New Age Islam
Tue Jan 21 2025, 08:22 PM

Urdu Section ( 24 Nov 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Neighbour’s rights and our moral responsibilities towards them ہمسایوں اور پڑوسیوں کے حقوق

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

(بہار ادب، قسط:9)

جب ہم دنیا کے بڑے بڑےاور قدیم ادیان و مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے مذاہب بھی ہیں جو دنیا و آخرت میں نجات کے حصول کے لیے گھربار، بیوی بچے، رشتہ دار اور اعزاء و اقرباء سب کچھ چھوڑکر جنگلوں میں نکل جانے اوررہبانیت اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ لیکن یہ مذہب اسلام کا ایک امتیازی وصف ہے کہ اس نے جہاں حقوق اللہ بیان کیا ہے اور اس کے حدود کا تعین کیا ہے وہیں اس نے حقوق العباد کا بھی نظام پیش کیا ہےاور اس نے حقوق العباد کی پاسداری کی پرزور تاکید کی ہے۔صرف حقوق اللہ کی تاکید اور تلقین کرنے کے بجائے اسلام نے حقوق العباد کی بھی اہمیت پر زور دیا ہے اور اسلام نے حقوق العباد کو اتنی اہمیت دی ہے اور اس میں اس قدر وسعت رکھی ہے کہ بعض اعتبارات سے کچھ مخصوص حالات میں حقوق اللہ پر حقوق العباد کو مقدم بھی کیا جا سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت اپناحق یعنی حق اللہ تو معاف کر سکتا ہے لیکن اس دن کوئی بندہ اپنا حق معاف نہیں کرے گا، حتیٰ کہ ماں، باپ، بھائی، بہن اور بیوی شوہر سب ایک دوسرے سے گریزاں ہوں گے اور سب کو صرف اپنی ہی نجات کی فکر ہوگی۔

لہٰذا، حقوق العباد میں سے ایک اہم اور سب سے بڑا حق پڑوسی کا حق ہے جس کا بیان اسلامی تعلیمات میں بڑی تاکید کے ساتھ موجود ہے ۔پیغمبر اسلام ﷺکاارشادہےکہ "جبرئیل نے مجھے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں اس قدر تاکید کی کہ مجھے خدشہ ہو گیا کہ پڑوسیو ں کوبھی وراثت میں حقدار بنا دیا جائے۔ نبی ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اس بات کی ایک روشن دلیل ہے کہ حقوق العباد کے باب میں پڑوسو ں کے حقوق کو اسلام میں کتنی اہمیت حاصل ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق ایک طرف اسلام کی یہ بیش قیمتی تعلیمات ہیں اور دوسری طرف آج پڑوسیوں کے تئیں ہمارا رویہ ہے۔ اب ہم خود اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم ایمان کا دعویٰ کرنے والے کس حد تک پڑوسیوں کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں اور اپنے پڑوسی کے حقوق اداکرنے پر ہم کتنی توجہ دیتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے پڑوسیوں کے جوحقوق متعین کیے ہیں کیا ہم بحیثیت ایک پڑوسی ان حقوق کو ادا کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں اپنا یہ طرز عمل آج سے ہی ترک کرنا ہوگا اور پڑوسیوں کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ ورنہ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم اپنی حالت زار کا ماتم منائیں اور دنیا کے سامنے اپنی بے بسی اور بے کسی کا رونا روئیں۔اس لیے کہ جب جب ہم خلق خدا کے حقوق کی ادائیگی سے اپنی گردنیں پھیر لیں گے تو خدا کی رحمت بھی ہم سے روٹھ جائے گی۔

سورہ نساء میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:

(سورہ نساء،36)

ترجمہ:

"اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو"۔

الادب المفرد میں امام بخاری ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ:فلاں خاتون رات تہجد میں گزارتی ہے اور دن روزے میں گزارتی ہے، اعمال صالحہ کرتی ہے اور صدقہ و خیرات دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف بھی پہونچاتی ہے۔یہ سن کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

""

 اس عورت میں کوئی بھلائی نہیں ہے، وہ اہل جہنم میں سے ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مجھے جبریل امین نے مسلسل پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اتنی کثرت کے ساتھ کی کہ مجھے یہ خیا ل گزرا کہ وہ پڑوسی کو وراثت میں حق دار قرار دیں گے۔ [بخاری، مسلم]

"اللہ کی قسم وہ شخص کامل مؤمن نہیں ہو سکتا۔ جس کا پڑوسی اس کے شر و فساد سے محفوظ نہ ہو"۔[بخاری]

جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔[بخاری، مسلم]

جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کوکوئی تکلیف نہ پہونچائے۔[بخاری، مسلم]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے حکم صادر فرمایا کہ:

اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کو تحفہ میں ہلکی چیز بھی دینے میں کوئی عار محسوس نہ کرے اگرچہ وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ [بخاری، مسلم]

ایک شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میرا پڑوسی مجھے تکلیف پہونچاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 جاؤ اپنے گھر کا سامان باہر نکال کر راستے پر ڈال دو۔ وہ گھر گیا اور اپنے گھر کا سامان باہر نکال کر ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر محلے کے لوگ اکٹھہ ہو گئے اور اس سے پوچھنے لگے کہ "تمہارے ساتھ کیا ہو؟ اس نے کہا: میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے، لہٰذا جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ: جاؤ اور اپنے گھر کا سامان نکال کر راستے پر ڈال دو۔ یہ دیکھ کر لوگ اس شخص پر لعنت و ملامت کرنے لگے، اور کہنے لگے کہ: اے اللہ تو اس شخص پر لعنت بھیج اور اسے ذلیل کر۔ وہ شخص جب حقیقت حال سے آگاہ ہوا تو اپنے اس پڑوسی سے کہا: تم اپنے گھر واپس لوٹ جاؤ۔ اللہ کی قسم اب میں تجھے کبھی تکلیف نہیں پہونچاؤں گا۔ [الادب المفرد ، ابو داؤد]

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

 اے ابوذر! جب تم (کھانے میں) شوربے والی کوئی چیز پکاؤ تو اس میں پانی ڈال کر شوربا زیادہ کر لو اور اس میں اپنے پڑوسی کو بھی اس میں شامل کر لو۔ [مسلم ]

جسے یہ پسند ہو کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کی نظر میں محبوب بنے تووہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔(شعب الایمان)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات وحدہ لا شریک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنے پڑوسی اوراپنے بھائی کے لیے  وہی پسند نہ کرے جو وہ خود کے لیے  پسند کرتا ہے۔(صحیح مسلم)

حضرت عمر نے ایک شخص سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: انسان اپنے پڑوسی کوبھوکاچھوڑکرخودشکم سیر نہ ہو۔ (کنزالعمال)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جوشخص خود شکم سیر ہو کر کھا لے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے حالآنکہ وہ اس کے حال سے واقف بھی ہو تو وہ مجھ پر ایمان نہیں لایا۔(مجمع الزوائد)

ابو شریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عزت کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی عزت کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی عزت کی قسم وہ مومن نہیں، صحابہ کرام نے عرض کیا کون یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی اذیتوں سے بے خوف نہ ہو (صحیح بخاری)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کی ضرر رسانیوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا (صحیح مسلم)۔

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کو ضرر نہ پہونچائے اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی ضیافت کرے اور اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے(صحیح بخاری)۔

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے پتوں میں سے ایک پتے پر یہ لکھوایا: "اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا۔وہ اللہ اور قیامت کے دن پرایمان نہیں رکھتا جس کاپڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو"۔(مستدرک حاکم)

پڑوسیوں کے اہل خانہ پر بری نظر رکھنا

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑاگناہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نےفرمایا کہ سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک کرنا ہے، جب کہ تجھے اللہ نے ہی پیدا کیا ہے۔ میں نے پوجھا پھر کون سا گناہ سب سے بڑا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ اس کو بھی اپنے ساتھ کھلانا پڑے گا۔میں نے پوچھا پھر کون سا گناہ سب سے بڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرنا۔جب کہ اللہ تبارک وتعالی کاارشاد ہے: اورجولوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اورنہ کسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ، اورنہ ہی زنا کرتے ہیں ۔(بخاری ،مسلم)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔چوری کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا حرام ہے اس کو اللہ نے حرام قراردیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے پڑوسی کے گھر میں چوری کرنا دس گھروں میں چوری کرنے کرنے سے زیادہ برا ہے۔ زنا کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا زنا حرام ہے اس کو اللہ نے حرام قراردیاہے۔ اس پر پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا کہ اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرنا دس عورتوں کے ساتھ زناکرنے سے زیادہ برا ہے۔(مسند احمد بن حنبل،مجمع الزوائد)

کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علہہ وسلم سے دریافت کیا کہ میر ے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر اس کا حق یہ ہے کہ جب وہ بیمار ہو تم اس کی عیادت کے لیے جاؤ، جب مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو،جب تم سے قرض مانگے اسے قرض دو،جب اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو اسے مبارکباد دو، جب اسے کوئی مصیبت اور تکلیف پہونچے تو اس کی تعزیت کرو اور اپنی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ تیار کرو تاکہ اس کی ہوا میں کوئی روکاوٹ نہ پہونچے۔اور اپنے گھر کی ہانڈی کی بو سے اسے تکلیف مت پہنچاو مگریہ کہ اس میں سے کچھ اسے بھی پہنچا دو۔(الاحیاء فی علوم الدین)۔

جاری..................................

URL: https://newageislam.com/urdu-section/neighbour’s-rights-our-moral-responsibilities/d/109179

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..