مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
4 جولائی 2018
جب بات توبہ اور رجوع الی اللہ کی ہو تو انسانی فطرت کے مد نظر ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توبہ کرنے کے بعد اگر دوبارہ کوئی شرارتِ نفس کا شکار ہو جائے اور گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو کیا وہ توبہ کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا؟ اور کیا اس کے گناہ معاف کئے جائیں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں گناہوں سے جتنی مرتبہ توبہ کی جائے جائز ہے اور توبہ کرنے والے کو اس کا اجر ملے گا اور اس کے گناہ بھی معاف کئے جائیں گے حتیٰ کہ اگر کوئی ستر مرتبہ بھی توبہ کرے اور ہر توبہ کے بعد اس سے معصیت سرزد ہو جائے تب بھی اسے اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا حرام ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ توبہ کے وقت نیت خالص ہو اور دل میں آئندہ گناہوں سے بچنے کا عزم مصمم ہو۔ اور یہی بات حضرت علی بن عثمان الجلابی معروف بہ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنی معرکۃ الآرا تصنیف کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
‘‘و روا باشد بنزدیک اہل سنت و جماعت و جملہ مشائخِ معرفت کہ کسی از یک گناہ توبہ کند و گناھان دیگر میکند، خدای تعالی بدانچہ وی از آن یک گناہ باز بردہ است او را ثواب دہد و باشد کہ ببرکت آن از گناہانِ دیگرش باز ماند۔’’ (بحوالہ: کشف المحجوب فارسی۔ باب فی التوبہ و ما یتعلق بھا-صفحہ 322۔مطبع النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان۔ سن طباعت - 18 صفر المظفر 1435 ہجری بمطابق 22 دسمبر 2013)
ترجمہ: علمائے اہلسنت اور جملہ مسائخ طریقت و معرفت کے نزدیک یہ جائز ہے کہ بندہ کسی ایک گناہ سے تو تائب ہو لیکن کسی دوسرے گناہ میں مبتلاء ہو ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس ایک مخصوص گناہ سے باز رہنے کا ثواب اسے عطا فرمائے گا۔ اور عین ممکن ہے کہ اس ایک گناہ سے تائب ہونے کی برکت سے اسے دیگر گناہوں سے بھی بچنے کی توفیق نصیب ہو جائے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
‘‘بدانکہ توبہ را شرط تأیید نیست؛ از بعد آنکہ عزم بر رجوع ناکردن بمعصیت درست باشد۔ و اگر تایبی را فترتی بیفتد و بمعصیت باز گردد بہ صحت عزم، اندر آن ایامِ گذشتہ حکم و ثواب توبہ یافتہ باشد۔ و از مبتدیان و تایبان این طایفہ بودند کہ توبہ کردہ اند و باز فترتی بیفتاد است شان و بخرابی بازگشتہ اند، آنگاہ باز بحکم تنبیہی بدرگاہ آمدہ اند’’۔( بحوالہ: کشف المحجوب فارسی۔ باب فی التوبہ و ما یتعلق بھا-صفحہ 322۔مطبع النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان۔ سن طباعت - 18 صفر المظفر 1435 ہجری بمطابق 22 دسمبر 2013)
ترجمہ: تمہیں معلوم ہو کہ توبہ (کی درستگی) کے لئے اس پر دوام شرط نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی توبہ کے بعد بھی معصیت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اور اس کے بعد پھر وہ گناہوں سے باز آ جائے تو ان (گناہوں کے ارتکاب سے قبل کے) گزشتہ ایام میں اسےتوبہ کرنے والا شمار کیا جائے گا اور اسے توبہ کا ثواب بھی حاصل ہو گا۔ (سفر طریقت و معرفت) کا آغاز کرنے والوں اور (عرفاء و صلحاء کی) اس جماعت میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں کہ توبہ کرنے کے بعد بھی ان سے گناہ سرزد ہوئے۔ لیکن شعور ندامت بیدار ہونے کے بعد وہ دوبارہ اللہ کی طرف رجوع لے آئے۔
حضرت عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك القشيری (المتوفى: 465 ہجری ) اپنی ایک مایہ ناز تصنیف رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں:
وحقه أن يكون مستحقاً لمحبة الحق وإلى أن يبلغ العاصي محلاً يجد في أوصافه أمارة محبة االله إيه مسافة بعيدة، فالواجب إذن على العبد إذا علم أنه أرتكب ما تجب منه التوبة دوام الإنكسار، وملازمة التنصل والاستغفار. كما قالوا: "استشعار الوجل إلى الأجل"۔ (بحوالہ رسالہ قشیری۔ مصنفہ عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك القشيري (المتوفى: 465هـ۔ صفحہ 100)
حق یہ ہے کہ وہ (توبہ کرنے والا) اللہ کی محبت کا مستحق ہے، اور یہ بات بعید تر ہے کہ بندہ عاصی کو وہ مقام حاصل ہو جائے کہ وہ اپنے اوصافِ ظاہری میں کوئی ایسی علامت دیکھے جس سے یہ معلوم ہو کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔ لہٰذا جب بندے کو یہ معلوم ہو کہ اس نے کسی ایسے عمل کا ارتکاب کیا ہے جس سے اس پر توبہ واجب ہو چکی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ تواضع اور انکساری کا دامن تھامے رہے ، اور معصیت سے بیزاری اور استغفار کو لازم پکڑے۔ جیساکہ صوفیاء فرماتے ہیں:
‘‘استشعار الوجل إلى الأجل ترجمہ: (عتاب الٰہی کے) خوف کا احساس موت تک باقی رہنا چاہئے’’۔
حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
‘‘اما قول مشائخ رضوان اللہ علیھم اجمعین در توبہ آنست کہ خواجہ ذوالنون مصرے رحمۃ اللہ علیہ گوید توبۃ العوام من الذنوب و توبۃ الخواص من الغفلۃ و توبۃ الانبیاء من رؤیۃ عجزھم عن بلوغ ما نالہ غیرھم ، توبہ عوام از گناہ باز گشتن و توبہ خواص از غفلت باز گشتن ست و توبہ انبیا ازانست کہ عجز خویش بیند از رسیدن بجائ کہ غیر ایشان رسیدہ باشد۔’’
ترجمہ: توبہ کے بارے میں مشائخ طریقت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا قول یہ ہے کہ حضرت خواجہ ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں‘‘توبۃُ العوامِ مِنَ الذُنوبِ وَ تَوبۃُ الخواصِ مِن الغَفلۃِ و توبۃ الانبیا من رؤیۃ عجزھم عن بلوغ ما نالہ غیرھم’’، ترجمہ: عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے ، خواص کی توبہ (توجہ الی اللہ) میں غفلت سے ہوتی ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی توبہ اس مقام کے حصول میں ان کے عجز و تنگ دامنی سے ہے جو ان کے علاوہ (کسی دوسرے نبی) کو حاصل ہے۔
‘‘خواجہ سہیل تستری با جماعتی بر آنند کہ التوبۃ ان لا تنسیٰ ذنبک، توبہ آن بود کہ ہرگز گناہ کردہ فراموش نہ کنی و پیوستہ در ندامت باشے تا اگرچہ بسیار عمل داری معجب نگردی۔ و باز خواجہ جنید باجماعتے برانند کہ الوبۃ ان تنسیٰ ذنبک توبہ آن بود کہ گناہ کردہ فراموش کنی ، ازانچہ تائب محب باشد و محب را ذکر جفا جفا باشد۔ و این ضدِ قولِ اول ست در ظاہر ، و اما در معنیٰ ضد نیست کہ معنیٰ فراموش کردن آنست کہ حلاوتِ آن گناہ از دلِ تو بیرون رود تا چنان گردی کہ گوئی ہرگز آن گناہ نکردۂ۔ و خواجہ جنید گفت رحمۃ اللہ علیہ بسیار خواندم و در ہیچ چیز مرا چندین فائدہ نبود کہ اندریں یک بیعت شعر اِذَا قلتُ ما اذنبت ُقالَت محبتہُ –وجودک ذنب لا یقاس بھا ذنب* چون وجود دوست در حضرت دوستے جنایت بود وصفش را چہ قیمت ماندای’’۔
ترجمہ: (توبہ کے حوالے سے) خواجہ سہیل تستری کا مسلک یہ ہے کہ (التوبۃ ان لا تنسیٰ ذنبک) یعنی توبہ یہ ہے کہ تو اپنے گناہ کبھی فراموش نہ کرے اور ہمیشہ اس کی ندامت میں غرق رہے تاکہ تیرے اعمال (صالحہ) کی کثرت پر تیرے دل میں کبھی عجب اور تکبر پیدا نہ ہو۔ اور حضرت جنید بغدادی کا مسلک یہ ہے کہ (ان تنسیٰ ذنبک) یعنی توبہ یہ ہے کہ تو اپنے گناہ بھول جائے اس لئے کہ (گناہوں سے) توبہ کرنے والا (اللہ) کا محب ہوتا ہے ، اور محب کا بدعنوانیوں اور نافرمانیوں کو یاد رکھنا (محبت) میں جفا کی مانند ہے۔ اور مذکورہ بالا دونوں اقوال کے درمیان تضاد صرف ظاہری ہے اور معنیٰ کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی تضاد یا تناقص نہیں ہے۔ اس لئے کہ گناہ فراموش کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس گناہ کی حلاوت تیرے دل سے ایسی نکلے کہ تیری کیفیت یہ ہو جائے گو کہ تو نے کبھی اس گناہ کا ارتکاب ہی نہیں کیا۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت کچھ پڑھا لیکن جتنا فائدہ مجھے اس شعر سے حاصل ہوا اتنا کسی دوسری شئی سے حاصل نہیں ہوا:
اِذاَ قُلتُ ما اَذنَبتُ قالتْ محبتہ وُجودُکَ ذَنب لَا یُقاسُ بِھا ذَنب
ترجمہ: جب (محبت کی وارفتگی میں بے خود ہو کر) میں نے پوچھا کہ میرا گناہ کیا ہے، تو اس کی محبت کی (شوخی) نے جواب دیا کہ تیرا وجود ہی خود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے مقابلے میں تمام گناہ کمتر ہیں)۔ جب معشوق کی بارگاہ میں عاشق کا وجود ہی اتنا بڑا گناہ ٹھہرا تو اس کے اوصاف کی بات ہی کیا کی جائے!
جاری..................
URL for Part-1:
URL for Part- 2:
URL for Part-3:
URL for Part-4:
URL for part-5:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism