مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
22 مارچ 2017
امت مسلمہ کے عروج و زوال کے حوالے سے اقبال کا فلسفہ کیا ہے کہ اقبال کو یہ کہنا پڑا کہ، ‘‘زوال بندہ مؤمن کا بے زری سے نہیں؟’’ جب ہم اس کی باریکیوں میں اتر کر حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ یہ محض لفظوں کی کاریگری نہیں بلکہ ایک امر واقعہ ہے کہ بحیثیتِ امت بندہ مومن کا زوال یا اس کا عروج و ارتقاء مال و دولت کی فراوانی یا عربت و افلاس کی دل آویز کہانی سے وابستہ نہیں ہے۔ اسی لیے امت مسلمہ کا زوال اور اس کی ذلت و رسوائی مسلمانوں کی بے راہ روی، بے دینی، لا علمی، فکری جمود، عملی تعطل، مذہبی بے غیرتی اور ملی بے حمیتی کا نتیجہ ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے اسی کلمہ توحید کو بنیاد بنا کر بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانا شروع کر دیا ہے جس کلمہ توحید کے سائے میں پیغمبر اسلام ﷺ نے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے معاشرے کے ہر طبقے کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا تھا۔ مسلمانوں کو آج ان حالات سے ہمکنار کرنے میں براہ راست ان کی بھی کوششیں کارفرما ہیں جنہوں نے اسلام کو مکمل طور پر ایک سیاسی نظام کی شکل میں پیش کیا اور جنہوں نے اسلام کی ان تمام روحانی اور اخلاقی قدروں کو یکسر نظر انداز کر دیا جن سے مسلمان اپنی زندگی کے ہر محاذ میں توانائی حاصل کرتے تھے۔
یہ تو مسلم زعماء کا حال ہے، جبکہ انفرادی سطح پر اپنی اس حالت زار کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ اور ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے قرآن کی تعلیمات اور اس کے وعدوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے۔ قرآن کا اعلان بڑا واضح ہے ‘‘وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران: 139)’’ کہ تمہیں پریشان ہونے اور غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ بات فقط اتنی ہے کہ تم ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرلو فتح و نصرت تمہارا مقدر بن جائے گی۔ دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ زندگی کے تمام معالات میں خواہ وہ مادی یا روحانی معاملات ہوں خواہ دینی یا دنیاوی، ہمارے اسلاف کو قرآن پر جس قدر یقین تھا وہ یقین ہمارے اندر نہیں ہے۔ہم یہ بھول گئے کہ تلاوت قرآن اللہ سے ہم کلام ہونا ہے۔ اور جو قرآن پڑھتے بھی ہیں وہ محض رسماً تلاوت قرآن پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے معانی و مطالب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں اس بات سے کوئی غرض ہے کہ رب دوجہاں نے اپنے کلام میں ہمارے لیے کیا پیغام نازل کیا ہے۔
عالم اسلام کے ایک عظیم صوفی حضرت جنید بغدادی نے ایک دن اپنے ایک مرید کو طلب کیا اور اسے ایک صندوق دیکر کہا جاؤ اسے دریائے دجلہ کی موجوں کے حوالے کر آؤ اور خیال رہے کہ اسے کھول کر دیکھنے کی کوشش مت کرنا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ آپ کے اس مرید نے صندوق سر پر رکھا اور دریائے دجلہ کی جانب نکل پڑا اور وہاں پہنچ کر جونہی اس نے اس صندوق کو دریائے دجلہ میں ڈالا تو اس نے دیکھا کہ دریا کا پانی چھنٹ گیا اور اس نے صندوق کے لیے راہیں کشادہ کر کے اسے اپنے اپنی آغوش میں لے لیا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے انتہاء حیران ہوا اور فوراً شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ ‘‘حضور اگر میں وہ منظر نہ دیکھتا تو کبھی آپ سے سوال نہ کرتا، مجھے بتایا جائے کہ اس صندوق میں کیا تھا جس کے لیے پانی نے بھی راہیں چھوڑ دی؟ اور اگر وہ چیز اتنی ہی مقدس اور با برکت تھی تو آپ نے اسے دریابرد کیوں کروا دیا؟ اب یہ واقعہ میرے لیے ایک معمہ بن چکا ہے اور جب تک آپ حقیقتِ حال سے آگاہ نہیں فرمائیں گے مجھے قرار نہیں ملے گا’’۔ حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ ‘‘ہاں تماری آنکھوں نے منظر ہی ایسا دیکھ لیا ہے کہ جب تک میں حقیقت حال سے پردہ نہیں اٹھاؤں گا تمہارے قلب سے اضطراب دور نہیں ہوگا’’۔ آپ نے فرمایا کہ بات در اصل یہ ہے کہ میں نے بارہ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد تصوف کے رموز و غوامص پر ایک کتاب کتاب تیار کی تھی اور بارہ سال تک میں اس کی نوک پلک سنوارتا رہا کہ کہیں اس کا کوئی جملہ شریعت اور قرآن و سنت کے خلاف نہ چلا جائے اور پھر اس کے بعد بارہ سال تک یہ سوچتا رہا کہ میں اس کتاب کو لوگوں تک پہونچاؤں کہ نہ پہونچاؤں، لہٰذا، آج چھتیس سال پورے ہو گئے اور میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ قرآن کے ہوتے ہو ئے اس امت کو جنید کی کسی کتاب کی ضرورت نہیں۔
اقبال کہتا ہے:
آن کتاب زنده قرآن حکیم
حکمت او لایزال است و قدیم
نسخہ ی اسرار تکوین حیات
بی ثبات از قوتش گیرد ثبات
حرف او را ریب نی تبدیل نی
آیہ اش شرمنده ی تأویل نی
قرآن کا ایک ایک حرف شفاء، نور، حق اور صداقت پر مشتمل ہے۔ یہ واحد ایک ایسی کتاب ہے جو یہ کہتی ہے کہ مجھ میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اور یہ اتنی کامل اور اکمل کتاب ہے جو یہ دعوت فکر دیتی ہے ‘‘فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَہُ يُؤْمِنُونَ (المرسلات50)’’، کہ ائے ایمان، یقین، علم، ادب، حکمت، دانائی، فکر، فلسفہ، صداقت، امانت، سیادت اور قیادت کے متلاشیوں ! اس قرآن کے آ جانے اور اللہ کی حجت کے تمام ہو جانے کے بعد تم اور کس چیز کے انتظار میں ہو؟ کاش کہ قرآن کو ہم اس زاویہ نظر سے دیکھتے جو اس کا تقاضا ہے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ قرآن ہمارے تمام سوالوں کا جواب ہے، قرآن ہمارے دردِ دل اور سوزِ دروں کا درماں ہے اور قرآن ہماری تمام ضروریات کی کفالت بھی کرتا ہے۔
جاری.......
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-need-reclaim-their-spiritual-5/d/110508
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism