مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
(بہار ادب: قسط 13)
قطع تعلقی، دشمنی اور بغض رکھنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں۔ اپنے بھائی سے تین دنوں سے زیادہ قطع تعلق رکھنے والے کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ باہمی نزاع اور اختلاف رکھنے والے بھائیوں کے گناہ اللہ کی بارگاہ میں معاف نہیں کیے جاتے بلکہ وہ آپسی صلح تک ملتوی کر دیے جاتے ہیں۔ قطع رحمی سے خود رحم بھی پناہ مانگتا ہے۔ قطع رحم کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ دو لوگوں کے درمیان صلح کروانے کا اجر اللہ کی بارگاہ میں روزہ، نماز اور صدقہ سے بھی افضل ہے۔ ایک سال تک اپنے بھائی سے تعلقات منقطع رکھنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ آپسی بدگمانی اور نزاع کی صورت میں اپنے بھائی کو پہلے سلام کرنے والا افضل ہے۔ کسی بندہ مومن کے لئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہنا جائز نہیں۔ صلہ رحمی احسان کے بدلے میں احسان کرنا نہیں بلکہ بد سلوکی اور قطع رحمی کے بدلے میں احسان کرنا صلہ رحمی ہے۔ صلہ رحمی سے رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
"بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔" ( النحل:90)
(الحجرات :10)
"بات یہی ہے کہ (سب) اہل ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو"۔
پیغمبر امن و انسانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
قطع تعلقی، دشمنی اور بغض رکھنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"نہ قطع تعلقی کرو، نہ دشمنی کرو اور نہ بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ"۔(بخاری و مسلم)
اپنے بھائی سے تین دنوں سے زیادہ قطع تعلق رکھنے والے کے لیے جہنم کی وعید ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے۔ اور جس نے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کی اور اسی حال میں مرگیا تو وہ دوزخ میں داخل ہوگیا"۔ (سنن ابوداؤد)
باہمی نزاع اور اختلاف رکھنے والے بھائیوں کے گناہ اللہ کی بارگاہ میں معاف نہیں کیے جاتے بلکہ وہ آپسی صلح تک ملتوی کر دیے جاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"ہر جمعرات اور پیر کے دن انسانوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو معاف فرمادیتا ہے جو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، سوائے اس شخص کے جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان ناراضگی ہو۔ پھر اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: ان دونوں کو چھوڑ دو حتی کہ یہ آپس میں صلح کرلیں"۔ (صحيح مسلم)
قطع رحمی سے خود رحم بھی پناہ مانگتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"جب اللہ رب العزت مخلوق کو پیدا کر کے فارغ ہوا تو "رحم"نے کھڑے ہوکر رحمن (رحم کرنے والے) کے دامن میں پناہ لی۔ اللہ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ رحم نے عرض کیا: میں قطع رحمی (رشتہ داری ختم کرنے) سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔ رحم نے عرض کیا: ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر ایسا ہی ہوگا"۔(بخاری و مسلم)
قطع رحم کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔(بخاری و مسلم )
دو لوگوں کے درمیان صلح کروانے کا اجر اللہ کی بارگاہ میں روزہ، نماز اور صدقہ سے بھی افضل ہے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"کیا میں تمہیں ایسے عمل سے با خبر نہ کروں جس کا درجہ روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں، یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ نے فرمایا: "دو آدمیوں کے درمیان صلح کروانا۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ "دو آدمیوں کے درمیان فساد کرانا ایمان کو مونڈ کر رکھ دیتا ہے"۔ (سنن ابوداؤد)
ایک سال تک اپنے بھائی سے تعلقات منقطع رکھنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔
"جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے تعلقات منقطع رکھا تو یہ اسی طرح ہے جیسے اس نے اسے قتل کردیا"۔ (سنن ابوداؤد)
آپسی بدگمانی اور نزاع کی صورت میں اپنے بھائی کو پہلے سلام کرنے والا افضل ہے۔
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے بول چال منقطع رکھے کہ وہ ایک دوسرے سے ملیں تو ایک بھی منہ پھیر لے اور دوسرا بھی رو گردانی کرے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے۔ (بخاری و مسلم)
کسی بندہ مومن کے لئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہنا جائز نہیں۔
جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مومن سے رہے اور اگر اس طرح تین دن گزر جائیں تو اسے چاہئے کہ اپنے بھائی سے ملاقات کرے اور اسے سلام کہے۔ اگر وہ سلام کا جواب دے دے تو دونوں اجر میں شریک ہوجائیں گے اور اگر اس نے سلام کا جواب نہ دیا تو وہ گنہگار ہوا اور سلام کرنے والا قطع تعلقی کے جرم سے بری الذمہ ہوگیا۔ (سنن ابوداؤد)
صلہ رحمی احسان کے بدلے میں احسان کرنا نہیں بلکہ بد سلوکی اور قطع رحمی کے بدلے میں احسان کرنا صلہ رحمی ہے۔
"نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص صلہ رحم کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) ہے، بلکہ اصل صلہ رحم کرنے والا وہ شخص ہے کہ جب اس سے قطع رحمی (بد سلوکی) وغیرہ کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ " (بخاری)
صلہ رحمی سے رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔
"جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور اس کی عمر میں اضافہ کیا جائے تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے"۔ (صحیح بخاری)
URL: