مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
دین اور مذہب کا اصل مقصد انسان کی دنیاوی زندگی کو آسمانی وحی کے ذریعہ سنوارنا اور اسے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرنا ہے تاکہ انسان کی آخرت بہتر ہو سکے۔ نہ کہ آخرت کی ڈر سنانا اور عذاب سے متنبہ کرنا تاکہ مجبوراً انسان نیکی کے راستے پر چلے۔ ہر چند کہ اس سے بھی جزوی طور پر دین کا مقصد حاصل ہو تا ہے لیکن یہ قرآن کی ترتیب ، منشا اور اس کی روح کے خلاف ہے ۔ قرآن کہتا ہے :
وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ِ(201) أُولَـٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّـهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ (2:202)
ترجمہ: اور کوئییوں کہتا ہے کہ اے رب ہمارے! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا - ایسوں کو ان کی کمائی سے بھاگ (خوش نصیبی) ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔ کنزالایمان
قرآن کی ترتیب اور منشا یہ ہے کہ انسان وحی کی صورت میں اللہ کے قانون کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور دنیا و آخرت دونوں میں اللہ سے بھلائی کا طلبگار بنے۔ اور قرآن کہتا ہے کہ جب انسان اس طور پر اپنی زندگی بسر کرتا ہے تو اس کی زندگی اس دنیا میں نمونہ عمل تو بنتی ہی ہے لیکن آخرت میں بھی اسے خیر سے ایک وافر حصہ عطا کیا جاتا ہے۔ لیکن جس کی ساری زندگی اس دنیا کو ہی بہتر بنانے میں گزر جاتی ہے اور جو اللہ سے بھی صرف اسی دنیا کی خیر اور بھلائی طلب کرنے میں آخرت کو فراموش کر بیٹھتا ہے ‘ قرآن کہتا ہے کہ آخرت میں اس کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے ایسے لوگ آخرت میں نامراد اور خائب و خاسر ہو کر اٹھائے جائیں گے، قرآن کہتا ہے:
فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (2:200)
ترجمہ : پھر جب اپنے حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ اور کوئی آدمییوں کہتا ہے کہ اے رب ہمارے ہمیں دنیا میں دے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔ کنزالایمان
فکر آخرت اور خیرِ دنیا
نزول قرآن اور بعثت پیغمبر اسلام ﷺ کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان کے دنیاوی معاملات بہتر ہو جائیں خواہ وہ معاملات ذاتی ہوں، سماجی ہوں، عائلی ہوں، ازدواجی ہوں، انفرادی ہوں، سیاسی ہوں خواہ علاقائی یا عالمی ہوں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ انسان کی شخصیت سنور جائے اور اس کی ساری توانائی آخرت کو بہتر بنانے میں صرف ہو۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان فکر آخرت کو اپنے پلے باندھ لے۔ انسان جس طرح کے بھی معاملات سے ڈیل (Deal) کر رہا ہو‘ پیش نظر یہ امر ہو کہ اس سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جائے جو اس کی آخرت تباہ و برباد کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ایسے لوگوں کا جنت میں ہونا بیان کیا ہے جو اس دنیا میں اللہ کے ذکر میں مستغرق اور فکر آخرت میں حیران و پریشاں رہتے تھے، دیکھیں سورہ الطور کی یہ آیتیں:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ (21) وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ (22) يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ (23) ۞ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ (24 وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (25) قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ (26) فَمَنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ (27 إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ (28) فَذَكِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ (52:29)
ترجمہ: اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی سب آدمی اپنے کیے میں گرفتار ہیں - اور ہم نے ان کی مدد فرمائی میوے اور گوشت سے جو چاہیں- ایک دوسرے سے لیتے ہیں وہ جام جس میں نہ بیہودگی اور گنہگاری - اور ان کے خدمت گار لڑکے ان کے گرد پھریں گے گویا وہ موتی ہیں چھپا کر رکھے گئے - اور ان میں ایک نے دوسرے کی طرف منہ کیا پوچھتے ہوئے - بولے بیشک ہم اس سے پہلے اپنے گھروں میں سہمے ہوئے تھے - تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیںلُو کے عذاب سے بچالیا - بیشک ہم نے اپنی پہلی زندگی میں اس کی عبادت کی تھی، بیشک وہی احسان فرمانے والا مہربان ہے۔ کنزالایمان
فقیہ ابواللیثسمرقندی اپنی کتاب ذکر للذاکرین میں اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
قال عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ : زنواانفسکم قبل ان توزنوا‘ و حاسبواانفسکم قبل ان تحاسبوا‘ وتزینواللعرضالاکبر‘ ذالک یوم القیامۃ (يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌ (69:18)۔ (ذکرللذاکرین)
ترجمہ: حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’لوگوں اپنے اعمال کو (حق و باطل کے ترازو پر) خود ہی وزن کر لو اس سے قبل کہ وہ میزان عمل پر وزن کئے جائیں (یعنی نیکیوں کے کام اسی دنیا میں موت سے قبل انجام دو)۔ اور اسی دنیا میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرلو اس سے قبل کہ (قیامت) میں تم سے (تمہارے اعمال کا) حساب لیا جائے۔ اور سب سے بڑی پیشی کے دن کے لئے (اسی دنیا میں اعمال صالحہ سے اپنی شخصیت کو) مزین کر لو اور وہ دن قیامت کا ہے، (ارشاد ربانی ہے: ’’يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌ ‘‘ ترجمہ: اس دن تم سب پیش ہو گے کہ تم میں کوئی چھپنے والی جان چھپ نہ سکے گی۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-purpose-religion-/d/119172
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism