New Age Islam
Mon Mar 20 2023, 04:40 PM

Urdu Section ( 21 Nov 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Social and contemporary significance of good conduct حسن سلوک اور حسن معاملہ کی عصری اور سماجی ضرورت

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

(قسط :8)

والدین کے ساتھ حسن سلوک قرآن کی روشنی میں

یوں تو اللہ رب العزت نے قرآن مقدس اور پیغمبر اسلام ﷺ نے احادیث کے ذریعہ ایک مکمل اور واضح نظام حیات کائنات انسانیت کے لیے پیش کیا ہے جس میں ایک دوسرے کے متعلق ہر فرد بشر کے حقوق کو انتہائی واضح اور مبین انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ لیکن قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس پوری کائنات میں ہر فرد بشر سے بڑھ کر ہمارے حسن سلوک، ہماری محبتوں ہماری ہمدردی اور ہماری توجہ کا مستحق کون ہے؟  جب ہم اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ قرآن و سنت کا موقف بھی اس معاملے میں بڑا واضح ہے۔ اس لیے کہ قرآن و سنت میں جا بجا اس بات کی تاکید اور تلقین کی گئی ہے کہ  ایک نیک, صالح اور ذمہ دار انسان وہی ہے جو اپنی محبتوں، اپنی عقیدتوں اوراپنی توجہات کا مرکز اپنے والدین کو بنائے۔ اپنی ساری عقیدتیں اور اپنی ساری محبتیں سب سے پہلے اپنے والدین پر قربان کرے، ہر رشتہ دار کی محبت پر والدین کی محبت کو ترجیح دے،والدین کی ضرورتوں کو تمام ضروریات پر فوقیت دے، زندگی کی تمام سہولیات پر والدین کی سہولیات کو مقدم جانے اور ان کے ساتھ حسن سلوک، بھلائی اور نیکی کا معاملہ ان کا حق سمجھ کر نہیں بلکہ اللہ کی عبادت سمجھ کر کرے۔

  اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں سماجی اور معاشرتی سطح پر جہاں اس کے بے شمار فوائد مضمر ہیں وہیں یہ خاندانی اور عائلی سطح پر حیرت انگیز مثبت نتائج کا حامل ہے، کیوں کہ والدین کے ساتھ جب ایسا رویہ اپنایا جائے گا تو اس سے نہ صرف ایک گھر اور ایک خاندان امن و سکون اور محبت و ہمدردی کا گہوارا بنے گا بلکہ اس کے نتیجے میں  پورا ایک معاشرہ، اس کے بعد پوری ایک قوم اور اس کے بعد پورا ایک ملک امن و یکجہتی، آپسی بھائی چارگی اور اخوت و محبت کا  مصدر و سرچشمہ بن جائے گا اور پوری کائنات انسانیت کو دعوت و فکرو عمل دے گا۔

اگر چہ انسان کی مال و دولت کے بے شمار مصارف ہیں اور اسکے مستحقین بھی مختلف لوگ ہیں لیکن اس پر سب سے پہلا حق والدین کا ہے اور والدین پر خرچ کیا گیا مال اللہ کی نظر میں اجر عظیم کا حامل ہے۔

قرآن میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

يَسْـَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَآ أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ‌ۢ فَلِلْوَ‌ٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَ‌بِينَ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا۟ مِنْ خَيْر فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ۔

ترجمہ:

''آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے۔''  (البقرہ: آیت 215)

والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اللہ کی اطاعت اور ایک مستقل عبادت ہے۔

اللہ کا فرمان ہے:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَ‌ٰٓ‌ئيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَيْنِ إِحْسَانًا...

ترجمہ:

"اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔'' (البقرہ: آیت 83)

قرآن مقدس میں جہاں کہیں بھی اللہ نے رشتہ داروں، قرابت داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ نیکی ، بھلائی اور حسن سلوک کرنے کا حکم نازل فرمایا ہے وہاں والدین کے ساتھ نیکی، بھلائی اور حسن سلوک کو تمام رشتہ داروں اور قرابت داروں پر مقدم رکھا ہے اور سب سے پہلے والدین کا ذکر  کیا ہے۔

مثال کے طور پر اس آیت کو دیکھیں:

وَٱعْبُدُوا ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِ‌كُوابِهِۦ شَيْـًٔا ۖ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا وَبِذِى ٱلْقُرْ‌بَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ‌ ذِى ٱلْقُرْ‌بَىٰ وَٱلْجَارِ‌ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورً‌ا۔

''اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔'' (النساء: آیت 36)

والدین کی نافرمانی، ان کے حکم کی خلاف ورزی، ان کے ساتھ بد سلوکی، بدتمیزی اور بد اخلاقی کتنا عظیم گناہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے قرآن مقدس میں والدین کو جھڑکنے یا ان کی کسی بات پر اُف تک کہنے سے منع کیا ہے۔ اور ان سے  نرمی کے ساتھ گفتگو کرنے، جب وہ ضعیف ہو جائیں تو ان کا سہارا بننے اور ان کے لیے دعائے خیر کرنے کا حکم دیا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَ‌ٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ‌ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْ‌هُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِ‌يمًا۔ وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّ‌حْمَةِ وَقُل رَّ‌بِّ ٱرْ‌حَمْهُمَا كَمَا رَ‌بَّيَانِى صَغِيرً‌ا۔

"اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایکیا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو، اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا"۔  (الاسراء: آیت 24۔23)

اللہ رب العزت نے قرآن مجیدکی مندرجہ ذیل آیت میں جہاں والدین کی خدمت کرنے کا حکم دیا ہے وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے لیے عقلی دلیل بھی فراہم کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے  کہ والدین کو اور خاص طور پر ماں کو ایک بچے کی پیدائش اور اس کی پرورش میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور انہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کس قدر دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے:

ارشاد ربانی ہے:

وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَ‌ٰلِدَيْهِ إِحْسَـٰنًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ كُرْ‌هًا وَوَضَعَتْهُ كُرْ‌هًا ۖ وَحَمْلُهُۥ وَفِصَـٰلُهُۥ ثَلَـٰثُونَ شَهْرً‌ا ۚ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُۥ وَبَلَغَ أَرْ‌بَعِينَ سَنَةً قَالَ رَ‌بِّ أَوْزِعْنِىٓ أَنْ أَشْكُرَ‌ نِعْمَتَكَ ٱلَّتِىٓ أَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلَىٰ وَ‌ٰلِدَىَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَـٰلِحًا تَرْ‌ضَىٰهُ وَأَصْلِحْ لِى فِى ذُرِّ‌يَّتِىٓ ۖ إِنِّى تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ۔

"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں"۔ (الاحقاف: آیت 15)

اللہ کی بارگاہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کس قدر پسندیدہ اور محبوب عمل ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن نے حضرت یحیٰ  علیہ السلام کی نیک صفتوں کا ذکر کرتے ہوئے والدین کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا ذکر خصوصی انداز میں کیا ہے:

وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا

''اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بڑی نیکی (اور خدمت) سے پیش آنے والے (تھے) اور (عام لڑکوں کی طرح) ہرگز سرکش و نافرمان نہ تھے ۔'' (المریم: آیت 14)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی والدہ کی گود میں اللہ کے حکم سے اپنی قوم کے لوگوں کے  ساتھ جو گفتگو کی تھی اور جب آپ نے ماں کی گود میں ہی اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ حسنِ سلوک کا خاص تذکرہ کیا تھا۔

ارشاد ربانی ہے:

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا

''اور اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور اس نے مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا۔'' (المریم آیت:32)

والدین کے ساتھ حسن سلوک حدیث کی روشنی میں

        والدین کی اجازت کے بغیر اللہ کی راہ میں جہاد بھی قابل قبول نہیں۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَجُلًا هَاجَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْیَمَنِ فَقَالَ: هَلْ لَکَ أَحَدٌ بِالْیَمَنِ قَالَ أَبَوَایَ قَالَ: أَذِنَا لَک قَالَ لَا قَالَ: ارْجِعْ إِلَیْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا فَإِنْ أَذِنَا لَکَ فَجَاهِدْ وَإِلَّا فَبِرَّهُمَا۔

ترجمہ:

"ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ یمن کے لوگوں میں سے ایک شخص (جہاد کی غرض سے) ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا : یمن میں کوئی عزیز ہے؟ عرض کیا: میرے ماں باپ ہیں۔ فرمایا: اُنھوں نے اجازت دی ہے؟ عرض کیا:نہیں ۔ فرمایا: جاؤ اور اُن سے اجازت لو، اگر دیں تو جہاد کرو، ورنہ اُن کی خدمت کرتے رہو۔"(ابو داود)

        والدین کی خدمت میں رہنا ہی سب سے بڑا جہاد ہے۔

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا یَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَهُ فِی الْجِهَادِ فَقَالَ: أَحَیٌّ وَالِدَاک قَالَ نَعَمْ قَالَ: فَفِیهِمَا فَجَاهِدْ۔

ترجمہ:

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے جہاد کی اجازت چاہی۔ آپ نے پوچھا: تمہارے والدین زندہ ہیں؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: پھر اُن کی خدمت میں رہو ، یہی جہاد ہے۔(بخاری)

        پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد کے بجائے ماں کے قدموں کے نیچے جنت تلاش کرو۔

عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِیِّ أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِیرُکَ فَقَالَ: هَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ: فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَیْهَا۔

ترجمہ:

"معاویہ اپنے باپ جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ، جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے پوچھا: تمہاری ماں زندہ ہے؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: تو اُس کی خدمت میں رہو، اِس لیے کہ جنت اُس کے پاؤں کے نیچے ہے۔"(نسائی)

        تمہارے حسن سلوک کی سب سے بڑی حقدار تمہاری ماں ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی قَالَ: أُمُّک، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أَبُوکَ

ترجمہ:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمہاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ۔(بخاری،مسلم)

        والدین کے ساتھ حسن سلوک اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ہے۔

          قَالَ (عبدُاللهِ) سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ قَالَ: الصَّلَاةُ عَلَی وَقْتِهَا قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ: الْجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ۔

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ  اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا ، پوچھا اس کے بعد ، آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، پھر پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔(بخاری،مسلم)

        والدین کی خدمت نہ کر کے جنت سے محروم رہنے والا انسان ذلیل و خوار ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ قِیلَ مَنْ یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: مَنْ أَدْرَکَ أَبَوَیْهِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ کِلَیْهِمَا فَلَمْ یَدْخُلْ الْجَنَّة۔(مسلم)

ترجمہ:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے۔لوگوں نے پوچھا: کس کے لیے،یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ یا اُن میں سے کوئی ایک اُس کے پاس بڑھاپے کو پہنچا اور وہ اِس کے باوجود (اُن کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہو سکا۔

        جس سے اس کے والدین خوش ہیں اس سے اس کا رب بھی خوش ہے اور جس سے والدین ناراض ہیں اس سے رب بھی ناراض ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رِضَی الرَّبِّ فِی رِضَی الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِی سَخَطِ الْوَالِدِ۔

ترجمہ:

"عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں اور اُس کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔ (ترمذی)"

والدین کے ساتھ  حسن سلوک سے متعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر  احادیث مبارکہ:

''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو۔ اس کی ناک خاک آلودہ ہو۔ اس کی ناک خاک آلودہ ہو۔ عرض کیاگیا:یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی ناک خاک آلود ہو؟ فرمایا جس نے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کا بڑھاپا پایااور پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔''

''حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے۔''

''حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے والدین پر لعنت بھیجے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کوئی کیوں کر اپنے والدین کو لعنت و ملامت کر سکتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے والد کو لعنت و ملامت کرتا ہے ، جواباً وہ اس کے ماں باپ کو لعنت و ملامت کرتا ہے۔''

ان تمام آیات قرآنیہ اور  سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے والدین کی عظمت و حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کی بھی تصریح ہوتی ہے کہ قرآن نے توحید یعنی اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے اور اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد والدین کو سب سے اعلیٰ مقام عطا کیا ہے اور ان کی خدمت پر اجر عظیم کا وعدہ بھی کیا ہے۔ جس کی عملی تشریح احادیث مبارکہ میں بھی موجود ہے۔ نیز اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ آج جنت کی تلاش اور حور و قصور کی لالچ میں سرزمین عرب پر اور دنیا کے دیگر خطوں میں قتل و خون کا بازار گرم کرنے والے داعش کے ان گم گشتہ راہ غنڈوں کواللہ کی بارگاہ میں تائب ہو کر اپنی زندگیوں کے رخ بدل دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر واقعی انہیں جنت کی تلاش ہے تو آج انہیں میدان جنگ کا رخ کرنے کی نہیں بلکہ اپنے والدین کے قدموں سے وابستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ نیز عصر حاضر میں اس کی ضرورت اور اہمیت و افادیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ نہ جانے کتنے ایسے والدین ہیں اور نہ جانے کتنی ایسی مائیں ہیں جو اپنے ان نوجوان بچوں کا ماتم منا رہی ہیں جو دنیا کے مختلف گوشوں میں نام نہاد جہاد کے نام پر اب تک نہ جانے کتنے گھروں کو ماتم کدہ بنا چکے ہیں۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/social-contemporary-significance-good-conduct/d/109160

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..