مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
6 فروری2019
خلوص اور للہیت ایک ایسی شئی ہے جس پر ہمارے تمام اعمال صالحہ کی قبولیت کی بنیاد ہے ۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو زندگی بھر نیکیاں کرتے ہیں اور عبابداتِ بدنیہ و مالیہ کے ذریعہ اپنے پروردگار کی رضاجوئی کا انتظام کرتے ہیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ دین کی ایک انتہائی اہم اور بنیادی قدر کے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ہمارے تمام اعمال صالحہ ضائع کر دئے جاتے ہیں ، بلکہ اس عمل صالحہ پر ہمیں جتنی نیکیاں ملنی تھیں اس کے کہیں زیادہ گناہ ہمارے نامہ اعمال میں لکھ دیئےجاتے ہیں ۔ اور وہ انتہائی ضروری اور اہم دینی قدر عمل صالح میں خلوص و للہیت کا ہونا ہے ۔
قرآن میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا - وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا - كُلًّا نُّمِدُّ هَٰؤُلَاءِ وَهَٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت ۱۸ تا ۲۰)
ترجمہ : جو یہ جلدی والی چاہے ہم اسے اس میں جلد دے دیں جو چاہیں جسے چاہیں پھر اس کے لیے جہنم کردیں کہ اس میں جائے مذمت کیا ہوا دھکے کھاتا - اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے اور ہو ایمان والا تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی - ہم سب کو مدد دیتے ہیں اُن کو بھی اور اُن کو بھی، تمہارے رب کی عطا سے اور تمہارے رب کی عطا پر روک نہیں۔ (کنزالایمان)
مذکورہ بالاآیات مقدسہ میں لفظ ‘عاجلہ’ سے مراد دنیا اور اس کی نعمتیں ہیں اس لئے کہ دنیا کی نعمتیں نگاہوں کو دکھائی دیتی ہیں اور فوراً حاصل ہو جاتی ہیں ۔ مذکورہ آیۃ کریمہ میں اللہ رب العزت نے چند اہم باتوں کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے جنکو ہمیں سمجھنا انتہائی ضروری ہے ۔ اس آیۃ مبارکہ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جو اپنے اعمال صالحہ پر اخروی نجات و فلاح کی نیت نہ رکھے بلکہ اس سے اس کا مقصد نام و نمود اور دنیاوی جاہ و حشمت کا حصول ہو تو اللہ اس کے ساتھ ایسا ہی فرمائے گا اور آخرت میں اس کے حصے کچھ بھی نہیں بچے گا ، البتہ! اس کے نامہ اعمال میں ریاکاری کے گناہ ضرور درج کر دئے جائیں گے ۔جس نے حصول دنیا کا ارادہ کیا اسے دنیا کی نعمتیں اور لذتیں تو مل جائیں گی لیکن آخرت میں اس کا مقدر دخول نار ہو گا ۔ نیکیوں کے بدلے حصول دنیا کی لالچ رکھنے والا جب جہنم میں داخل ہو گا تو لوگ اس کی مذمت کر رہے ہوں گے اور وہ اپنی مذمت خود بھی کر رہا ہوگا ، ‘‘کہ میں ریاکاری کی وجہ سے اپنے اتنے نیک اعمال کے باوجود آج جہنم کی طرف گھسیٹ کر لے جایا جا رہا ہوں’’۔ ایسے شخص کو اللہ کے فرشتے دھتکارتے ہوئے جہنم میں داخل کریں گے۔ لیکن جو مؤمن صالح نیکی کرے اور اس پر آخرت میں اللہ کی رضا و خوشنودی اور اخروی نعمتوں کا ارادہ رکھے تو دنیا کے اندر اس کی کوششوں اور اس کے اعمال کی قدر آخرت میں کی جائے گی۔ اور اس کے اعمال سے کہیں بڑھ کر قیامت میں اسے جزا دی جائے گی۔
لہٰذا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ انسانی فطرت میں ریاء اور نام و نمود کی اس بیماری کے سدِباب کا طریقہ کیا ہے ؟ تو صوفیاء کرام نے اس کی کئی تدبیریں پیش کی ہیں لیکن ان میں سب سے بہترین تدبیر تقویٰ ہے ۔ کیوں کہ تقویٰ ایک ایسی چنگاری ہے جو دل کی تمام بیماریوں کو یکسر جلا کر خاکستر کر سکتی ہے ۔ لیکن تقویٰ کے کچھ تقاضے بھی ہیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے۔ لہٰذا، سب سے پہلے ہم یہ جانتے ہیں کہ تقویٰ کے تقاضے کیا کیا ہیں ۔
تقویٰ کے سات تقاضے:
فقیہ ابو اللیث نصر بن محمد سمرقندی حنفی (متوفی ۳۷۳) اپنی کتاب ‘‘ذکر للذاکرین’’ میں لکھتے ہیں:
علامۃ خوف اللہ تتبین فی سبعۃ اشیاء:
اولھا: تتبین فی لسانہ، فیمتنع لسانہ من الکذب و الغیبۃ و کلام الفضول و یجعل لسانہ مشغولاً بذکر اللہ و تلاوۃ القرآن و مذاکرۃ العلم۔
و الثانی: ان یخاف فی امر بطنہ، فلا یدخل فی بطنہ الا طیباً حلالاً، و یاکل من الحلال مقدار حاجتہ۔
و الثالث: ان یخاف فی امر بصرہ، فلا ینظر الی الحرام۔ و لا الی الدنیا بعین الرغبۃ، و انما یکون نظرہ علی وجہ العبرۃ۔
والرابع: ان یخاف فی امر یدہ، فلا یمدن یدہ الی الحرام، انما یمد یدہ الی مافیہ طاعۃ اللہ عز و جل۔
و الخامس: ان یخاف فی امر قدمیہ فلا یمشی فی معصیۃ اللہ۔
و السادس: ان یخاف فی امر قلبہ، فیخرج منہ العداوۃ والبغضاء و حسد الاخوان، و یدخل فیہ النصیحۃ و الشفقۃ للمسلمین۔
والسابع: ان یکونَ خائفاً فی امر طاعتہ فیجعل طاعتہ خالصا لوجہ اللہ، و یخاف الریاء و النفاق۔ (ذکر للذاکرین ، ص ۳۰۵)
اللہ کا خوف (تقویٰ) ان سات چیزوں سے عیاں ہوتا ہے:
پہلی؛ زبان، کہ انسان اپنی زبان کو جھوٹ، غیبت اور فضول گوئی سے پاک رکھے، اور ہمیشہ اپنی زبان کو اللہ کے ذکر ، قرآن کی تلاوت اور علم دین سیکھنے اور سکھانے میں مشغول رکھے۔
دوسری؛ انسان اپنے پیٹ (یعنی اپنے رزق) کے معاملے میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہے، اور اس کے شکم میں صرف حلال اور پاک غذائیں ہی داخل ہوں۔ اور وہ بھی صرف بقدر حاجت۔
تیسری؛ انسان اپنی نگاہوں کے بارے میں ہمیشہ اللہ کا خوف کرے اور کبھی کسی حرام شئی کی طرف اپنی نظر نہ اٹھائے، اور نہ ہی دنیا کی طرف محبت اور رغبت کی نظر سے دیکھے، اور ہمیشہ اس کی نظر انجامِ کار پر ٹکی رہے۔
چوتھی؛ اپنے ہاتھوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرے، لہٰذا، کبھی اپنے ہاتھ کارِ حرام کی طرف نہ اٹھائے بلکہ ہمیشہ انسان کے ہاتھ اسی کام کے لئے اٹھیں جن میں اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری ہو۔
پانچویں: انسان اپنے قدموں کے بارے میں اللہ سے ڈرے، لہٰذا کبھی اس کے قدم اللہ کی معصیت و نافرمانی کی طرف نہ بڑھیں۔
چٹھی؛ انسان اپنے دل کے معاملات میں اللہ کا خوف کرے، لہٰذا چاہیئے کہ انسان اپنے دل سے اپنے مسلمان بھائیوں کی عداوت ، بغض اور حقد و حسد نکال دے، اور اس میں مسلمانوں کے لئے شفقت و خیر خواہی کا جذبہ بیدار کرے۔
اور ساتویں شئی یہ ہے کہ انسان اپنی طاعت و فرمانبرداری (یعنی نیکی کے کاموں میں) بھی ہمیشہ اللہ کا خوف کرے، لہٰذا اپنے تمام نیک اعمال خالصۃً لوجہ اللہ (اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے) انجام دے ، اور ان میں ریا اور نفاق پیدا ہونے سے ڈرے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/selfless-service-humanity-allah-almighty/d/117740
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism