مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
4 فروری2019
قرآن میں اللہ کا فرمان ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (66:6)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت کرّے (طاقتور) فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔ کنز الایمان
اس آیت کریمہ کی سماجی افادیت
آج اس آیت کریمہ پر خامہ فرسائی کرنے کی اصل وجہ اس کی سماجی اہمیت و افادیت (social relevance) ہے ۔ آج ہمارے سماج میں دین و مذہب کے حوالے ایک دوسرے کے طرز زندگی کو نظر انداز کرنے کا رجحان (fashion) زوروں پر ہے ، اور بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ آج یہ رحجان ہمارے سماج کے ہر طبقہ اور تقریباً ہر گھر کو اپنی چپیٹ میں لے چکا ہے ۔ آج بالعموم ہر جگہ یہ جملہ آپ کے کانوں سے ٹکرا سکتا ہے کہ ‘‘اپنے کام سے کام رکھوں ، دوسروں سے کیا مطلب’’ (Mind your own Business) ۔
اس کی شروعات سماجی سطح پر ہوئی۔ پہلے لوگوں نے سماجی سطح پر برے لوگوں سے اور ان کے برے معمولات سے یہ کہہ کر صرف نظر کرنا شروع کر دیا کہ ‘‘اُس کا کام اُس کے ساتھ ، اس سے ہمیں کیا مطلب!’’، اور پھر یہ وباء معاشرے کے ہر گھر میں داخل ہو گئی۔ اور اب صورت حال یہ بن چکی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے سیاہ کرتوتوں سے یہ کہہ کر صرف ِنظر کر لیتے ہیں کہ ‘‘یہ اس کی مرضی (choice) ہے ، اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں!’’ ، بس اتنا کہہ کر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کندھوں پر اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنے اور انہیں اچھے دینی اور مذہبی اقدار سے آراستہ کرنے کی جو ذمہ داری تھی اس سے وہ بری ہو چکے ہیں ۔
یہ تو ہر گھر کی بات ہے ، لیکن یہاں میرا مقصد نیک مسلمانوں کو نصیحت کرنا اور انہیں یہ بتانا ہے کہ یہ بےلگام ذہنیت غیر اسلامی اور گمراہ کن ہے ، جو کہ موجبِ ہلاکت و بربادی ہے۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہم ایک دوسرے کے اوپر آپسی ذمہ داریوں اور حقوق کو نظرانداز کر کے اپنی کامیابی و کامرانی کا تصور نہیں کر سکتے ۔ بلکہ معاشرے کا ہر فرد اپنے ماتحت لوگوں کا ذمہ دار اور ان کے اچھے برے کاموں کا جوابدہ ہے ۔ یہی خدائی منصوبہ بھی ہے اور اس سے کوئی راہ فرار بھی نہیں۔
‘‘اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کا محافظ ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال ہوگا، سربراہ مملکت اپنے عوام کا محافظ ہے اور اس سے اپنے عوام کے متعلق سوال ہوگا، اور ایک شخص اپنی بیوی کا محافظ ہے اور اس سے اس کی بیوی سے متعلق سوال ہوگا، ایک عورت اپنے خاوندکے گھر کی محافظ ہے اور اس سے اس کے گھر کے متعلق سوال ہوگا، اور خادم اپنے مالک کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس مال کے متعلق سوال ہو گا، اور ایک شخص اپنے باپ کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس مال کے متعلق سوال ہوگا، تم میں سے ہر شخص محافظ ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا ۔ (بخاری ، سنن ترمذی ، مصنف عبدالرزاق ، بحوالہ تبیان القرآن ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۲۴)
قرآن ایک ہادی و رہنما
قرآن کے اندر ایک ایسی سورت ہے جس میں اللہ نے مذہب و ملت سے قطع نظر تمام انسانوں کو خسارہ اٹھانے والا قرار دیا ہے سوائے چند لوگوں کے، اس سورت کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورت کو غور و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں تو صرف یہی ایک سورت دینا و آخرت میں ان کی کامیابی و کامرانی کے لئے کافی ہے ، چند صحابہ کا معمول تھا کہ وہ جب بھی آپس میں ملتے تو رخصت ہونے سے قبل برائے نصیحت یہ سورت پڑھ کر ایک دوسرے کو ضرور سنا دیتے (طبرانی)۔
وہ سورت اس طرح ہے؛
وَالْعَصْرِ﴿1﴾ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴿2﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴿3﴾
ترجمہ : اس زمانہ محبوب کی قسم - بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے - مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ (کنز الایمان)
نام اور وجہ تسمیہ :
اس سورت کا نام العصر ہے اس لئے کہ اس کی ابتدا لفظ عصر کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب کسی مہتم بالشان امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو زبان و بیان کا اصول یہ ہے کہ گفتگو شروع کرنے سے قبل کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جسے سننے کے بعد سامعین کے کان کھڑے ہو جائیں اور وہ اپنے منشر خیالات کو سمیٹتے ہوئے یکسو ہو جائیں تا اس کے بعد جو بات کہی جانے والی ہے وہ نظر انداز نہ کر دی جائے ۔ اور قسم کے بعد بیان کیا جانے والا مضمون جتنا عظمت اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے قسم بھی اتنی ہی بڑی اٹھائی جاتی ہے۔ اور اس آیت کی ابتدا ہی اللہ نے زمانے کی قسم کے ساتھ فرمائی اس سے اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد آنے والا بیان انتہائی اہم اور دنیا و آخرت میں فلاح و نجات کے حوالے سے ضروری اور ناگزیر ہو گا۔ اور اسی زمانے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس سور کا نام ‘‘العصر’’ بھی رکھا گیا ہے۔
إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴿2﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴿3﴾
بلا شک و شبہ انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو اللہ و رسول پر ایمان لائے ، نیک عمل کیا ، ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ اس سورہ مبارکہ سے بنیادی طور پر چار باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور یہی چار باتیں اس آیت کا خلاصہ اور پورے قرآن کا نچوڑ ہیں ؛
۱۔ اللہ اور اس کے رسول پر اس طرح ایمان لانا جو اللہ کے کلام اور رسول ﷺ کی تعلیمات سے ثابت ہے۔
۲۔ اللہ کے حکم اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق نیک اعمال کرنا۔
۳۔ لوگوں کو حق کی تاکید کرنا اور اسکی ترغیب دینا یہ آیت ان لوگوں سے مخاطب ہے جو دوسروں کو گناہ کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ کہہ کر اس سے نظریں پھیر لیتے ہیں کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اس سے ہمیں کیا سروکار! یہ آیات ایسے لوگوں کو یہ بتاتی ہے کہ ناحق ظلم ، برائی اور گناہ ہوتا ہوا دیکھ کر خاموش رہنے میں بھی انسانوں صرف تمہارا ہی خسارہ ہے۔
۴۔مشکل ، مصیبت اور کسی آزمائش کی گھڑی میں ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا بھی ہماری کامیابی و کامرانی کے لئے انتہائی ضروری ہے اس لئے کہ ہر عقلمند اور حساس انسان یہ جانتا ہے کہ بے صبری میں اٹھائے گئے قدم اور بے خودی میں لئے گئے فیصلے ہمیشہ مہلک ہی ثابت ہوئے ہیں ، اور خود قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی رحمت اور اس کی توجہ خاص حاصل کرنے کے لئے صبر کا دامن ہاتھ میں تھامے رہنا ناگزیر ہے اور تم جسے بھی صبر کرتا ہوا پاؤ یہ یقین جانو کے اللہ اس کے ساتھ ہے۔
اللہ عز و جل کا فرمان ہے:
إِنَّ اللّه مَعَ الصَّابِرِینَ (بقرہ : ۱۰۱)
بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے – (کنز الایمان)
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/our-social-religious-responsibilities-/d/117719
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism