے اعتبار سے یہی تمام مظاہر کائنات میں ظاہر ہے۔  چونکہ اسم "اللہ" کو جو کہ اسم ذات ہے، حق تعالیٰ کے باقی تمام اسما کے ساتھ دو جہتوںسے نسبت حاصل ہے: اولاً وہ باعتبار ذات کل اسمائے الٰہیہ میں ظاہر ہے اور ثانیاً باعتبار الٰہیت وہ حق تعالیٰ کے تمام اسماء کو شامل ہے۔ لہٰذا، جملہ مظاہر الٰہیہ کی نسبت بالکل یہی حال انسان کا  بھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے کل مظاہر قدرت میں ظاہر ہے اور اپنے مراتب کے اعتبار سے تمام مظاہر کو شامل ہے۔ کل عالم اور اس کے تمام مظاہر حقیقت انسانیہ کا مظہر ہیں اور خود حضرت انسان حقیقت اسم اللہ کا مظہر ہے۔ لہٰذا، اس کا اعتبار کرتے ہوئے تمام روحیں روحِ انسانی کی جزئیات قرار پائیں اور اس کائنات کی تمام صورتیں اور مظاہر کائنات کے تمام لوازمات حقیقت انسانی کی صورتیں اور لوازمات ہوئیں۔ اپنے اسی کمال کے باعث حضرت انسان خلافت الٰہیہ کا مستحق قرار پایا اور اسے خلیفۃ اللہ فی الارض کہا گیا۔

و المرتبۃ الرابعہ: و ھی مرتبۃ الارواح عن الاشیاء الکونیۃ المجردۃ البسیطۃ التی ظھرت علیٰ ذواتھا و علیٰ امثالھا۔

ترجمہ"وجود کا چوتھا مرتبہ "مرتبہ ارواح" ہے۔  اور مرتبہ ارواح میں وہ تمام مجرد اور بسیط کونی اشیاء شامل ہیں جن کا ظہور ان کی ذوات اور امثال پر ہوتا ہے۔

یعنی  روح اس شئی کو کہتے ہیں جس کی تخلیق ابداعی طور پر ہوئی ہو اور ابداع اس حالت کو کہتے ہیں جو کاملاً مادہ سے مبرہ و منزہ ہو اور اس میں کسی بھی اعتبار سے قطعی طور پر مادے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اسے سمجھنے کے لیے پہلے لطائف عشرہ  کا سمجھنا از حد ضروری ہے۔

عالم کی دو قسمیں ہیں:

1.     عالم امر

2.     عالم خلق

عالم امر ان حقائق سے عبارت ہے جن کی طرف مقدار اور کمیت کو منسوب کرنا محال ہے۔  اور عالم خلق ان اشیا پر مشتمل ہے جن کا تعین مقدار اور کمیت و کیفیت کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔

عالم امر میں مندرجہ ذیل پانچ اشیاء داخل ہیں:

1.     قلب

2.     روح

3.     سر

4.     خفی

5.     اخفیٰ

اسی طرح عالم خلق میں بھی ان چانچ چیزوں کا شمار ہوتا ہے:

1.     نفس

2.     خاک

3.     باد (ہوا)

4.     آب (پانی)

5.     آتش

ان دس اجزاء کو مجموعی طور پر لطائف عشرہ کہا جاتا ہے۔ اور عالم امر سے متعلق لطائف خمسہ  کے اصول اسمائے الٰہی کے ظلال ہیں۔ اور عالم خلق سے متعلق لطائف خمسہ کے اصول  اسمائے الٰہی کے ظلال کے انوار ہیں۔ اسی لیے حقیقت انسان پر غور کرنے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے انسان کو  "الجامع بین الخلق و الامر" یعنی لطائف امر اور لطائف خلق دونوں کا جامع بنایا ہے۔

اور انسان تین روحوں کا حامل ہے جو کہ حسب ذیل ہیں:

1.     روح نباتی

2.     روح حیوانی

3.     روح انسانی

روح نباتی انسان کی پیدائش اور نشو نما میں کار فرما ہے۔ روح حیوانی خورد و نوش اور انسان کے دیگر ذرائع حیات میں کار فرما ہے۔ اور روح انسانی جسے نفس ناطقہ بھی کہا جاتا ہے انسان کے اظہار ما فی الضمیر، تعلیم و تعلم اور ذرائع ادراکات،  جذبات، احساسات اور حصول کمالات کے ذرائع اور ارتقاء انسانی کے محرکات میں کار فرما ہے۔

روح کی کیفیت بیان کرنے میں اہل تحقیق  دو طبقات میں منقسم ہیں۔ ایک طبقہ کا مسلک یہ ہے کہ در اصل روح ایک ہی ہے جسے روح کل کہا جاتا ہے اور کبھی اس کی تعبیر حقیقت محمدیہ ﷺ اور  عقل اول سے بھی کی جاتی ہے اور اس سے ارواح جزئیہ کا صدور اس طور پر ہے کہ جب جسم انسانی بن کر تیار ہوا تو عالم برزخ میں روح کل کا عکس اس جسم انسانی پر واقع ہوا جس کی بنیاد پر جسم کی حرکت، نشو  نما اور تدبیر و استعداد کے قبیل سے جسم انسانی میں زندگی کے آثار پیدا ہوئے۔ اور دوسرے طبقہ کا مسلک یہ ہے کہ ارواحِ جزئیہ میں سے ہر ایک (یعنی روح نباتی، روح حیوانی اور روح انسانی) کسی انعکاس کے بغیر مستقلاً ذاتی طور پر لطائف کے حامل ہیں۔

جبکہ صحیح تحقیق یہ ہے کہ روح کا تعلق دو ابدان سے ہے: ایک یہ مادی جسم ہے جسے ہم محسوس کرتے ہیں اور دوسرا بدن مثالی یعنی برزخی بدن  ہے۔ اور روح اپنے دنیاوی وجود  اور نشو نما  میں بدن عنصری سے متعلق ہے اور  جب اس بدن عنصری پر موت واقع ہو جاتی ہے تو پھر یہی روح عالم امر میں بدن مثالی لطیف یعنی برزخی بدن سے متعلق ہو جاتی ہے۔ اور حشر و نشر کے دن نشاۃ ثانیہ کے بعد پھر سے یہ روح اسی عنصری  بدن سے متعلق ہو جائے گی۔

        جاری...................

URL: https://newageislam.com/urdu-section/understanding-concept-wahdatulwajud-sufi-literature/d/109835

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..