New Age Islam
Sat Oct 12 2024, 07:16 PM

Urdu Section ( 28 Sept 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

This Concept of Jihad Is Far From Reality and Completely Baseless جہاد کا یہ تصور حقیقت سے دور اور یکسر بے بنیاد ہے


مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

26 ستمبر 2019

نفرت کے تاجر اور عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد مولانا مسعود ازہر اپنی کتاب ’’دروس جہاد‘‘ میں قرآن مقدس اور احادیث کریمہ کی غلط تعبیر و تشریح پیش کرتے ہوئے جہاد کی ایک غلط فکر اور اس کی ایک مسخ شدہ تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

وہ مذکورہ کتاب کے صفحہ 6 پر لکھتے ہیں ؛

’’جہاد صرف علمی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عملی فریضہ ہے لیکن تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ فریضہ اور اس کی اہمیت بہت جلد بھلا دی جاتی ہے اسی وجہ سے قرآن مجید میں وقفے وقفے سے اس فریضہ کو اور اس کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا گیا ہے تاکہ مسلمان جب بھی اور جہاں سے بھی قرآن مجید کی تلاوت کریں انہیں اس فریضے کی یاد دہانی نصیب ہو اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری اور سب سے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کو حکم فرمایا کہ

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ (8:65)

’’اے نبی آپ ایمان والوں کو جہاد پر ابھارئیے‘‘۔

اس کے بعد جہاد کی تحریص و ترغیب سے متعلق ایک مخصوص سیاق و سباق والی متعدد آیات قرآنیہ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہتا ہے کہ دین اسلام اور قرآن مقدس کا اصل مقصد صرف اور صرف مؤمنوں کو جہاد کی تعلیم دینا ہی ہے۔ مثلا؛

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (38) إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (9:39)

ترجمہ: اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جائے کہ خدا کی راہ میں کوچ کرو تو بوجھ کے مارے زمین پر بیٹھ جاتے ہو کیا تم نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے پسند کرلی اور جیتی دنیا کا اسباب آخرت کے سامنے نہیں مگر تھوڑا۔ (کنز الایمان)

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (9:24)

ترجمہ: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کا مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ (کنز الایمان)

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (2:216)

ترجمہ: تم پر فرض ہوا خدا کی راہ میں لڑنا اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ (کنز الایمان)

من ماتَ و لم یغز و لم یحدث بہ نفسہ مات علی شعبۃ من النفاق۔ (مسلم)

ترجمہ: جو مر گیا اور اس نے جہاد نہ کیا اور نہ جہاد کی نیت اس کے دل میں آئی وہ شخص نفاق کے ایک حصے میں مر گیا۔ (دروس جہاد۔ ص۔15)

اُمرتُ ان اقاتل الناسَ حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فمن قال لا الہ الا اللہ عصم منی مالہ و نفسہ الا بحقہ و حسابہ علی اللہ (بخاری و مسلم)

ترجمہ: مجھے حکم دی گیا ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیں (یعنی یا تو مسلمان ہو جائیں یا مسلمانوں کی حکومت کو تسلیم کر کے انہیں جزیہ دیں) پس جس نے لا الہ الا اللہ کا کہہ دیا اس نے اپنا مال اور جان مجھ سے محفوظ کر لی سوائے اس کے شرعی حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ (دروس جہاد، ص۔13)

یہ وہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ہیں جن میں اوائل اسلام کے چند ستم رسیدہ مؤمنین و مسلمین کو اپنے وجود کی بقاء کے لئے ان لوگوں سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی تھی جو ان کے لئے وبال جان بن چکے تھے ۔ انہیں کن حالات میں ظالموں سے جنگ کرنے کی اجازت ملی تھی اس کا اندازہ ایک مشہور اسلامی مؤرخ و مفسر جسٹس پیر کرم شاہ ازہری کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جسے انہوں نے اپنی مایہ ناز تصنیف ضیاء القرآن میں درج کیا ہے؛

آپ لکھتے ہیں: ’’حضرت بلال کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا گیا تھا۔ حضرت یاسر اور حضرت سمیہ کو برچھیوں سے زخمی کر دیا گیا تھا۔ غربا اور کمزوروں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اور متمول خاندان کے لوگ بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں تھے۔ حضرت عثمان کے چچا آپ کو جانوروں کی جلد میں لپیٹ کر آپ پر انگارے برساتے ہوئے سورج کی تپش میں چھوڑ دیا کرتے تھے۔ جان پگھلا دینے والی سورج کی تپش اور کھال کی بدبو سے ان کا دم گھٹنے لگتا اور وہ سخت تکلیف اور اذیت کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت ابو بکر پر بھی اسی طرح ظلم کی داستان دہرائی گئی تھی جس کی وجہ سے آپ کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔

جسمانی اذیت رسانیوں کے علاوہ بات بات پر مذاق ، ہر آیت پر اعتراض، ہر حکم شریعت پر آواز کسے جاتے۔ غرضیکہ کفر کے ترکشِ جور و جفا میں جتنے تیر تھے سب چلائے گئے۔ باطل کے اسلحہ خانہ میں جس جس قسم کا اسلحہ تھا سب ہی آزمایا گیا۔ ان دل آزاریوں، ستم شعاریوں، اور مجروح دلوں پر نمک پاشیوں کا سلسلہ سال دو سال نہیں بلکہ پورے تیرہ سال شدت کے ساتھ جاری رہا۔ اس کے باوجود مظلوموں کو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ انہیں ان کے رب کا یہ حکم تھا کہ صبر اور ضبط سے کام لیں اور کسی طرح کی جوابی یا انتقامی کاروائی نہ کریں۔ نبوت کے تیرہویں سال ہجرت کی اجازت ملی۔ حضور ﷺ اور صحابہ کرام مکہ سے ڈھائی تین سو میل دور ‘یثرب’ نامی ایک بستی میں جمع ہو گئے۔ لیکن کفار مکہ کی آتشِ غضب اب بھی سرد نہ ہوئی۔ یہاں بھی مسلمانوں کو چین کا سانس نہ لینے دیا۔ دس دس بیس بیس کافروں کے جتھے آتے۔ مکہ کی چراگاہوں میں اگر کسی مسلمان کے مویشی چر رہے ہوتے تو انہیں لے اڑتے۔ اکا دکا مسلمان مل جاتا تو اسے بھی قتل کرنے سے باز نہ آتے۔

چودہ پندرہ سال تک صبر و ضبط سے مظالم برداشت کرنے والوں کو آج اجازت دی جا رہی ہے کہ تم اپنی مدافعت کے لئے ہتھیار اٹھا سکتے ہو۔ کفر کے ظلم کی انتہا ہو گئی ہے۔ باطل کی جفاکشیاں حد سے بڑھ گئی ہیں۔ اب اٹھو ان سرکشوں اور مئے پندار سے مدہوش کافروں کو بتا دو کہ اسلام کا چراغ اس لئے روشن نہیں ہوا کہ تم پھونک مار کر اسے بجھا دو۔ حق کا پرچم اس لئے بلند نہیں ہوا کہ تم بڑھ کر اسے گرا دو۔ یہ چراغ اس وقت تک فروزاں رہے گا جب تک چرخ نیلوفری پر مہر و ماہ چمک رہے ہیں۔ (ضیاء القرآن ،جلد 3؛ ص ۔218)‘‘

یہ ہے وہ تاریخی پس منظر جس کی بنیاد پر مسلمانوں کو اپنے وجود کی بقاء اور اپنے بنیادی انسانی حقوق کی باز یابی کے لئے جہاد کی اجازت دی گئی تھی۔ لہٰذا، اب نام نہاد جہاد کی علم برداری کرنے والے عالمی دہشت گرد مولانا مسعود ازہر سے ہم امن پسند مسلمانوں کے چند سوالات ہیں جن کا جواب انہیں دینا چاہئے۔ اعلان جہاد کا حکم تو رسول اکرم ﷺ کو اللہ نے دیا تھا اب یہ حق آپ کو کس بنیاد پر حاصل ہو گیا ؟ معتمد و مستند فقہائے اسلام کا یہ ماننا ہے کہ انتہائی ناگزیر حالات میں صرف اور صرف بادشاہ سلطنت اسلامیہ ہی دشمنوں کے ساتھ جہاد کا اعلان کر سکتا ہے ، لہٰذا سوال یہ ہے کہ آپ اور آپ کے ہمجولی کس سلطنت اسلامیہ کے بادشاہ ہیں جو لوگوں کو جہاد کا حکم دے رہے ہیں ؟ متعدد قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے یہ ثابت ہے کہ خود کشی کرنا اسلام میں حرام اور انتہائی مذموم ترین عمل ہے، لہذا کن بنیادوں پر آپ خود کش حملوں کا جواز پیش کرتے ہیں ؟ کیا شریعت میں حلت و حرمت کا پیمانہ سب کے لئے برابر ہے ؟ یا آپ جہادیوں کے لئے حلت و حرمت کا پیمانہ کچھ ہے اور ہم غیر مسلح امن پسند مسلمانوں کے لئے کچھ اور ؟

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/this-concept-jihad-far-reality/d/119855


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..