New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 05:41 PM

Urdu Section ( 15 Apr 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Taqwa- What Does Allah Demand From Us?-Part—2 خلوص کے بغیر تقویٰ کا تصور نامکمل

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

9 اپریل 2019

محترم قارئین! جیسا کہ اب تک ہم یہ جان چکے ہیں کہ قرآن مقدس سے ہدایت اخذ کرنا تقویٰ پر موقوف ہے اس لئے کہ قرآن مقدس واضح طور پر یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ متقین کے لئے ہی ہدایت کا سامان فراہم کرتا ہے جس کا بجا طور پر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس کی شخصیت تقویٰ کے نور سے مزین ہوگی قرآن اس کے لئے ہدایت کا چمکتا ہوا سورج ہےاور جو تقویٰ کی دولت سے محروم ہے وہ مکمل قرآن پڑھ کر بھی ہدایت سے دور ہے۔

اس سے قبل کہ آیات قرآنیہ کی روشنی میں ہم تقویٰ کے ایک جامع اور وسیع ترین تصور کا مطالعہ کریں ضروری ہے کہ تقویٰ کی علامات اور شرائط (prerequisites and features) کا اختصار کے ساتھ جائزہ لے لیں۔

فقیہ ابو اللیث نصر بن محمد سمرقندی حنفی (متوفی ۳۷۳) لکھتے ہیں:

علامۃ خوف اللہ تتبین فی سبعۃ اشیاء:

اللہ کا خوف (تقویٰ) ان سات چیزوں سے عیاں ہوتا ہے:

اولھا: تتبین فی لسانہ، فیمتنع لسانہ من الکذب و الغیبۃ و کلام الفضول و یجعل لسانہ مشغولاً بذکر اللہ و تلاوۃ القرآن و مذاکرۃ العلم۔

پہلی؛ زبان، کہ انسان اپنی زبان کو جھوٹ، غیبت اور فضول گوئی سے پاک رکھے، اور ہمیشہ اپنی زبان کو اللہ کے ذکر ، قرآن کی تلاوت اور علم دین سیکھنے اور سکھانے میں مشغول رکھے۔

و الثانی: ان یخاف فی امر بطنہ، فلا یدخل فی بطنہ الا طیباً حلالاً، و یاکل من الحلال مقدار حاجتہ۔

دوسری؛ انسان اپنے پیٹ (یعنی اپنے رزق) کے معاملے میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہے، اور اس کے شکم میں صرف حلال اور پاک غذائیں ہی داخل ہوں۔ اور وہ بھی صرف بقدر حاجت۔

و الثالث: ان یخاف فی امر بصرہ، فلا ینظر الی الحرام۔ و لا الی الدنیا بعین الرغبۃ، و انما یکون نظرہ علی وجہ العبرۃ۔

تیسری؛ انسان اپنی نگاہوں کے بارے میں ہمیشہ اللہ کا خوف کرے اور کبھی کسی حرام شئی کی طرف اپنی نظر نہ اٹھائے، اور نہ ہی دنیا کی طرف محبت اور رغبت کی نظر سے دیکھے، اور ہمیشہ اس کی نظر انجامِ کار پر ٹکی رہے۔

والرابع: ان یخاف فی امر یدہ، فلا یمدن یدہ الی الحرام، انما یمد یدہ الی مافیہ طاعۃ اللہ عز و جل۔

چوتھی؛ اپنے ہاتھوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرے، لہٰذا، کبھی اپنے ہاتھ کارِ حرام کی طرف نہ اٹھائے بلکہ ہمیشہ انسان کے ہاتھ اسی کام کے لئے اٹھیں جس میں اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ہو۔

و الخامس: ان یخاف فی امر قدمیہ فلا یمشی فی معصیۃ اللہ۔

پانچویں: انسان اپنے قدموں کے بارے میں اللہ سے ڈرے، لہٰذا کبھی اس کے قدم اللہ کی معصیت و نافرمانی کی طرف نہ بڑھیں۔

و السادس: ان یخاف فی امر قلبہ، فیخرج منہ العداوۃ والبغضاء و حسد الاخوان، و یدخل فیہ النصیحۃ و الشفقۃ للمسلمین۔

چٹھی؛ انسان اپنے دل کے معاملات میں اللہ کا خوف کرے، لہٰذا چاہیئے کہ انسان اپنے دل سے اپنے مسلمان بھائیوں کی عداوت ، بغض اور حقد و حسد نکال دے، اور اس میں مسلمانوں کے لئے شفقت و خیر خواہی کا جذبہ بیدار کرے۔

والسابع: ان یکونَ خائفاً فی امر طاعتہ فیجعل طاعتہ خالصا لوجہ اللہ، و یخاف الریاء و النفاق۔ (تنبیہ الغافلین ، ص ۳۰۵)

اور ساتویں شئی یہ ہے کہ انسان اپنی طاعت و فرمانبرداری (یعنی نیکی کے کاموں میں) بھی ہمیشہ اللہ کا خوف کرے، لہٰذا اپنے تمام نیک اعمال خالصۃً لوجہ اللہ (اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے) انجام دے ، اور ان میں ریا اور نفاق پیدا ہونے سے ڈرے۔

تقویٰ اعلیٰ ترین اخلاص اور صبر و استقامت کا مطالبہ کرتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر انسان کا عمل تو تقویٰ والا نظر آتا ہے کہ لیکن فی نفسہ وہ عمل تقویٰ نہیں ہوتا کیوں کہ اس کا یہ عمل خلوص سے خالی ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اخلاص اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ دینی یا دنیاوی جو بھی عمل انجام دیا جائے اس سے صرف اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ اگر عمل میں ریا کی بو بھی شامل ہو گئی تو وہ اخلاص کے معیار سے گر جائے گا اور انسان تقویٰ کی سعادت مندی سے محروم ہو جائے گا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تقویٰ ایک انتہائی کٹھن ڈگر ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اس پر چلنے والوں کے لئے انعامات بھی اسی معیار کے بیان کئے گئے ہیں۔ سورہ آل عمران کی درج ذیل آیت ملاحظہ ہو:

 لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ (3:198)

لیکن وہ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں ہیں ہمیشہ ان میں رہیں اللہ کی طرف کی مہمانی اور جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکوں کے لئے سب سے بھلا ۔

نیز سورہ النساء

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (1) وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا (4:2)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بیشک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے - اور یتیموں کو ان کے مال دو اور ستھرے کے بدلے گندا نہ لو اور ان کے مال اپنے مالوں میں ملاکر نہ کھا جاؤ، بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔

امانت داری

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (75) بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (3:76)

اور کتابیوں میں کوئی وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک ڈھیر امانت رکھے تو وہ تجھے ادا کردے گا اور ان میں کوئی وہ ہے کہ اگر ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھے تو وہ تجھے پھیر کر نہ دے گا مگر جب تک تو اس کے سر پر کھڑا رہے یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اَن پڑھوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مؤاخذہ نہیں اور اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں - ہاں کیوں نہیں جس نے اپنا عہد پورا کیا اور پرہیزگاری کی اور بیشک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں۔

امانت داری میں تقویٰ کا پہلو یہ ہے کہ جس شکل میں جس کی جو بھی امانت ہو من و عن وہ امانت وقت آنے پر ادا کر دی جائے ۔ امانت خواہوں کو بیوقوف یا ان پڑھ سمجھ کر ان سے الجھنا اور ان کی حق تلفی کی کوشش کرنا ایک عظیم گناہ ہے جس پر قیامت کے دن اللہ رب العزت مواخذہ فرمائے گا ۔ اس کے برعکس جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں اور حسب وعدہ امانت ادا کر دیتے ہیں وہ اہل تقویٰ ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔

صبر ، صبر میں سبقت اور سرحد کی حفاظت میں تقویٰ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (3:200)

اے ایمان والو! صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ کامیاب ہو۔

اہم نکتہ: یہ جاننے کے لئے کسی جانفشانی یا ورق گردانی کی ضرورت نہیں کہ خود صبر کا عمل تقویٰ کے قبیل سے ہے ۔ لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اللہ نے دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی کی چاہ رکھنے والوں کو صبر کرنے صبر میں ایک دوسرے پر سبقت کرنے اور حتی کہ سرحد کی حفاظت کرنے میں بھی تقویٰ کا دامن پکڑے رہنے کا حکم دیا ہے ! اس کا مطلب کیا ہے؟ صوفیائے کرام کے اقوال سے اس امر کی تصریح اس طور پر ملتی ہے کہ گرفتار مصیبت ہونے پر صبر کا مظاہرہ کرنا ، اور جب وہ مصیبت اجتماعی ہو اور لوگوں کے صبر کے پیمانے ٹوٹ رہے ہوں تو صبر کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کرنا اور اگر صبر کسی بیرونی مصیبت پر ہو تو ایسی صورت میں اپنے سرحدوں کی حفاظت کرنا ایک ذمہ داری اور شان بندگی ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ تقاضۂ فطرت کے تحت سخت مشکل اور مصیبت کی گھڑی میں انسان کی زبان سے ناشکری کے الفاظ نکل جائیں، لہٰذا شدید مصیبت کی حالت میں بھی اللہ کی ناشکری سے خود کو محفوظ رکھنا تقویٰ ہے ۔

جاری۔۔۔۔۔۔

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/taqwa-mean-part-1-/d/118287

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/taqwa-allah-demand-part—2-/d/118331

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..