مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
11 جولائی 2019
ارشاد باری ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (31) نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (32) وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (41:33)
ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا - ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مددگار ہیں اور آخرت میں (بھی)، اور تمہارے لئے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لئے وہاں وہ تمام چیزیں (حاضر) ہیں جو تم طلب کرو - (یہ) بڑے بخشنے والے، بہت رحم فرمانے والے (رب) کی طرف سے مہمانی ہے - اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے: بے شک میں (اﷲ عزّ و جل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں ۔عرفان القرآن
یہ آیت کریمہ ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ایمان اور استقامت یہ دو ایسی نعمتیں ہیں جو انسانوں پر تمام قسم کی اخروی اور ابدی نعمتوں کے دروازے کھول دیتی ہیں ۔ فرشتوں کی مصاحبت ، اللہ کی ولایت ، خوف اور حزن و غم سے آزادی ، جنت کی بشارت ، جنت کے اندر ہر اس عیش و عشرت اور ناز و نعم کی دستیابی جس کی خواہش ہمارے دل میں پیدا ہو، اس دنیا اور آخرت میں اللہ کی ولایت کا حصول اور جنت میں اللہ رب العزت کی میزبانی‘ یہ تمام ایسی نعمتیں ہیں جن کی خواہش ہر نیک ،صالح اور عابد و شب زندہ دار مسلمان رکھتا ہے۔اور قرآن جو کہ ہدایت کی ایک روشن کتاب ہدایت ہے ان تمام ابدی نعمتوں کے حصول کا ایک سیدھا راستہ ہمیں دکھاتا ہے۔
بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے….
تقریبا تمام معتبر اور مستند مفسرین کی رائے یہ ہے کہإِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ سے مراد ایمان لانا اور ثُمَّ اسْتَقَامُوا سے مراد آخری سانس تک ایمان پر قائم رہنا اور شرک کی آلودگی سے خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فقط ان دو باتوں میں ایسی کیا بات ہے کہ اللہ نے دو باتوں پر عمل کرنے والوں کے لئے دنیوی اور اخروی دونوں کامیابیوں کی ضمانت قرآن میں دیدی؟ لہٰذا جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دو میں سے اول الذکر یعنی ایمان لانا تو آسان کام ہے لیکن ثانی الذکر یعنی اس پر قائم رہنا انتہائی مشکل ترین امر ہے۔
علامہ طبری اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں :
حدثنا عمرو بن عليّ, قال: ثنا سالم بن قتيبةأبوقتيبة، قال: ثنا سهيل بن أبي حزم القطعي،عن ثابت البناني، عن أنس بن مالك،أن رسول اللهصَلَّىاللهعَلَيْهِوَسَلَّمقرأ: ( إِنَّالَّذِينَقَالُوارَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّاسْتَقَامُوا ) قال: " قد قالهاالناس،ثمكفرأكثرهم،فمن مات عليهافهوممن استقام ". (طبری)
ترجمہ و مفہوم
یعنی ایک دن رسو ل اکرم ﷺ نے آیت ’’إِنَّالَّذِينَقَالُوارَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّاسْتَقَامُوا‘‘ تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ’’لوگوں نے اس کا قول کیا (یعنی وہ ایمان لائے) اور اس کے بعد اکثر لوگ کفر کر بیٹھے (یعنی اس قول کے مقتضیات کو پورا نہ کرنے کے سبب ایمان سے خارج ہو گئے) ، لہٰذا ، جو اپنے اس قول پر تا عمر جما رہا (یعنی قول ایمان کے تمام تقاضوں کو ہر حال میں پورا کرتا رہا) اسی نے ایمان پر استقامت کا مظاہرہ کیا اور اسی کے لئے یہ تمام نعمتیں ہیں۔
نیز، تجربات اور مشاہدات بھی رسول اکرم ﷺ کے مذکورہ قول کی تصدیق کرتے ہیں۔ لہٰذا، جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ایمان پر استقامت ایک مشکل ترین امر ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی وہ کون سی کمزوریاں ہیں جو اسے استقامت کے راستے پر ٹکنے نہیں دیتیں اور وہ کون سے حیلے اور بہانے ہیں جنہیں بروئے کار لاکر شیطان انسان کو ایمان کے راستے سے ہٹا کر بڑی عیاری کے ساتھ دوبارہ کفر اور گمراہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے؟ اس نقطہ نظر سے قرآن کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر ویسے تو کئی خامیاں ہیں جو اسے معصیت و نافرمانی کا مرتکب بنا دیتی ہیں ۔ کچھ خامیاں فطری اور جبلی ہوتی ہیں اور کچھ عارضی ۔ لیکن انسان کی ایک کمزوری ایسی ہے کہ اگر وہ اس کا شکار ہو جائے تو اس کا منطقی نتیجہ ایمان سے محرومی اور کفر پر موت ہے ۔ اور وہ کمزوری ناشکری اور کفران نعمت ہے جو کہ انسان کی ایک جبلی کمزوری ہے، اور تجربے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہی وہ انسانی شخصیت کی ایک ایسی کمزوری ہے جو انسان کا بھروسہ اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں سے اٹھا دیتی ہے، نتیجۃ انسان ایمان لانے کے بعد پھر دوبارہ کفر کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے انسانی شخصیت کی اس کمزوری کو جس اہتمام سے ساتھ بیان کیا ہے اور جابجا جس انداز میں اس پر روشنی ڈالی ہے وہ ہمارے لئے عبرت اور نصیحت کا مقام ہے۔ اب ہم ان آیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں :
ارشاد ربانی ہے:
وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (14:34)
ترجمہ: اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے۔عرفان القرآن
وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ (43:15)
ترجمہ:اور اُن (مشرکوں) نے اس کے بندوں میں سے (بعض کو اس کی اولاد قرار دے کر) اس کے جزو بنا دیئے، بیشک انسان صریحاً بڑا ناشکر گزار ہے۔عرفان القرآن
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (80:17)
ترجمہ:ہلاک ہو (وہ بد بخت منکر) انسان کیسا نا شکرا ہے (جو اتنی عظیم نعمت پا کر بھی اس کی قدر نہیں کرتا)۔عرفان القرآن
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (22) لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (57:23)
ترجمہ:کوئی بھی مصیبت نہ تو زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری زندگیوں میں مگر وہ ایک کتاب میں (یعنی لوحِ محفوظ میں جو اللہ کے علمِ قدیم کا مرتبہ ہے) اس سے قبل کہ ہم اسے پیدا کریں (موجود) ہوتی ہے، بیشکیہ (علمِ محیط و کامل) اللہ پر بہت ہی آسان ہے - تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی، اور اللہ کسی تکبّر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔عرفان القرآن
وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ (9) وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ (10) إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (11:11)
ترجمہ:اور اگر ہم ان سے چند مقررہ دنوں تک عذاب کو مؤخر کردیں تو وہ یقینًا کہیں گے کہ اسے کس چیز نے روک رکھا ہے، خبردار! جس دن وہ (عذاب) ان پر آئے گا (تو) ان سے پھیرا نہ جائے گا اور وہ (عذاب) انہیں گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے - اور اگر ہم انسان کو اپنی جانب سے رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں پھر ہم اسے (کسی وجہ سے) اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ نہایت مایوس (اور) ناشکرگزار ہو جاتا ہے - اور اگر ہم اسے (کوئی) نعمت چکھاتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو ضرور کہہ اٹھتا ہے کہ مجھ سے ساری تکلیفیں جاتی رہیں، بیشک وہ بڑا خوش ہونے والا (اور) فخر کرنے والا (بن جاتا) ہے - سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کرتے رہے، (تو) ایسے لوگوں کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔عرفان القرآن
وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (11) وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (10:12)
ترجمہ:اور اگر اللہ (ان کافر) لوگوں کو برائی (یعنی عذاب) پہنچانے میں جلدبازی کرتا، جیسے وہ طلبِ نعمت میں جلدبازی کرتے ہیں تو یقیناً ان کی میعادِ (عمر) ان کے حق میں (جلد) پوری کردی گئی ہوتی (تاکہ وہ مَر کے جلد دوزخ میں پہنچیں)، بلکہ ہم ایسے لوگوں کو جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں چھوڑے رکھتے ہیں کہ وہ بھٹکتے رہیں -اور جب (ایسے) انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں اپنے پہلو پر لیٹےیا بیٹھےیا کھڑے پکارتا ہے، پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ (ہمیں بھلا کر اس طرح) چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی ہمیں (کبھی) پکارا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے (غلط) اَعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے تھے۔عرفان القرآن
وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا (17:83)
ترجمہ:اور جب ہم انسان پر (کوئی) انعام فرماتے ہیں تو وہ (شکر سے) گریز کرتا اور پہلو تہی کر جاتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے (گویا نہ شاکر ہے نہ صابر)۔عرفان القرآن
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ (30:36)
ترجمہ:اور جب ہم لوگوں کو رحمت سے لطف اندوز کرتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہو جاتے ہیں، اور جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے ان (گناہوں) کے باعث جو وہ پہلے سے کر چکے ہیں تو وہ فوراً مایوس ہو جاتے ہیں۔عرفان القرآن
وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ (33) لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (30:34)
ترجمہ:اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتے ہیں، پھر جب وہ ان کو اپنی جانب سے رحمت سے لطف اندوز فرماتا ہے تو پھر فوراً ان میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں - تاکہ اس نعمت کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں عطا کی ہے پس تم (چند روزہ زندگی کے) فائدے اٹھا لو، پھر عنقریب تم (اپنے انجام کو) جان لو گے۔ عرفان القرآن
معزز قارئین! دیکھا آپ نے کہ مذکورہ بالا آیتوں میں کس قدر تفصیل کے ساتھ اللہ رب العزت نے اس انسانی کمزوری کو بیان کیا ہے۔ قرآن میں اللہ نے نہ صرف یہ کہ اس انسانی کمزوری کو بیان کیا ہے بلکہ ’’إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (ترجمہ:سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کرتے رہے، (تو) ایسے لوگوں کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے)(11:11) ‘‘ ، فرماکراس کا علاج بھی ہمیں فراہم کر دیا ہے، لہٰذا بطور مسلم ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنی بہتری کے لئے اپنا جہد مسلسل اور سعی پیہم جاریں رکھیں اور اس میں کبھی کوئی کمی نہ آنے دیں لیکن ان سب کے باوجود اللہ ہمیں جس حال میں بھی رکھے ہمیشہ اس کا شکر ادا کرتے رہیں اور ناشکری کو کبھی اپنے قریب بھی نہ آنے دیں۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/quranic-spirit-steadfastness-patience-/d/119278
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism