مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
12 جولائی 2017
اسلام کے نام پر چلنے والی داعش اور دیگر گمراہ گر انتہاپسند جماعتوں کے دعوں کے برخلاف، نظریاتی، فکری اور عملی سطح پر قیام امن اور عفو و درگزر کے فروغ میں اگر پیغمبر اسلام ﷺ کے چند اقدامات کا منصفانہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ اس سلسلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حکیمانہ اقدامات تحمل، برداشت، رواداری، امن پسندی، ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے عالمگیر اور آفاقی اصولوں اور اصلاح معاشرہ کے انقلابی نظریات پر مبنی تھے، خواہ ان کا تعلق سماجی امور سے ہو، سیاسی امور سے ہو خواہ مذہبی امور سے ہو۔ آپ ﷺ نے امن پسندی اور معاشرتی ہم آہنگی کے اصولوں پر مبنی ایک ایسا ذہنی، فکری اور عملی انقلاب برپاء کیا، انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے ایسے ایسے اصول وضع کیے اور انسانیت کے فطری تقاضوں کی تکمیل کے لئے ایسے آفاق دریافت کئے کہ جن کی بدولت دنیا کی ایک جاہل وپسماندہ غیر مہذب اور غیر متمدن عرب قوم عملی، روحانی، اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ بالیدہ نظر اور بالغ نگاہ قوم بن گئی جس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو عدل و انصاف، حقوق و مساوات، خدا پرستی، حقوق شناسی، تقوی و پرہیز گاری محبت و ہمدردی اور اخوت و بھائی چارگی جیسے جملہ اوصاف جمیلہ میں عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ثابت ہوا۔
اس سلسلے میں تاریخ اسلام کے دامن سے چند مثالوں کا ذکر راقم السطور انتہائی ضروری سمجھتا ہے۔
مسجد بنوی میں نجران کے وفد کا قیام
نجران کے علاقے سے ساٹھ عیسائیوں کا ایک وفد پیغمبر اسلام ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، دریں اثناء نماز عصر کا وقت ہو گیا، لہٰذا، مسلمانوں نے نماز عصر ادا کی تھوڑی دیر بعد انکی نماز کا بھی وقت ہو گیا تو انہوں بھی نماز پڑھنے کی اجازت چاہی ، پیغمبر اسلامﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں خود ان کی میزبانی فرمائی[1]۔ پیغمبر اسلام ﷺ کے اس اقدام کو مذہبی رواداری اور بقائے باہمی کی ایک اعلیٰ ترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔
میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ–ساسی بصیرت اور سماجی نظم و نسق کا ایک اعلیٰ نمونہ
تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
مسلمان آپس میں امن و اتحاد قائم رکھیں گے جو کہ اسلام کی بنیاد ہے۔
اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو پیغمبر اسلام ﷺ کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔
مسلمانوں کے مختلف طبقات کو حقوق و فرائض کے اعتبار سے مساوی سمجھا جائے گا۔
تمام معاملات میں اور آپسی اختلافات کی صورت میں پیغمبر اسلام ﷺ کا فیصلہ حتمی اور قطعی ہوگا۔
مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
جس طرح مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر ضروری ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔
یہودی بیرونی حملے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔
ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا، اور اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔
کسی مسلمان کے قتل ناحق پر اگر اس کے ورثاء اپنی مرضی سے خوں بہا لینے پر راضی نہ ہوں تو قاتل کو اس کی سزا دی جائے گی۔
تمدنی و ثقافتی معاملات میں مدینے کے تمام یہودیوں کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔
یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی جنگ اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔
یہودیوں کے داخلی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہو ہے۔
مذکورہ بالا معاہدوں جیسی 52 شقوں پر مشتمل میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی شکل میں پیغمبر اسلام ﷺ نے عالم انسانیت کی تاریخ میں پہلی مرتہ امن و ہم آہنگی اور بقائے باہمی پر مبنی ایک ایسا انقلابی اور ترقی پسند سیاسی اور معاشرتی نظام پیش کیا جو مہذب و متمدن انسانی معاشرے کی تشکیل اور اس کے ارتقاء میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ راقم الحروف نے سیاسی اور سماجی سطح پر پیغمبر اسلام ﷺ کے ان اقدامات کو انقلابی اور ترقی پسند اس لئے کہا کہ چھ ہجری میں جن سماجی اور معاشرتی حالات کے گرد و پیش پیغمبر اسلام ﷺ نے صلح اور اس سےقبل میثاق کا نظریہ پیش کیا ان حالات میں صلح اور میثاق جیسے اقدامات کسی کے وہم و گمان سے بھی پرے ہیں۔ اس لئے کہ ایسی کسی قوم کا کسی صلح پر عمل پیرا ہونا ایک ناممکن امر ہے جو راستے سے گزرتے وقت پاؤں سے پاؤں ٹکرا جانے پر کئی کئی نسلوں تک جنگ و جدال میں مشغول رہتی تھی۔ لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے ان حکیمانہ اقدامات نے انسانی تاریخ میں ایک ایسا حیرت انگیز انقلاب پرباء کیا جس نے آنے والی صدیوں میں عالم انسانیت کے سامنے تعمیر و ترقی اور روشن خیالی کے نئے نئے آفاق پیش کئے۔
فتح مکہ –احترام انسانیت کا آفاقی پیغام
مشرکین مکہ کی جانب سے صلح حدیبیہ کی عہد شکنی کے بعد پیغمبر اسلام ﷺ 20 رمضان 8 ہجری کو مسلمانوں کے ہمراہ درج ذیل ہدایات کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کرنے کے لئے روانہ ہوئے:
جو کوئی ہتھیار ڈال دے اسے قتل نہ کیا جائے
جو خانہ کعبہ کے اندر پناہ لے اسے قتل نہ کیا جائے
جو اپنے گھر میں ہی رہے اور مقابلے کے لئے باہر نہ نکلے اسے قتل نہ کیا جائے
جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے قتل نہ کیا جائے
جو حکیم بن حزام کے گھر میں پناہ لے اسے بھی قتل نہ کیا جائے
میدان جنگ سے بھاگ جانے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے
زخمی کو بھی قتل نہ کیا جائے
بغیر کسی عمومی قتال کےمکہ فتح کر لیا گیا، جس میں محض چار سرکش باغی جنگجوؤں کے علاوہ کسی بھی عام شہری کا خون نہیں بہایا گیا۔ اب مکہ کے وہ تمام لوگ مجرموں کی مانند سر جھکائے گھڑے تھے جو اکیس سال تک پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ کے صحابہ کے خلاف ظلم و بربریت، اذیتوں، دُکھوں اور مصیبتوں کی وہ تمام داستانیں رقم کرتے رہے تھے جو ان کے بس میں تھیں۔ یہ مسلمانوں پر کفار مکہ کے ظلم و عدوان کا وہ تاریک دور تھا جب ان کی تلواروں، برچھیوں اور ان کے تیروں کا نشانہ مسلسل پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ ﷺ کے پیروکاروں کی طرف رہا۔ مسلمانوں کی صفوں میں سے کسی نے آواز بلند کیا کہ آج انتقام کا دن ہے اور آج ایک ایک ظالم سے انتقام لیا جائے گا۔ جب یہ آواز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں سے ٹکرائی تو آپ ﷺ نے فوراً یہ اعلان عام فرمایا: لا تثریب علیکم الیوم و انتم الطلقاء ، آج تمہارے اوپر کوئی گرفت نہیں ہے اور تم سب آزاد ہو۔
جاری.................
....................................................................................
[1] سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ ۵۷۴، بغوی جلد 1 صفحہ ۶۷۶۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/this-how-islam-peaceful-religion-2/d/111975
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism