مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
30 جولائی 2019
حالات ، واقعات اور شخصیات کی تنقید اور ان کا تجزیہ ایک اچھی بات ہے اگر اس کے پیچھے نیک نیتی اور اصلاحِ امت کا جذبہ کار فرما ہو۔ لیکن جو تنقید اور طعن و تشنیع محض بغض و عداوت یا جہالت کے سبب ہو اس سے سوائے شر و فساد کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ آج کل سب سے آسان کام اپنے اکابر امت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا ہو چکا ہے۔ اس کا ارتکاب متعدد طبقے کے لوگ کرتے ہیں ۔ سب سے پہلا طبقہ وہ ہے جسے اپنے علم اور روشن خیالی کا بڑا زعم ہے ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دین کی بہتر سمجھ ہمیں میسر ہے اس لئے کہ ہم سے قبل کے اکابر دین کے دقیانوسی تصورات کے حامل تھے۔ ایسا کرنے والوں کی خطا یہ ہے کہ وہ صرف ان کے اقوال اور افعال کو دیکھتے ہیں اور ان کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کر دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ کن حالات میں انہوں نے اس راستے کو اختیار کیا جو ان سے منسوب ہے یا کن اسباب و محرکات کے تحت دین کے حوالے سے وہ تعلیم فرمائی جو آج ہمارے سامنے موجود ہیں ، قطع نظر اس سے کہ آج ان تعلیمات کا انطباق اور اطلاق ہمارے معاشرے پر درست ہے یا نہیں‘ کیوں کہ اس پہلو پر رائے زنی کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو معلومات کے فقدان کے باعث عظیم اسلامی شخصیات کو اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا ہے ۔ ایسے افراد میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے کہ اگر ان کے سامنے درست حقائق اور صحیح معلومات پیش کی جائیں تو اس بات کا امکان قوی ہے کہ وہ اپنے نفس کی شر انگیزیوں سے باز آ جائیں اور امت کے اندر ایک غیر ضروری نزاع کا سد باب ہو جائے۔ اور تیسرا طبقہ وہ ہے جس کے پاس اکابرین امت کی تنقید کرنے اور ان شخصیات کو اپنی دشنام طرازیوں کا نشانہ بنانے کی نہ تو کوئی علمی بنیاد ہے اور نہ ہی کوئی فکری محرک، اور نہ ہی ان کی اس فتنہ پروری میں ان کی جہالت کا کوئی دخل ہے، بلکہ وہ ان شخصیات سے محض بغض عناد کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔
اس طبقے کی اصلاح اللہ کی مرضی ہو تبھی ہو سکتی ہے ورنہ تو عادتاً ایسے لوگوں کی اصلاح ناممکن ہی ثابت ہوئی ہے، اس لئے کہ جب انسان محض بغض و عناد کی بنیاد پر کوئی قدم اٹھاتا ہے تو وہ معاشرے کے مسلمہ و مروجہ تہذیبی و اخلاقی قدروں کو تو پامال کرتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی قائم کردہ حدود کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہیں کرتا۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ایسا انسان اپنے اس فعل میں اتنا جری ہو جاتا ہے کہ وہ جہاں (زمانے کے اعتبار سے) دوسرے یا تیسرے طبقے کے مسلمان اور علمائے اسلام کو برا بھلا کہتا ہے وہیں ان ذوات عالیہ مقدسہ کو بھی اپنی طعن و تشنیع کرتا ہے اور ان کی تکفیر و تکذیب کرنے سے گریز نہیں کرتا جن کا ایمان، جن کا زہد و تقویٰ اور جن کا جنتی ہونا منصوص ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ روافض کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو یہ پائیں گے کہ محض بغض و عناد کی وجہ سے وہ ان اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی شان میں ایسی ایسی اہانت آمیز باتیں لکھتے ہیں جو بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ حالآنکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسا کسی کی محبت میں کرتے ہیں اس لئے کہ جب تک وہ ان کی محبت کے ان (باطل و خود ساختہ) تقاضوں کو پورا نہ کریں ان کی محبت مکمل نہیں ہوتی۔ خدا ہی جانے کہ یہ کون سی محبت ہے جو نفرت پھیلائے بنا مکمل ہی نہیں ہوتی۔
میری اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ گزارش ہے کہ نہ ایسی تحریروں کو پڑھیں اور نہ ہی ایسی باتوں کو اپنے دل میں کوئی جگہ دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان نفوس قدسیہ کے حوالے سے آپ بھی اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے قائم کردہ حدود سے تجاوز کر جائیں اور غفلت میں اپنا توشہ آخرت یعنی ایمان گنواں بیٹھیں۔
اللہ نے جنہیں جنتی کہا ہے انہیں کبھی جہنمی تصور بھی نہ کریں
ارشاد ربانی ہے؛
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9:100)
ترجمہ: اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔ عرفان القرآن
جن کے ایمان کی گواہی اللہ نے قرآن میں دی انہیں کبھی بے ایمان نہ کہیں ، کہ خود بے ایمان ہو جائیں گے
ارشاد ربانی ہے؛
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (74) وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (8:75)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے - اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور انہوں نے راہِ حق میں (قربانی دیتے ہوئے) گھر بار چھوڑ دیئے اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ لوگ (بھی) تم ہی میں سے ہیں، اور رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (صلہ رحمی اور وراثت کے لحاظ سے) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ عرفان القرآن
جن کے ساتھ اللہ نے خیر کا ارادہ فرمایا اور جن کی کامیابی کی بشارت دی انہیں اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائیں
ارشاد ربانی ہے؛
ترجمہ: لَٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (88) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9:89)
ترجمہ: لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں - اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ عرفان القرآن
جنہیں اللہ نے صادق کہاں انہیں کبھی جھوٹا نہ کہیں ، اللہ کی نظر میں خود جھوٹے بنیں گے
ارشاد ربانی ہے؛
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (8) وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (59:9)
ترجمہ: مذکورہ بالا مالِ فَے) نادار مہاجرین کے لئے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال (اور جائیدادوں) سے باہر نکال دیئے گئے ہیں، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضاء و خوشنودی چاہتے ہیں اور (اپنے مال و وطن کی قربانی سے) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہی سچے مؤمن ہیں - (یہ مال اُن انصار کے لئے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنا لیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں۔ عرفان القرآن
جنہیں اللہ نے اہل نور بنایا انہیں اہل ظلمت کبھی نہ سمجھیں ، خود ظلم کی تاریکی میں گم ہو جائیں گے
ارشاد ربانی ہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (66:8)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کر لو، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا اور تمہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں جس دن اللہ (اپنے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور اُن اہلِ ایمان کو جو اُن کی (ظاہری یا باطنی) معیّت میں ہیں رسوا نہیں کرے گا، اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں طرف (روشنی دیتا ہوا) تیزی سے چل رہا ہوگا، وہ عرض کرتے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لئے مکمل فرما دے اور ہماری مغفرت فرما دے، بیشک تو ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔ عرفان القرآن
اللہ نے جن کی اداؤں کو تعریف کے ساتھ بیان کیا ہے یقیناً وہ مثالی شخصیات ہیں اور ان کا نقش قدم ہمارے لئے ایک نظیر ہے
ارشاد ربانی ہے؛
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (48:29)
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے (جو بصورتِ نور نمایاں ہے)۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں (بھی مذکور) ہیں اور ان کے (یہی) اوصاف انجیل میں (بھی مرقوم) ہیں۔ وہ (صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی) کھیتی کی طرح ہیں جس نے (سب سے پہلے) اپنی باریک سی کونپل نکالی، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی (اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی (اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے) تاکہ اِن کے ذریعے وہ (محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے) کافروں کے دل جلائے، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ عرفان القرآن
قرآن کے یہ مذکورہ تمام کلمات خیر ان مقدس ہستیوں کی شان میں ہیں جن کا ذکر ہمارے مذہب میں صحابہ کرام کے نام سے زندہ اور روشن و تابندہ ہے۔ ان کے ناموں کے ساتھ ہم رضی اللہ عنہ اسی لئے جوڑتے ہیں کہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ – یعنی اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے- عرفان القرآن ۔ اور اگر یہ قول کسی فرد بشر کا ہوتا تو اس پر غور و فکر اور اختلاف و تنقید کی گنجائش تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اس رب ذوالجلال کا کلام ہے جو خود اپنے بارے میں فرماتا ہے کہ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا (4:122)- یعنی ’’(یہ) اللہ کا سچا وعدہ ہے، اور اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے‘‘عرفان القرآن ۔ اور إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (6:117)- یعنی ’’ بیشک آپ کا رب ہی اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا ہے اور وہی ہدایت یافتہ لوگوں سے (بھی) خوب واقف ہے ‘‘عرفان القرآن ۔ لہٰذا ہمارے ایمان و عمل کی سلامتی اسی میں پوشیدہ ہے کہ اللہ نے ہمیں جس کے بارے میں جو نظریہ فراہم کیا ہے اسی پر قائم رہیں ۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/respect-those-blessed-personalities-mentioned/d/119354
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism