مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
7 جولائی 2018
ما قبل میں ہم نے تصوف کے باب میں امہات الکتب میں شمار کی جانے والی ایک معرکۃالآرا کتاب رسالہ قشیریہ کے حوالے سے توبہ کے بارے میں متعدد اجلہ صوفیائے کرام کے مختلف نظریات کا مطالعہ کیا۔ حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس مکتوب شریف کی توضیح و تشریح میں راقم الحروف نے حضرت عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك القشيری رحمۃ اللہ علیہ(المتوفى: 465 ہجری ) کےرسالہ قشیریہ کا حوالہ پیش کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ بعد کے زمانوں کے تقریباً تمام صوفیائے کرام نے آپ کی اس کتاب سے بھر پور استفادہ کیا ہے ،لہٰذا راقم الحروف نے بھی ان کے تحریری شہ پاروں سے استفادہ کر کے اپنی بات مستند کرنے کی کوشش کی ہے۔
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: ‘‘عوام کی توبہ گناہوں سے ہے اور خواص کی توبہ (یادِ الٰہی میں) غفلت سرزد ہو جانے سے ہے’’۔ ابو الحسين النوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ‘‘توبہ (کی حقیقت) یہ ہے کہ تو اللہ کے علاوہ ہر شئی سے تائب ہو جائے’’۔ حضرت واسطی سچی توبہ کی ایک علامت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘کہ توبہ نصوحہ بجالانے والے پر اس کے ظاہر و باطن میں گناہوں کا ذرہ برابر کوئی اثر باقی نہیں رہتا’’۔ اور توبہ کے بارے میں حضرت بوشنجی رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا وہ توبہ کا نتیجہ ہے جو صدق دل سے توبہ کرنے والے کی شخصیت پر مرتب ہوتا ہے، آپ فرماتے ہیں : ‘‘جب تمہیں گناہ یاد آئے اور اس وقت تم اس گناہ کی حلاوت اور چاشنی (اپنے دل میں) نہ محسوس کرو تو یہی حقیقی توبہ ہے’’۔
حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب شریف کے حوالے سے توبہ کے باب میں بنیادی طور پر حضرت جنید بغدادی اور حضرت خواجہ سہیل بن عبد اللہ التستری کے جو دو مختلف نظریات سامنے آئے ان کے درمیان حضرت ابو نصر السراج نے ایک شاندار تطبیق پیدا کر دی اور فرمایا کہ ‘‘سہیل بن عبد اللہ التستری نے (توبہ کی اپنی تعریف میں) مریدین و معترضین (مبتدئین) کے احوال کی طرف اشارہ کیا ہے ، کیوں کہ ان کے احوال کبھی ان کے حق میں ہوتے ہیں اور کبھی ان کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے (توبہ کی اپنی تعریف میں) متحققین (عرفائے کاملین اور مقربان بارگاہ) کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس لئے کہ ان کے قلوب پر اللہ کی عظمت و جلال کا غلبہ اور اس کے ذکر کو دوام حاصل ہوتا ہے لہٰذا انہیں اپنے گناہوں کو یاد کرنے کی مہلت ہی میسر نہیں ہوتی’’۔
اور یہی بات حضرت علی بن عثمان الجلابی معروف بہ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی معرکۃ الآرا تصنیف کشف المحجوب میں کی ہے ، آپ فرماتے ہیں:
‘‘و ابوالحسن بوشنجہی گوید رضی اللّہ عنہ در توبہ: «إذا ذَکَرْتَ الذَّنْبَ، ثُمّ لاتَجِدُ حَلاوةً عِنْدَ ذِکْرِہ فَہوَ التَّوْبَةُ۔»چون گناہ را یاد کنی و از یاد کردن آن در دل لذتی نیابی آن توبہ باشد؛ از آنچہ ذکر معصیت یا بہ حسرتی بود یا بہ ارادتی۔ چون کسی بحسرت و ندامت معصیت خود یاد کند تایب بود و ہر کہ بارادت معصیت یاد کند عاصی بود؛ از آنچہ در فعل معصیت چندان آفت نباشد کہ اندر ارادت آن؛ از آن کہ فعلِ آن یک زمان بود و ارادتش ہمیشہ۔ پس آن کہ یک ساعت بتن با معصیت صحبت کند نہ چنان بود کہ روز و شب بدل با آن صحبت کند’’۔ (بحوالہ: کشف المحجوب فارسی۔ باب فی التوبہ و ما یتعلق بھا-صفحہ 326۔مطبع النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان۔ سن طباعت - 18 صفر المظفر 1435 ہجری بمطابق 22 دسمبر 2013)۔
حضرت بوشنجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ‘‘(إذا ذَکَرْتَ الذَّنْبَ، ثُمّ لاتَجِدُ حَلاوةً عِنْدَ ذِکْرِہ فَہوَ التَّوْبَةُ)، جب تمہیں گناہ یاد آئے اور اس وقت تم اس گناہ کی حلاوت اور چاشنی (اپنے دل میں) نہ محسوس کرو تو یہی حقیقی توبہ ہے’’۔ اس لئے کہ یا تو حسرت و افسوس کے ساتھ تمہیں اپنی معصیت یاد آئے گی یا گناہ کے ارادہ یا اس کی خواہش کے ساتھ تمہیں اپنی معصیت یاد آئے گی۔ اور جب کوئی حسرت و ندامت کے ساتھ اپنے گناہوں کو یاد کرتا ہے تو وہ (اپنے گناہوں سے) توبہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اور جو اپنے گناہوں کو معصیت کے ارادے کے ساتھ یاد کرتا ہے وہ گنہگار ہوتا ہے۔ اس لئے کہ معصیت کے ارتکاب میں (دین و آخرت کی) اتنی تباہی نہیں ہے جتنی گناہوں کے ارادے اور اس کی خواہش کے اندر ڈوبے رہنے میں ہے۔ کیوں کہ معصیت کا ارتکاب صرف ایک لمحے میں ہو جاتا ہے جبکہ معصیت کا ارادہ اور اس کی خواہش دل میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اور تَن کے ایک ساعت کے لئے گناہ میں ملوث ہونے اور مَن کے شب و روز معصیت کے خیال میں ڈوبے رہنے کے درمیان فرق ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں:
‘‘و ذوالنون مصری گوید، رضی اللہ عنہ: «التّوبةُ تَوْبَتانِ: توبةُ الإنابةِ، و توبةُ الإِستِحیاءِ۔ فَتَوْبَةُ الإنابةِ اَن یتوبَ العبدُ خوفاً مِن عُقُوبَتِہ، و توبةِ الإِستِحیاءِ أنْ یتوبَ حیاءً مِنْ کَرَمِہ۔» توبہ دو باشد: یکی توبۂ انابت، و دیگر توبۂ استحیاء توبۂ انابت آن بود کہ بندہ توبہ کند از خوف عقوبت خدای و توبۂ استحیاء آن بود کہ توبہ کند از شرمِ کرم خداوند۔ پس توبہ از خوف از کشفِ جلال بود، و از آن حیا از نظارۂ جمال۔ پس یکی در جلال از آتشِ خوف وی میسوزد و یکی اندر جمال از نور حیا می فروزد’’۔ (بحوالہ: کشف المحجوب فارسی۔ باب فی التوبہ و ما یتعلق بھا-صفحہ 326۔مطبع النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان۔ سن طباعت - 18 صفر المظفر 1435 ہجری بمطابق 22 دسمبر 2013)۔
اور حضرت ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ‘‘(التّوبةُ تَوْبَتانِ: توبةُ الإنابةِ، و توبةُ الإِستِحیاءِ۔ فَتَوْبَةُ الإنابةِ اَن یتوبَ العبدُ خوفاً مِن عُقُوبَتِہ، و توبةِ الإِستِحیاءِ أنْ یتوبَ حیاءً مِنْ کَرَمِہ)، یعنی توبہ کی دو قسمیں ہیں : ایک توبہ انابت اور دوسری توبہ استحیاء ، لہٰذا توبۂ انابت یہ ہے کہ بندہ عتاب الٰہی سے خوف کی بنیاد پر توبہ کرے ، اور توبۂ استحیاء یہ ہے کہ بندہ خداوند تعالیٰ کے انعامات اور اس کے فضل و احسان سے حیاء کرتے ہوئے تائب ہو۔’’ پس خوفِ خدا کی بنیاد پر کی جانے والی توبہ کی وجہ عظمت و جلالِ خداوندی کا انکشاف ہے ، اور (خداوند تعالیٰ کے انعامات اور اس کے فضل و احسان سے) حیاء کی بنیاد پر کی جانے والی توبہ کی وجہ رحمت و جمالِ الٰہیہ کا نظارہ ہے۔ لہٰذا، اول الذکر عظمت و جلالِ خداوندی کے سمندر میں آتشِ خوفِ الٰہی سے سلگتا رہتا ہے ، جبکہ دوسرا رحمت و جمالِ حق کے بحرِ ناپیدا کنار میں حیاء کے نور سے جگمگاتا رہتا ہے۔
اب ذیل میں مکتوب شریف کا جو آخری اقتباس پیش کیا جا رہا ہے اس میں براہ راست خطاب ہم جیسے تہی دست اور کوتاہ دامنوں سے ہے۔ جن کے پاس نہ تو کوئی حسن عمل ہے اور نہ ہی کوئی توشہ آخرت۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہماری زندگی صرف رحمت خدا وندی کے سہارے گزرتی جا رہی ہے۔
‘‘برادر اجل در کمین است و فرصت عزیز کہ ناحیہ ملک الموت ناگاہ طالع شود۔ پیری نزدیکِ بزرگی آمد و گفت ایھا الشیخ ! گناہ بسیار دارم ، و میخواہم کہ توبہ کنم ، شیخ گفت کہ دیر آمدی پیر گفت نہ زود آمدم شیخ گفت کہ چیگونہ؟ پیر گفت ہر کہ پیش از مرگ بیاید اگر چہ دیر باشد زود آمدہ بود۔ برادر ہر چند آلودہ و ملوثی چنگ بہ توبہ زن و امید وار باش کہ از سحرۂ فرعون آلودہ تر نۂ و از سگ اصحاب کہف ملوث تر نۂ ، و از سنگ طور سینا جماد تر نۂ و از چوب حنانہ بی قیمت تر نۂ۔ غلام رو اگر چہ از حبش آرند چہ زیان دارد چون خواجہ اش کافور نام نہد۔ چون ملائکہ گفتندکہ مارا بافساد ایشان طاقت نیست ، ندا آمدآری اگر بردر شما فرستم رد کنید و اگر بدست شما بفروشم مخریدی ۔ ترسیدہ کہ معصیتِ ایشان از رحمت ما زیادت آید یا می ترسید کہ آلودگی ایشان بر کمال قدوسی مالوثی آرد، این مشتے خاکیانند کہ حضرت ما مقبولانند ، چون قبول ما آمد معصیت و لوث ایشان را چہ زیان کند۔ بیت سراسر ما ہمہ عیبم بدیدی و خریدی تو زہے کالائے پرعیب و زہے لطف خریداری۔’’
ترجمہ: ائے بھائی! موت گھات لگائے بیٹھی ہے، جو وقت تیرے پاس ہے اس کی قدر کر ، کیا خبر موت کے فرشتے کب تیرے دروازے پر دستک دیدیں۔ ایک عمر درازشخص کسی بزرگ کے پاس گیا اورکہا کہ ائے شیخ میرے گناہوں کا کوئی شمار نہیں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ توبہ کر کے گناہوں سے پاک ہو جاؤں ، اِس پر وہ بزرگ فرمانے لگے کہ تم نے توبہ کے دروازے پر آنے میں دیر کر دی تو اس (عقلمند) ضعیف شخص نے کہاں کہ نہیں مجھ سے اس میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ، بزرگ نے حیرت سے پوچھا کیوں؟ تو اس ضعیف کہا کہ توبہ ایک ایسی ابدی سعادت ہے کہ اگر موت سے پہلے بھی نصیب ہو جائے تو غنیمت ہے۔ اے برادر عزیز! ہر چند کہ تو گناہوں اور معصیتوں میں ڈوبا ہوا ہے ، جلدی توبہ کر اور (اللہ کی رحمت سے) امید باندھ۔ اس لئے کہ تو فراعنۂ مصر کے ساحروں سے زیادہ آلودہ نہیں ہے۔ (تو ہمت رکھ اس لئے کہ) تو اصحاب کہف کے کتے سے زیادہ نجس نہیں ہے۔ (تو اللہ کی طرف قدم بڑھا اس لئے کہ ) تو طورِ سینا کے پتھروں سے زیادہ ساکت و جامد نہیں ہے۔ اور (تو اپنی قدر پہچان اس لئے کہ) تو چوب حنانہ سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے۔ (اللہ اور اس کے رسول کی) غلامی اختیار کر ، اگر چہ حبشہ سے لائے ہوئے غلام کا نام اس کا آقا کافور رکھ دے ، اس میں غلام کا کیا نقصان! (ذا غور کر کہ بارگاہ ایزدی میں) جب فرشتوں نے کہا کہ ہم ان (انسانوں) کے ذریعہ برپا کئے جانے والے فساد اور قتل و غارت گری کی تاب نہیں رکھتے ، تو ندائی آئی کہ (ٹھیک ہے) اگر میں انہیں تمہارے دَر پر بھیجوں تو لوٹا دینا اور انہیں تم سے فروخت کرنے آؤں تو مت خریدنا، اس ڈر سے کہ ان کی معصیت میری رحمت سے بڑھ جائے گی ، یا تمہیں اس بات کا خوف ہے کہ ان (کے وجود)کی آلودگی میری تنزیہہ و تقدیس کے دامن پر دھبہ لگا دیگی۔ (ائے نوریوں سن لو!) یہ وہ مشت خاک ہیں جو میری بارگاہ میں مقبول و مقرب ہیں۔ اور جب میں نے انہیں (اپنی بارگاہ میں) شرف قبولیت بخش ہی دیا ہے تو ان کی معصیت اور آلودگیوں سے انہیں کیا نقصان! کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے:
سراسر ما ہمہ عیبم بدیدی و خریدی تو زہے کالائے پرعیب و زہے لطف خریداری
سر تا پاء میرا وجود عیب ہی عیب ہے، اور تو نے جانچ پرکھ کر مجھے خرید ہی لیا۔ کیا ہی خوب میرا عیب دار وجود ، اور کیا ہی مہربان میرا خریدار!
ختم شد........
URL for Part-1:
URL for Part- 2:
URL for Part-3:
URL for Part-4:
URL for part-5:
URL for Part-6:
URL for Part-7:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism