مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
14 جولائی 2017
تاریخ اسلام کے دامن میں فتح مکہ کا یہ عظیم واقعہ ان لوگوں کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہے جو اس بات کا پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ ‘‘اسلام ایک دن کے لئے بھی کبھی امن کا مذہب نہیں رہا ہے بلکہ اسلام ہمیشہ قتل و قتال کا مذہب رہا ہے’’۔ نیز فتح مکہ کا یہ واقعہ ان اغیار کو بھی دعوت فکر و نظر دیتا ہے جن کا یہ الزام ہے کہ اسلام کی اشاعت تلوار کے زور سے ہوئی ہے۔اس لئے کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے تعصب و تنگ نظری کا پردہ ہٹا کر دیکھیں تو ان کے لئے بھی یہ حقیقت طشت از بام ہو جائے گی کہ مکہ کے ظالموں اور ستم گروں کے ساتھ فتح مکہ کے دن پیغمبر اسلام ﷺ کا یہ کردار اصلاح معاشرہ، ہم آہنگی، روداری اور بقائے باہمی کے قیام میں ایک انقلابی اقدام تھا۔
اور آپ ﷺ نے عملی طور پر اس بات کا اعلان بھی کیا کہ اسلام قتل و غارت گری ختم کرنے اور انتقام اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے آیا ہے۔ اور یہ محض کوئی جذباتی بیان بازی نہیں بلکہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پوری تاریخ انسانیت میں صرف پیغمبر اسلام ﷺ ہی ایک واحد ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے جہالت، ظلم اور غلامی کے حوالے سے پہچانے جانے والے پتھروں کے دور میں ان لوگوں کو معاف کیا اور امن و امان کا پروانہ عطا کیا جنہوں نے آپ ﷺ کے اوپر انتہائی انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ ڈھائے تھے، آپ ﷺ کے قتل کے منصوبے بنائے تھے، آپ ﷺ کے اوپر کوڑے ڈالے تھے، آپ ﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے اور آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
فتح مکہ کے بعد عملی طور پر مسلمان عرب کے حکمراں بن چکے تھے جن کی قیادت آپ ﷺ کے ہاتھوں میں تھی۔ لہٰذا آپ ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو صرف اہل عرب یا مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کے مخاطب نسل انسانی کے تمام افراد ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا:
‘‘اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد و نصرت فرمائی اور تمام جماعتوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ خبردار! ہر قسم کا مطالبہ خواہ وہ خون کا ہو یا مال کا –میرے قدموں کے نیچے ہے (یعنی آج کے بعد سے منسوخ اور ممنوع ہے)۔ البتہ بیت اللہ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کے مناصب مستثنیٰ ہیں یعنی اب بھی اسی طرح برقرار ہیں۔ اے معاشرۂ قریش! آج اللہ نے تم سے جاہلیت کا غرور چھین لیا اور آباء و اجداد کے نام پر بڑائی حرام کردی۔ تمام بنی نوع انسان آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ہیں اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے تھے’’۔
اس کے بعد آپ ﷺنے سورۂ حجرات کی درج ذیل آیت تلاوت فرمائی:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (حجرات:13)
‘‘اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے’’۔
کلیدبردارِ کعبہ عثمان بن طلحہ کے ساتھ بے مثال رویہ
خانہ کعبہ کے کلیدبردار عثمان بن طلحہ بھی خانہ کعبہ کے باہر مجرموں کی صف میں گردن جھکائے کھڑے ہیں ان کے دل میں بھی یہی خیالات ہچکولے کھا رہے ہیں کہ اب میرا انجام کیا ہو گا اس لئے کہ آج طاقت اور اقتدار اس کے ہاتھوں میں ہے جس کی میں نے تذلیل کی تھی اور خانہ کعبہ کی کنجی دینے سے انکار کیا تھا، اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ آج تو تو انکار کر رہا ہے لیکن ایک دن آئے گا کہ جب تیرے اندر انکار کی جرأت نہیں ہوگی اور تو خود خانہ کعبہ کی کنجی میرے حوالے کرے گا اور یہ سن کر عثمان بن طلحہ نے کہا تھا کہ کیا اس دن قریش کے سارے سردار مرجائیں گے؟ اور اسی خیال میں ان کا دل ڈوبا جا رہا ہے۔ لیکن جب آپ ﷺ خانہ کعبہ کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے عثمان بن طلحہ کو طلب کیا اور وہ آپ ﷺ کے سامنے انتہائی ڈرے اور سہمے ہوئے حال میں پیش کئے گئے ۔ آپ ﷺ نے ان سے کعبے کی کنجی لی خانہ کعبہ کو کھول کر اندر داخل ہوئے اور اسے بتوں سے پاک وصاف کرنے کے بعد باہر تشریف لائے، عثمان بن طلحہ کو طلب کیا اور ان کے ہاتھوں میں کعبہ کی کلید رکھتے ہو ئے فرمایا قیامت تک اب تجھ سے خانہ کعبہ کی کنجی کوئی نہیں لے سکتا۔
یہ وہ موقع تھا جب برسوں کے ستائے ہوئے مسلمانوں کو مکہ پر ایک بڑی فتح ملی تھی اور تمام ظالم و جابر سرداران قریش مسلمانوں کے سامنے بے یار و مددگار مجرموں کی طرح کھڑے تھے۔ اور ادھر اہل ایمان کی صفوں میں حضرت علی اور دیگر جلیل القدر جانثار صحابہ کرام اس بات کے منتظر تھے کہ خانہ کعبہ کی کلید برداری کا شرف ہماری قسمت میں آئے گا۔ لیکن پیغمبر اسلام ﷺ نے انتہائی تحمل، برداشت، رواداری اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عثمان بن طلحہ کو جو کہ ابھی ایمان بھی نہیں لائے تھے، خانہ کعبہ کی کلید برداری کے عہدے پر برقرار رکھا اور اس بات کی ضمانت بھی عطاء فرمائی کہ پوری زندگی تمہیں اس عہدے سے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔ آپ ﷺ کا یہی وہ کردار تھا جس نے عثمان بن طلحہ کو لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی صدا بلند کرنے پر مجبور کر دیا۔
معزز قارئین! مذکورہ بالا تاریخی حقائق سے آگہی کے بعد بھی اگر کوئی اس بات پر بضد ہو کہ ‘‘اسلام ایک دن کے لئے بھی کبھی امن کا مذہب نہیں رہا ہے بلکہ اسلام ہمیشہ قتل و قتال کا مذہب رہا ہے’’، یا اب بھی کوئی اسلام پر یہ الزام لگانے سے باز نہ آئے کہ ‘‘اسلام کی اشاعت تلوار کے زور سے ہوئی ہے’’ تو پھر ہم ان کے حق میں ہدایت اور صحتِ فکر و نظر کے لئے دعاء ہی کر سکتے ہیں۔
جاری............
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism