مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
17/01/2017
گزشتہ مضمون میں ہم نے حضرت ابو سعید مبارک محزمی {متوفی403ہجری}کے مشہور رسالہ "تحفہ مرسلہ" کی روشنی میں "وجود" کے مراتب و مدارج اور اس کے احوال پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی اب ہم شارحینِ "تحفہ مرسلہ" کی تشریحات کی روشنی میں مذکورہ تمام مراتب و مدارجِ "وجود" پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔
مرتبہ اول: لا تعین، اطلاق یا ذات بحت
وجود کا پہلادرجہ لا تعین، اطلاق یا ذات بحت کا درجہ ہے۔ اور "وجود" کا یہ درجہ اس معنیٰ میں "لا تعین" ہے کہ یہ صفات کی تمام نسبتوں اور یہاں تک کہ اطلاق کی قید سے بھی پاک اور منزہ و مبرہ ہے۔ وجود کے اس مرتبہ کے لیے کسی اسم یا صفت کی کوئی گنجائش نہیں ہےاس لیے کہ مرتبہ لا تعین اس حد تک وراء الوراء ہے کہ یہ اطلاق کی قید اور تعین کی نفی سے بھی پاک ہے۔ بلکہ "وجود" اس مرتبہ میں ہر قسم کی تعریف اور تمام طرح کے اوصاف سے یہاں تک کہ یہ درجہ عبارت و اشارت سے بھی بری ہے۔ اور یہ ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کی کنہ ہے۔ اور کوئی بھی مرتبہ اس مرتبہ سے اوپر نہیں ہے بلکہ "وجود" کے تمام مدارج و مراتب اس کے ماتحت مندرج ہوتے ہیں۔
جب اسی ذات لاتعین نے خود یہ چاہا کہ وہ پہچانی جائے تو اس نے نزول اختیار کیا اور مرتبہ بہ مرتبہ خود کو متعین کیا۔ محققین، صوفیاء اور عرفاء یہ کہتے ہیں کہ تنزلات و تعینات کی اصطلاح محض افہام و تفہیم کے لیے وضع کی گئی ہے، ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے نہ تو کوئی عروج ممکن ہے اور نہ ہی کوئی نزول۔ اور ذات الٰہی کے باب میں اولیاء اور عرفاء کو جو کشفی اور عرفانی معلومات و تفصیلات حاصل ہوئیں انہیں کی روشنی میں اولیاء اور صوفیاء نے یہ تفصیلات پیش کیں۔ اس مرتبہ کے دیگر نام "احدیت"، "ذاتِ بحت"، "عالم لاہوت"، "حقیقت ہویت"، "احدیت ذات"، "کنز مخفی"، "عالم ہاہوت، غیب الغیب، غیب مطلق، ذات مطلق، وجود محض" وغیرہ ہیں۔
نوٹ: تنزلات و تعینات مختلف نہیں بلکہ یہ دونوں ایک ہی شئی ہیں اور ان کا دوسرا نام مرتبہ الٰہیہ بھی ہے۔
مرتبہ دوم: تعین اول
دوسرے مرتبہ کا نام "تعین اول" ہے۔ اور اس سے مراد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنی ذات و صفات کو اجمالی طور پر ایک دوسرے سے امتیاز کیے بغیر جاننا ہے۔ اور اس مرتبہ کو "مرتبہ وحدت" اور "حقیقتِ محمدیہ ﷺ" بھی کہا جاتا ہے۔
ایک بہت ہی مشہور و معروف قدیث قدسی ہے جس میں اللہ کا فرمان عالی شان ہے:
کُنتُ کَنزاً مخفیاً فَاَحببتُ ان اُعرفَ فَخَلقتُ الخلقَ و تعرفت علیھم فی اعرفنی و اعرفت بھم
ترجمہ:
میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، جب میری مشیت ہوئی کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو وجود بخشا، پس انہوں نے مجھے مجھ سے ہی پہچانااور میں ان کے ذریعہ پہچانا گیا۔
اللہ کے اس فرمان میں "کنت کنزاً مخفیاً" سے وجود کے مرتبہ اول کا ثبوت ملتا ہے،جسے مرتبہ لا تعین، اطلاق یا ذات بحت بھی کہا جاتا ہے۔ اور اس فرمان "فَاَحببتُ ان اُعرفَ فَخَلقتُ الخلقَ" سے وجود کے دوسرے مرتبہ یعنی تعین اول کا ثبوت ملتا ہے۔
جب ذات حق تعالیٰ نے اپنے ظہور کا ارادہ کیا اور اس کی مشیت ہوئی کہ میں پہچانا جاؤںتو سب سے پہلے اس نے نور محمدی کو ظہور بخشا اور پھر اس ذات حق نے نور محمدی سے کل کائنات کی تخلیق کی۔ اور اس سر عظیم کی خبر بھی خود رسول اخر الزماں محمد صلی للہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
آپ نے فرمایا:
كنت نبياً وآدم بين الروح والجسد۔ (ابن سعد فی الطبقات، ابو نعيم في الحليۃ، والطبرانی)
ترجمہ:
میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام آب و گل کی منزل میں تھے۔
اور ایک حدیث اس سے بھی دلچسپ ہے جسے خاص طور پر صوفیاء اور عرفاء نے کثرت کے ساتھ نقل کیا ہے:
عن جابر بن عبداللہ قال قلت یا رسول اللہ یابی انت وای اخبرنی عن اول شئی حلقہ اللہ قبل الاشیاء۔ قال یا جابران اللہؓ قد خلق قبل الاشیاء نورنبیک من نورہ فجعل ذلک النوریدوربالقدرۃ حیث شاء اللہ ولم یکن فی ذلک الوقت لوح ولاقلم و لاجنۃ ولا نارولا ملک ولاسماء و لاارض ولا شمس ولا قمرولا جن ولا انس فلما اراداللہ ان یخلق الخلق قسم ذلک النور اربعۃ اجزاء فحق عن جزء الاول القلم ومن الثانی اللوح و من الثالث العرش ثم قسم ذلک الجزء الرابع اربعۃ اجزاء فخلق من الاول حملۃ العرش ومن الثالث الجنۃ والنار ثم قسم الرابع اربعۃ اجزاء فخلق ن الا ول نورابصدرالمومنین ومن الثانے نور قلوبہم وھی المعرفۃ باللہ ومن الثالث نور انفسھم وھوالتوحید لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ہمیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سب سے پہلے کس شئی کو پیدا کیا۔ یہ سب کر آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے جابر !اللہ رب العزت نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تمہارے نبی کے نور کو پیدا کیا۔ پھر یہ نور اللہ ٰ کی قدرت کے سائے میں جہاں سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم تھا اور نہ بہشت تھی اور نہ دوزخ تھا، نہ کوئی فرشتہ تھا نہ آسمان و زمین تھے، نہ سورج اور چاند تھے اور نہ ہی جن و انسان تھے۔ پھر جب اللہ نے اس کائنات کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اس نور (محمدی) کے چار حصے کردیئے پہلے حصہ سے قلم پیدا کیا دوسرے حصہ سے لوح محفوظ تیسرے حصہ سے عرش اس کے بعد چوتھے حصہ کے نور کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا۔ اور پہلے حصہ سے حاملین عرش ملائکہ کو پیدا کیا، دوسرے حصہ سے کرسی، تیسرے حصہ سے باقی فرشتے۔ اس کے بعد اس کے چوتھے حصہ کے نور کو مزید تقسیم کیا اور اس تقسیم کے مطابق پہلے حصہ سے آسمان کو پیدا کیا دوسرے حصہ سے زمین کو تیسرے حصہ سے جنت دوزخ کو اور پھر اس تقسیم کے چوتھے حصہ کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا اور پہلے حصہ سے اہل ایمان کی آنکھوں کا نور پیدا کیا دوسرے حصہ سے ان کے دلوں کا نور پیدا کیا اور وہ معرفت الٰہی ہے تیسرے حصہ سے ان کے نفوس کا نور پیدا کیا یعنی نور توحید اور وہ ہے(لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ)۔
مرزا عبد القادر بیدم کہتے ہیں:
درآں خلوت کے پیش از کیف و کم بود نگاہ جلوہ درخواب عدم بود
چوں شد حسنِ حقیقت جلوہ اندیش محمد دید در آئینہ خویش
زِ آغوش احد یک میم جوشید کہ بے رنگی لباس رنگ پوشید
چہ واجب؟ نشہ سر جوش نورش چہ ممکن؟ درد مینائے ظہورش
ظہورش غازہ تقید آفاق بطونش بے نیازی ہائے اطلاق
ترجمہ: 1) اس خلوت میں جو وجودِ کم و کیف سے پہلے تھی اور جس وقت نگاہ اور جلوہ دونوں پردہ عدم میں تھے۔
2) (تو ہوا یہ کہ) ایک میم (نور محمدی)نے آغوش احد سے جوش مارا، اور بس بے رنگی نے رنگ کا لباس اختیار کر لیا (یعنی وہ تمام حقائق موجودات جو پردہ عدم میں مخفی تھے معرض وجود میں آ گئے)
3) لہذا، واجب اس کے سر جوش نور کے نشہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور ممکن اس کے مینائے ظہور کی تلچھٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
4) اس کا ظہور تقید آفاق کا غازہ ہے۔ جس کے باطن میں اطلاق کی بے نیازیاں پنہاں ہیں۔
جاری...............................
URL: https://newageislam.com/urdu-section/understanding-concept-wahdatul-wajud-sufi/d/109754
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism