New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 07:36 PM

Urdu Section ( 31 Oct 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is It Possible To See Allah Almighty Through The Corporeal Eyes? Part-6 کیا ان مادی نگاہوں سے ذات باری تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے؟

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

31 اکتوبر 2018

واقعہ معراج کب پیش آیا ؟

چونکہ دیدار الٰہی کا معاملہ واقعہ معراج سے متعلق ہے اسی لئے احناف کا نظریہ پیش کیا جائے اس سے قبل واقعہ معراج کی مختصر تاریخ اور اس کے متعلق محدثین کے اقوال کا جان لینا بھی ضروری ہے ۔ بکثرت علماء و محدثین کی یہی رائے ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل پیش آیالیکن علامہ نووی نے لکھا کہ متقدمین عظام ، جمہور محدثین اور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ واقعہ معراج بعثت کے سولہ ماہ بعد پیش آیا اور علامہ سبکی نے اس بات پر تمام کا اجماع نقل کیا ہے کہ معراج کا واقعہ مکہ میں ہوا لیکن مختار ہمارے شیخ ابو محمد دمیاطی کا وہ قول ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ معراج ہجرت سے ایک سال قبل ہوئی ۔ اور واقعہ معراج کی تاریخ کے حوالے سے سید جمال الدین محدث نے روضۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ معراج کا واقعہ ماہ رجب کی ستائیس تاریخ کو پیش آیا اور حرمین شریفین میں یہی تاریخ مروج ہے اور امام نووی نے اپنے فتاویٰ میں لکھا کہ معراج ربیع الاول میں ہوئی جبکہ ایک قول یہ بھی ہے کہ معراج ربیع الاخر کے مہینے میں ہوئی اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مضان میں ہوئی اور ایک قول شوال کا بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی اس بارے میں متعدد اقوال ہیں ۔ (ملا علی بن سلطان محمد القاری حنفی متوفی ۱۰۱۴ ۔ شرح الشفاء علی ہامش نسیم الریاض ج ۲ ص ۲۴۴ ، مطبوعہ دار الفکر بیروت۔ ملخصاً شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی ، ج ۱ ص ۷۱۴)

مذکورہ گفتگو سے یہ واضح ہے کہ واقعہ معراج کے حوالے سے روایات میں کافی اختلاف اور تعارض پایا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ واقعہ معراج مختلف کتب حدیث میں تیس سے زائد صحابہ کرام سے مروی ہے اور کسی ایک حدیث یا روایت میں بھی معراج کا واقعہ تفصیل کے ساتھ مکمل موجود نہیں ۔ مثلاً صحیح بخاری کی کسی حدیث یا کسی بھی روایت میں معراج کی رات مسجد اقصی جانے کاکوئی ذکر نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر امام مسلم اور امام نسائی نے اپنی اپنی کتابوں میں کیا ہے ، مزید یہ کہ کسی روایت میں شق صدر کا کوئی حوالہ نہیں تو کسی روایت یا حدیث میں براق پر سواری کا ذکر نہیں ۔ یونہی امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھے جانے کی کوئی روایت نقل نہیں کی بلکہ اس روایت کو امام مسلم ، امام نسائی اور دیگر محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ، اسی طرح صحاح کی کسی بھی کتاب میں برزخ کے حالات و واقعات دیکھنے کے حوالے سے کوئی روایت نہیں ہے بلکہ ان روایات کو امام بیہقی ، امام ابن جریر ، حافظ ابن کثیر علامہ حلبی اور دیگر محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ اس کی وجہ محدثین یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا واقعہ صرف ایک بار نہیں بلکہ متعدد مواقع پر متعدد صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمایا ہے اور آپ ﷺ نے ہر شخص کے سامنے معراج کا واقعہ اس کی ذہنی استعداد اور فہم و فراست کی سطح کے مطابق بیان کیا اس وجہ سے واقعہ معراج کے حوالے سے پائی جانے والی روایات غیر مربوط اور باہم متعارض ہیں۔ (ملخصاً شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی ، ج ۱ ، ص ۷۱۵)

شب معراج دیدار الہٰی کے متعلق علماء احناف کانظریہ:

 علامہ بدرالدین عینی حنفی لکھتے ہیں :

‘‘اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما رویت کی نفی کرتی ہیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما رویت باری کا اثبات کرتے ہیں، ان میں سے موافقت ہوگی ، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ روایت بصری کا انکار کرتی ہیں اور حضرت ابن عباس رویت قلبی کا اثبات کرتے ہیں، امام خزیمہ نے کتاب التوحید میں بہت تفصیل سے شب معراج میں رویت باری کو ثابت کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے ، ایک مرتبہ سر کی آنکھوں سے اور ایک مرتبہ دل کی آنکھوں سے ۔ (علامہ بدر الدین محمد بن عینی حنفی متوفی ۸۵۵ ھ ، عمدۃ القاری ج ۱۵ ص ۱۹۵ ، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر ، ۱۳۴۷ ھ ۔ بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی ، ج ۱ ص ۷۱۱)

علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی زیادہ مشہور روایت یہ ہے کہ آپ نے شب اسراء اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے، یہ حدیث حضرت ابن عباس سے متعدد اسانید کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث حضرت ابن عباس کی اس روایت کے منافی نہیں ۔ کہ آپ نے اپنے رب کو دل سے دیکھا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

ما کذب الفؤاد ما راٰی ، ما ذاغ البصر و ما طغیٰ (النجم)

 آپ کی آنکھ نے جو جلوہ دیکھا دل نے اس کی تکذیب نہیں کی، آپ کی نظر ایک طرف مائل ہوئی نہ حد سے بڑھی۔

امام حاکم ، امام نسانی او رامام طبرانی کی روایات

امام حاکم ، امام نسانی او رامام طبرانی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے (بلا واسطہ) کلام کے ساتھ حضرت موسیٰ کو خاص کر لیا اور حضرت ابراہیم کو خلیل ہونے کے ساتھ خاص کرلیا اور حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رویت کے ساتھ خاص کر لیا اس سے مراد رویت بصری ہے نہ کہ رؤیت قلبی ، کیونکہ رویت قلبی سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ ہر نبی کو حاصل ہے اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ خلیل ہونااور ہمکلام ہونا بھی سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے پھر ہمکلام ہونا حضرت موسیٰ کی اور خلیل ہونا حضرت ابراہیم کی خصوصیت کیسے رہی، اس کا جواب یہ ہے کہ ہر چند کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام علی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہوئے اور آپ خلیل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے محبوب بھی ہیں، لیکن حضرت موسیٰ کاکلیم ہونا اور حضرت ابراہیم کا خلیل ہونا ایک وصف مشہور تھا، دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے زمین پر ہم کلام ہوا اور سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ عرش پر ہمکلام ہوا۔ (علامہ شہاب الدین خفاجی مصری حنفی متوفی ۱۰۶۹ھ، نسیم الریاض ج ۲ ص ۲۸۸-۲۸۷ ، مطبوعہ دار الفکر بیروت ۔ بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی ، ج ۱ ص ۷۱۱)

ملا علی قاری حنفی نے بھی اختصار کے ساتھ یہی لکھا ہے۔ (ملا علی بن سلطان محمد القاری حنفی حنفی متوفی ۱۰۱۴ ۔ شرح الشفاء علی ہامش نسیم الریاض ج ۲ ص ۲۸۸-۲۸۷ ، مطبوعہ دار الفکر بیروت۔ بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی ، ج ۱ ص ۷۱۱)

رؤیت باری کے حوالے سے صوفیائے کرام اور متعدد محدثین کی رائے

صوفیا ء عظام یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس طرح قریب ہوئے جوان کی شان کے لائق ہے اور مازاغ البصرکی تفسیر میں یہ کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اللہ کے جلوہ سے نہیں ہٹی، آپ جنت اوراس کی زینت کی طرف ملتفت ہوئے نہ جہنم اوراس کے شعلوں کی طرف متوجہ ہوئے بلکہ جمال ذات کو محویت سے دیکھتے رہے اور وماطغی کی تفسیر میں کہا آپ صراط مستقیم سے نہیں ہٹے ، ابو حفص سہر دردی نے کہا آپ کی نظر بصیرت میں کمی نہیں ہوئی اور بصر نے بصیرت سے تجاوز نہیں کیا اور سہل بن عبداللہ تستری نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو دیکھا نہ کسی اور شئے کو وہ صرف جمال ذات کو دیکھتے رہے اور صفات الہٰیہ کا مطالعہ کرتے رہے او رمیں یہ کہتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اورآپ ہی اپنے رب کے اس طرح قریب ہوئے جو آپ کی شان کے لائق ہے۔ (علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ۱۲۷۰ھ ، روح المعانی ج۱۵ ص۷- ۶ ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ۔ بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی ، ج ۱ ص ۷۱۴)

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-1/d/116668

URL for Part-2: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-2/d/116688

URL for Part-3: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-3/d/116705

URL for Part-4: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-4/d/116722

URL for Part-5: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-5/d/116743

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-6/d/116760

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..