مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
4 جنوری 2019
شیطان کے پاس بندۂ مؤمن کے خزانہ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے ویسے تو کافی حیلے، بہانے اور تدبیریں ہیں لیکن طول امل (یعنی لمبی دنیاوی خواہشیں) شیطان کا ایک ایسا کار آمد ہتھیار ہے جسے وہ انسانوں کو صراط مستقیم سے دور کرنے کے لئے تقریباً ہر انسان پر استعمال کرتا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ طول امل کی بنیاد پر بعض دفعہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی قائم کردہ حدود کی پامالی کر کے اپنا توشہ آخرت برباد کر بیٹھتے ہیں۔ جب ہم اللہ اور اس کے رسول کے حدود کی پامالی کرتے ہیں تو لازمی طور پر ہم کسی کا حق غصب کرتے ہیں ، کسی کی آبرو پامال ہوتی ہے، کسی پر ظلم ہوتا ہے اور کسی کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اور آخرت میں جب یہی مظلومین بارگاہ ایزدی میں انصاف کی گہار لگائیں گے تو اس وقت ہمارے پاس وہ چیز تو نہیں ہوگی جو ہم نے طول امل کی بنیاد ناحق غصب کی تھی، بلکہ ہم تو اس دن تہی دست و تہی دامن مفلس و قلاش ہو کر ایک مجرم کی طرح پیش ہوں گے، لہٰذا ہماری نیکیاں ان مظلومین کو دے دی جائیں گی جن کا ہم نے حق غصب کیا ہے، یا جن پر ظلم کیا ہے یا جنہیں کوئی ناحق تکلیف پہنچائی ہے۔
لیکن اسی آسمان کے نیچے اور اسی زمین کے اوپر اللہ کے ایسے بندے بھی ہیں جو اس قسم کے تمام شیطانی حملوں سے محفوظ و مامون ہیں۔ اور وہ متقین، صالحین اور مخلصین کا طبقہ ہے۔ ان پر اللہ کا ایسا فضل و کرم ہے کہ شیطان کا ان پر کوئی بس نہیں، اور اس کا اقرار خود شیطان کو بھی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جب اللہ کی نافرمانی اور حضرت آدم علیہ السلام کی توہین کرنے کی پاداش میں شیطان راندہ درگاہ قرار دیدیا گیا اور اس نے قیامت تک ابن آدم کو بہکانے اور صراط مستقیم پر طرح طرح کے حجابات ڈالنے کی مہلت بھی اللہ کی بارگاہ سے حاصل کر لی تو اس نے اللہ کی بارگاہ سے نکلنے سے قبل خود اس بات کا اعتراف کیا کہ میرے بچھائے ہوئے جال میں ہر کوئی پھنسے گا لیکن جو تیرے نیک اور صالح بندے ہوں گے ان پر میرا کوئی بس نہیں چلے گا۔
اللہ نے شیطان کے اس مکالمے کو قدرے تفصیل کے ساتھ قرآن مجید کی سورہ ص میں اس طرح بیان کیا ہے۔
إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن طِينٍ - فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ - فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ - إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ - قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ - قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ - قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ - وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ - قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ - قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ - إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ - قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ - إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ - قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ - لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ (ص:85-71)
ترجمہ: وہ وقت یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں (گیلی) مٹی سے ایک پیکرِ بشریت پیدا فرمانے والا ہوں - پھر جب میں اس (کے ظاہر) کو درست کر لوں اور اس (کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس (کی تعظیم) کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا - پس سب کے سب فرشتوں نے اکٹھے سجدہ کیا - سوائے ابلیس کے، اس نے (شانِ نبوّت کے سامنے) تکبّر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا - (اﷲ نے) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس نے اس (ہستی) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنے دستِ (کرم) سے بنایا ہے، کیا تو نے (اس سے) تکبّر کیا یا تو (بزعمِ خویش) بلند رتبہ (بنا ہوا) تھا - اس نے (نبی کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہوئے) کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور تو نے اِسے مٹی سے بنایا ہے - ارشاد ہوا: سو تو (اِس گستاخئ نبوّت کے جرم میں) یہاں سے نکل جا، بے شک تو مردود ہے - اور بے شک تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت رہے گی - اس نے کہا: اے پروردگار! پھر مجھے اس دن تک (زندہ رہنے کی) مہلت دے جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے - ارشاد ہوا: (جا) بے شک تو مہلت والوں میں سے ہے - اس وقت کے دن تک جو مقرّر (اور معلوم) ہے - اس نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم! میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا - سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و برگزیدہ ہیں - ارشاد ہوا: پس حق (یہ) ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں - کہ میں تجھ سے اور جو لوگ تیری (گستاخانہ سوچ کی) پیروی کریں گے اُن سب سے دوزخ کو بھر دوں گا (ص:85-71)۔ عرفان القرآن
مندرجہ بالا آیات قرآنیہ کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ انسان کو شیطان کے حملوں سے صدق ، اخلاص اور تقویٰ کا ڈھال ہی بچا سکتا ہے۔ اور جب تک انسان طول امل سے خلاصی اور نجات حاصل نہیں کر لیتا تب تک اسے صدق اخلاص اور تقویٰ کی بو بھی نہیں لگ سکتی۔ اس سلسلے میں ایک حدیث ملاحظہ ہو:
عن مسروق، قال: قلت لعائشۃ رضی اللہ عنھا- یا اماہ، ما اکثر ما کان یقول رسول اللہ ﷺ اذا دخل البیت؟ قالت: اکثر ما سمعتہ یقول اذا دخل البیت: ((لو ان لابن آدم وادیَین من ذھب لتمنیٰ الیھما ثالثا، و لا یملاء جوف ابن آدم الا التراب و یتوب اللہ علی من تاب و انما جعل اللہ تعالی ھذا المال لِتُقام بہ الصلاۃ و توتی بہ الزکاۃ)) [بخاری، مسلم، الشعب-بحوالہ تنبیہ الغافلین صفحہ۱۶۸- مطبوعہ ، مکتبہ الایمان بالمنصورۃ۔ ۱۹۹۴/مصنفہ فقیہ ابو الیث نصر بن محمد الحنفی السمرقندی (متوفی ۳۸۳ھ)
مسروق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے دریافت کیا کہ‘‘اے ہماری ماں! ہمیں بتائں کہ حضور ﷺجب گھر میں جلوہ بار ہوتے ہو اکثر کیا فرمایا کرتے تھے؟ اس پر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے جواب دیا کہ: حضور ﷺجب گھر میں جلوہ بار ہوتے تو میں اکثر آپ ﷺسے یہ فرماتے ہوئے سنتی کہ : ‘‘اگر ابن آدم سونے کی دو وادیوں کا مالک ہو جائے تب بھی (اسے قناعت میسر نہیں ہوگی اور ) وہ تیسری وادی کی بھی خواہش کرے گا۔ انسان کی (حرص و ہوسِ دنیا کی) بھوک مٹی سے ہی پوری ہوگی (یعنی حرص و ہوسِ دنیا تبھی ختم ہوگی جب وہ مر کر مٹی میں دفن ہو جائے گا)۔ تو جو (وقت رہتے حرص و ہوسِ دنیا سے) توبہ کر لے اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ اللہ نے یہ مال تو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ بندہ اس سے اقامت صلوٰۃ (مراد عبادات کی ادائیگی) میں استعمال کرے اور اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/long-materialistic-desires-destroys-our/d/117369
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism