New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 02:44 AM

Urdu Section ( 26 Nov 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Jurisprudential Position of Prophet PBUH and His sayings (Ahadith) in Islam, What Quran says? اسلام میں اتباع رسول ﷺاور پیرویٔ سنت کا مقام

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

21 نومبر 2018

کیا اللہ نے قرآن نازل کر کے ہمیں رسول اللہ ﷺ کی اقتداء سے بے نیاز کر دیا ہے ؟ کیا دینی اقدار اور اسلامی شعار کو قائم و دائم رکھنے کے لئے صرف نصوص قرآنیہ ہی کافی ہیں ؟ کیا فرمودات پیغمبر اعظم اور اطاعت رسول اکرم ﷺ کو پس پشت ڈال کر ایک کامل دین کا تصور ممکن ہے ؟  کیا مسلمان ایسے دین پر چل کر ابدی نجات کا پروانہ حاصل کر سکتے ہیں جس میں رسول اعظم ﷺ کی ذات اور آپ کے فرمودات پر ایمان لانا اور ان کی پیروی کرنا ضروری نہیں ؟ کیا انکار حدیث کا رجحان دین کی سالمیت (integrity) پر حملہ نہیں ہے؟

یہ وہ چند انتہائی اہم سوالات ہیں جن پر روشنی ڈالنا اور ان کے متعلق مسلمانوں کے ذہنوں سے شکوک و شبہات ختم کرنا از حد ضروری ہے ۔ اور ہو بھی کیوں نہ کہ آج ہر طبقے کے مفکرین اور تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشوران (خواہ وہ اس کے اہل ہوں یا نہ ہوں) اپنی اپنی فکر اور اپنی اپنی رائے پیش کرنے کے لئے ابلاغ وترسیل کے تمام ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں ۔ خواہ وہ لوگوں کے پرسنل بلاگز (Blogs) ہوں ، سوشل میڈیا (Social Media) کا پلٹ فارم ہو ، مین اسٹریم میڈیا (Mainstream Media) ہو یا ویب پورٹلز (Web portals) ہوں ، ہر جگہ آج یہ مسئلہ موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ اور یہ اپنی جگہ خود ایک ایسا عنوان بھی ہے کہ اسے نظر انداز کر کے کوئی بھی طبقہ دین کی صحیح تعبیر نہیں پیش کر سکتا ، خواہ وہ متجددین کا طبقہ ہو خواہ روایتی علماء اور کلاسیکی فقہاء کی جماعت ہو ۔ لہٰذا ، دین کے ایک ادنی طالب علم اور امت مسلمہ کے ایک حقیر خادم ہونے کے ناطے میں بھی قرآن و حدیث اور اقوال علماء و فقہاء کی روشنی میں سواد اعظم اہلسنت و جماعت کی طرف سے اپنا موقف قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

ایک ضروری وضاحت :

چونکہ میں ایک عرصہ دراز سے اس کثیر لسانی گلوبل آرگنائزیشن نیو ایج اسلام کے ساتھ جڑا ہوا ہوں اور اسے اپنی خدمات پیش کر رہا ہوں جہاں ہر طبقے ہر فرقے اور ہر اسٹریم (stream) کے مفکرین اور دانشوران کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے ، انہیں بلاامتیاز شائع کیا جاتا ہے اور ان پر کھل کر بحث و تمحیص (debate )کی جاتی ہے لہذا ہمارے بعض احباب کو یہ شبہ لاحق ہوا کہ کیا میں اب بھی اپنے اصل مسلک سواد اعظم اہلسنت پر قائم ہو یا نہیں ؟ کہیں میں متجددین کے افکار سے مرغوب تو نہیں ہو گیا ؟ اور اس جیسے دیگر سوالات گزشتہ چند مہینوں سے مسلسل میل اور ٹیلی فون کے ذریعہ مجھ سے کئے جا رہے ہیں ۔ لہٰذا میں ان احباب کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ‘‘الحمد للہ! میں سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے مسلک کا متبع اور پیروکار ہوں ، میں سواد اعظم اہلسنت و جماعت کے تمام اصول و نظریات اور معتقدات و معمولات پر مِن و عَن اسی طرح قائم ہوں جس طرح یہ ہمارے اسلاف ، ائمۂ مجتہدین ، فقہائے اسلام اور بزرگوں سے ہوتا ہوا مجھ تک پہونچا ہے ۔ اور ان کے حوالے سے میرے دل میں نہ کوئی ریب ہے اور نہ ہی کوئی شک و ارتیاب۔ میرا دین دین محمدی ہے اور میں مذہباً حنفی ، مسلکاً سنی اور مشرباً قادری ہوں (فالحمد للہ علی ذالک حمداً کثیرا) ، اور اس کے ساتھ ہی میں مذاہب اربعہ (حنفی ، شافعی ، حنبلی ، مالکی) کو حق مانتا ہوں اور تمام سلاسل طریقت سے تمسک ، عقیدت اور محبت رکھتا ہوں اور کل سلاسل حقہ کے تمام مشائخ کو اس دنیا میں اپنا دینی رہنما اور آخرت میں متاعِ بخشش ومغفرت تسلیم کرتا ہوں اور عہد حاضر کے تمام گمراہ اور بد مذہب فرقوں سے خود کو الگ کرنے اور ان کی تعلیمات سے بیزاری کا اظہار کرنے کے لئے مسلک اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کا دم بھرتا ہوں ، اسی پر قائم ہوں اور اسی پر اپنی موت کی دعا کرتا ہوں۔ یہ اعلان میرے اوپر کافی دنوں سے قرض تھا آج میں نے اتار دیا۔

اب اصل موضوع پر آتے ہیں ، اتباع پیغمبر اعظم ﷺ اور پیرویٔ حدیث رسول کے حوالے سے جو بنیادی سوال میں نے اوپر قائم کئے ہیں اس تعلق سے مسلمانوں کے درمیان دو طبقے پائے جاتے ہیں ۔ متجدد اقدار اور لبرل افکار کے حامل اہل فکر (intellectuals) یہ مانتے ہیں کہ اللہ نے قرآن نازل کر کے ہمیں رسول اللہ ﷺ کی اقتداء سے بے نیاز کر دیا ہے ۔ دینی اقدار اور اسلامی شعار کو قائم و دائم رکھنے کے لئے صرف نصوص قرآنیہ ہی کافی ہیں ۔ فرمودات پیغمبر اعظم اور اطاعت رسول اکرم ﷺ کو پس پشت ڈال کر بھی ایک کامل دین کا تصور ممکن ہے ۔ مسلمان ایسے دین پر چل کر ابدی نجات کا پروانہ حاصل کر سکتے ہیں جس میں رسول کی ذات اور آپ کے فرمودات پر ایمان لانا اور ان کی پیروی کرنا ضروری نہیں ۔ اور انکار حدیث کا رجحان دین کی سالمیت (integrity) پر قطعی کوئی حملہ نہیں ہے۔ ان حضرات کی نظر میں یا تو دین کے اندر احادیث رسول ﷺ کی نہ تو کوئی بنیاد ہے اور نہ ہی انہیں دین کے معتمد ذرائع میں شمار کیا جا سکتا ہے ، کیوں کہ ان کا یہ ماننا ہے کہ احادیث رسول ﷺ کی تدوین نبی ﷺ کی وفاتِ ظاہری کے تین سو سال کے بعد عمل میں آئی ، لہٰذا دین اسلام کا تصور سنت اور احادیث رسول کے بغیر ہی مکمل ہے ۔ مثال کے طور پر جناب سلطان شاہین صاحب ، فاؤنڈنگ ایڈیٹر نیو ایج اسلام اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

There is a consensus among ulema (religious scholars) of all sects that Hadith narrations (the alleged sayings of the Prophet) are akin to revelation, even though these were collected up to 300 years after the demise of the Prophet

(http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/sultan-shahin,-founding-editor,-new-age-islam/-make-revolutionary-changes-in-the-islamic-theology-of-consensus-to-fight-jihadism---sultan-shahin-asks-muslim-nations-at-unhrc-in-geneva/d/112668)

ترجمہ: تمام فرقوں کے علماء کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ روایاتِ حدیث (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبینہ اقوال) وحی کے برابر ہیں، اگرچہ ان کی تدوین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 300 کے بعد عمل میں آئی تھی ۔

http://www.newageislam.com/urdu-section/make-revolutionary-changes--جہادی-نظریہ-سے-لڑنے-کے-لئے-اجماع-کی-اسلامی-فقہ-میں-انقلابی-تبدیلی-لائی-جائے---سلطان-شاہین-کا-اقوام-متحدہ-کے-یو-این-ایچ-آر-سی-میں-مسلم-ممالک-سے-مطالبہ/d/112682

اور کچھ لوگ اس سے بھی دو قدم آگے بڑ ھ محض چند غیر ثابت شدہ امکانات کی بنیاد پر حدیث کو شیطانی اور اطاعت پیغمبر اعظم ﷺ کو فسق و فجور اور ضلالت و گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں ، مثال کے طور پر نیو ایج اسلام کے ایک مستقل کالم نگار نصیر احمد کے مضمون کا اقتباس ملاحظہ ہو :

The Ahadith were compiled in the 9th century by At-Tirmidhi (Uzbek died 892), Imam Bukhari – (Uzbek died 870), Abu-Dawud (Persian died 889), Ibn Majah (Persian died 887), Al-Nasai (Persian died 915), Muslim ibn al-Hajjaj (Persian died 875), Ibn Hanbal (Arab died 855) and several others. The books of the first six compilers form part of the Kutub Al-Sittah or the six books. The fact that all the six major compilers were contemporaries in the era of Islam’s Golden period under the Abbasid dynasty could be because the compilation may have been a political project to bend Islam to the political compulsions of the Caliph and the Mullahs. The Ahadith contradict the Quran on every subject and if these alleged sayings of the Prophet (pbuh) are authentic, then we should wonder whether the Prophet spent all his life preaching against the message of the Quran! Clearly this is unthinkable, and therefore we must reject the Ahadith as the work of Satan and the alleged sayings which contradict the Quran as blaspheming the Prophet and the Quran.

(http://www.newageislam.com/islamic-ideology/naseer-ahmed,-new-age-islam/does-the-quran-ask-us-to-follow-the-sunnat-of-the-prophet?/d/112243)

ترجمہ: احادیث کی تدوین 9ویں صدی میں انجام پذیر ہوئی جیسا کہ امام ترمذی کی وفات (ازبک892 ء) میں ہوئی، امام بخاری کی وفات (ازبک 870) میں ہوئی، ابو دائود کی وفات (فارس 889 ء) میں ہوئی، ابن ماجہ کی وفات (فارس 887 ء) میں ہوئی، النسائی کی وفات (فارس 915) میں ہوئی، مسلم بن الحجاج کی وفات (فارسی 875) میں ہوئی، ابن حنبل اور کئی دیگر کی وفات (عرب 855) میں ہوئی۔ جو کہ صحاح ستہ میں سے چھ اولین محدثین کی کتابیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام چھ بڑے محدثین عباسیوں کے دور میں اسلام کے سنہرے دور کے ہم عصر ہیں اس لئے اس امر کے امکانات ہیں کہ ان احادیث کی تدوین اسلام کو سیاسی مصلحتوں کے تابع رکھنے کے لئے ایک سیاسی منصوبہ ہو۔ احادیث ہر موضوع پر قرآن سے متصادم ہیں اور رسول اللہ (ﷺ) کے یہ مبینہ اقوال مستند ہیں تو پھر ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی ساری زندگی قرآن کے پیغام کے خلاف تبلیغ و اشاعت میں بسر کی ہے! واضح طور پر یہ امر کسی کے تصور سے بھی پرے ہے۔ اور اسی وجہ سے ہمیں حدیث کو شیطان کا کام قرار دینا چاہیے اور جو مبینہ بیانات قرآن سے متصادم ہیں انہیں قرآن کریم اور نبی ﷺ کی توہین قرار دینا چاہیے۔ (http://www.newageislam.com/urdu-section/naseer-ahmed,-new-age-islam/does-the-quran-ask-us-to-follow-the-sunnat-of-the-prophet?--کیا-قرآن-ہمیں-نبی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-کی-سنت-کی-پیروی-کرنے-کا-حکم-دیتا-ہے؟/d/112612)

جناب نصیر احمد کے مذکورہ بیان کی اگر جرح کی جائے تو گفتگو کافی طویل ہو جائے گی اسی لئے اس تنازع کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ قرآن سے مراجعت کی جائے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ اتباع رسول ﷺ اور آپ ﷺ کی سنت و فرمودات کے حوالے سے قرآن کیا پیغام دیتا ہے :

قرآن میں اللہ کا فرمان ہے:

    مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (4:80)

ترجمہ: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمہیں ان کے بچانے کو نہ بھیجا۔ (کنز الایمان)

    وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (4:64)

ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (کنز الایمان)

    إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (24:51)

ترجمہ: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے کہ عرض کریں ہم نے سنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے۔ (کنز الایمان)

    فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (4:65)

ترجمہ: تو اے محبوب! تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائئیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔ (کنز الایمان)

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (8:24)

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجا تا ہے اور یہ کہ تمہیں اس کی طرف اٹھنا ہے۔ (کنز الایمان)

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (58:9)

ترجمہ: اے ایمان والو تم جب آپس میں مشورت کرو تو گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کی مشورت نہ کرو اور نیکی اورپرہیزگاری کی مشورت کرو، اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف اٹھائے جاؤ گے۔ (کنز الایمان)

    وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا (4:61)

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ (کنز الایمان)

    يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا (33:66)

ترجمہ: جس دن ان کے منہ الٹ الٹ کر آگ میں تلے جائیں گے کہتے ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔ (کنز الایمان)

    وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا (33:36)

ترجمہ: اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صر یح گمراہی بہکا۔ (کنز الایمان)

                       وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (4:115)

ترجمہ: اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔ (کنز الایمان)

                       لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (24:63)

ترجمہ: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے بیشک اللہ جانتا ہے جو تم میں چپکے نکل جاتے ہیں کسی چیز کی آڑ لے کر تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا ان پر دردناک عذاب پڑے۔ (کنز الایمان)

                       إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا (4:150) أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (4:151)

ترجمہ: وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں- یہی ہیں ٹھیک ٹھیک کافر اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (کنز الایمان)

 محترم قارئین ! اگر آپ بنظر غائر قرآن کی مذکورہ بالا آیتوں کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ قرآن میں اللہ نے رسول کے پکار نے کو اپنا پکار نا قرار دیا ہے ۔ رسول کے فیصلہ کے بعد ایمان والوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مانیں یا نہ مانیں بلکہ انہیں رسول ﷺ کے احکام پر سر تسلیم خم کرنا ناگزیر اور لازمی و ضروری ہے۔ رسول کو واجب الاتباع نہ ماننا صریحا قرآن کی آیتوں (4:64-24:51) کا انکار ہے اور قرآن مجید کی کسی ایک آیت کا بھی انکار پورے قرآن کا انکار ہے۔ اور جو چیز سنت رسول ﷺ سے ثابت ہو وہ بھی اسی طرح واجب العمل ہے جس طرح کوئی چیز قرآن سے ثابت ہو ۔ اس کی دلیل میں مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف لطیف نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں :

‘‘غور کیجئے بہت سے وہ احکام ہیں جو قرآن مجید میں مذکور نہیں ۔ صرف حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے اور وہ بھی قرآن کی طرح واجب العمل قرار پائے مثلاً

(1) ’’ اذان ‘‘ قرآن پاک میں کہیں مذکور نہیں کہ نماز پنج گانہ کیلئے اذان دی جائے مگر اذان عہد رسالت سے لے کر آج تک شعار اسلام رہی ہے اور رہے گی۔

(2)نماز جنازہ ، قرآن میں اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں ۔ مگر یہ بھی فرض ہے اس کی بنیاد ارشاد رسول ہی ہے۔

(3) بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا قرآن میں کہیں حکم نہیں ۔ مگر تحویل قبلہ سے پہلے یہی نماز کا قبلہ تھا یہ بھی صرف ارشاد رسول ہی سے تھا۔

(4) جمعہ وعیدن کے خطبے کا کہیں قرآن میں حکم نہیں مگر یہ بھی عبادت ہے اس کی بنیاد صرف ارشاد رسول ہی ہے ۔۔۔ اور وہ بھی اس شان سے کہ اگر اس میں کوئی کوتاہی ہوئی تو کوتاہی کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ۔’’ (بحوالہ : مقدمہ نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری مصنفہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ،صفحہ ۹)

اس کے بعد شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

‘‘علاوہ ازیں قرآن خدا کی کتاب ہے ، واجب القبول ہے، یہ کیسے معلوم ہوا؟ اللہ عز وجل نے آسمان سے لکھی لکھائی جلد بندھی ہوئی کتاب تو نازل نہیں کیا اور اگر لکھی لکھائی جلد بندھی بندھائی کتاب اتارتا تو کیسے معلوم ہوتا کہ یہ خدا کی کتاب ہے کہیں سے بھی اڑ کر آسکتی ہے کوئی فریب کار کسی خفیہ طریقہ سے کہیں پہنچاسکتا ہے۔ اگر جبرئیل یا کوئی فرشتہ لے کر آتا تو کیسے پہچانتے کہ یہ جبرئیل یا فرشتہ ہے۔ کوئی جن ، کوئی شیطان ، کوئی شعبدہ باز یہ کہہ سکتا ہے کہ میں جبرئیل ہوں میں فرشتہ ہوں یہ خدا کی کتاب لایا ہوں غرضیکہ رسول کے مطابق ماننے سے انکار کے بعد قرآن کے کتاب اللہ ہونے پر کوئی یقینی قطعی دلیل نہیں رہ جاتی ،ساری دلیلوں کا منتہا یہ ہے کہ رسول نے فرمایا ۔ یہ خدا کی کتاب ہے ، یہ جبرئیل ہیں، یہ آیت لے کر آئے ہیں۔ کتاب اللہ کی معرفت اور کتاب اللہ لے کر آنے والے ملک مقرب جبرئیل کی معرفت، قول رسول ہی پر موقوف ہے۔ اگررسول کا قول ہی نا قابل قبول ہوجائے توکتاب اللہ کاکوئی وزن نہیں رہ جائے گا۔ غورکیجئے رسول نے لاکھوں باتیں ارشاد فرمائیں انہیں میں یہ فرمایا۔ مجھ پر یہ قرآن نازل ہوا۔ مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مجھ پر یہ سورت نازل ہوئی سننے والے صحابہ کرام نے ان کو کتاب اللہ جانااور مانا اور جن ارشادات کے بارے میں یہ نہیں فرمایا، احادیث ہوئیں۔ اب کوئی بتائے ایک منہ سے دو قسم کی باتیں نکلیں ایک قسم کی باتیں مقبول اور دوسری مردود یہ کس منطق سے درست ہوگا ایک قسم کو مردود قرار دینے کا مطلب ہوگا دوسری قسم کو بھی مردود قرار دینا۔ غرضیکہ حدیث کے ناقابل قبول ماننے کے بعد قرآن کا بھی ناقابل قبول ہونا لازم ہے’’۔ (بحوالہ : مقدمہ نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری مصنفہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ،صفحہ ۱۲)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/jurisprudential-position-prophet-pbuh-his/d/116980

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..