مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
30 اکتوبر 2018
اب تک کی گفتگو سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ان مادی نگاہوں سے ذات باری تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے اور ہمارے نبی ﷺ کے حق میں واقع اور اسلامی متون کی روشنی میں ثابت بھی ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ بعض اجلہ صحابہ کرام کے درمیان سے اس کا انکار بھی منقول ہے جیسا کہ حدیث عائشہ سے واضح ہے ، لیکن صحابہ کرام کی اکثریت حدیث عائشہ کے مقابلے میں حضرت ابن عباس کی حدیث کو ترجیح دیتی ہے جیسا کہ ماسبق میں گزرا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعد کے ادوار میں علماء ، فقہاء ، محدثین اور مفسرین کی غالب اکثریت کا بھی ہمیشہ وہی موقف رہا ہے جو حضرت ابن عباس کی حدیث سے واضح ہے ، حتیٰ کہ معاصر ین میں امام اہلسنت مجدد مائۃ ماضیہ و حاضرہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی (رحمہ اللہ ) نے بھی اپنے فتویٰ میں حضرت ابن عباس کے ہی قول کو ترجیح دی اور انہیں کے موقف کو ثابت کیا اور دیوبندی فرقہ کے ایک قدر آور عالم مولانا الیاس گھمن نے بھی اپنے فتویٰ میں اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ بحیثیتِ خصوصیتِ خاصہ حضور پر نور نبی اکرم ﷺ کے حق میں ذات باری تعالیٰ کا دیدار حق اور ثابت ہے بلکہ انہوں نے اپنے فتویٰ میں حدیث عائشہ کی وہ توجیہ اور حدیث ابن عباس کے ساتھ اس کی وہ تطبیق بھی پیش کی ہے جو علمائے سلف سے منقول ہے ، باوجود اس کے کہ علمائے دیوبند کے نزدیک نبی ﷺ کی شان و عظمت کا کوئی بھی پہلو ثابت کرنے سے بزم خویش ان کی توحید خالص کے نظریہ پر زد پڑتی ہے جیساکہ ان کی کتابوں سے واضح ہے ۔ ان تمام حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے حق میں ذات باری تعالیٰ کا دیدار کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔ ماسبق میں ہم نے اس بارے میں علمائے مالکیہ کا نظریہ مطالعہ اب اس حصے میں حنابلہ اور شوافع کا موقف پیش کا جاتا ہے ، جس کا ماخذ علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ کی شرح مسلم ہے جس میں انہوں نے ان علماء کے اقوال درج کئے ہیں ۔
علامہ غلام رسول سعدی رحمہ اللہ اپنی کتاب شرح مسلم میں رقمطراز ہیں :
شب معراج دیدار الہٰی کے متعلق علماء حنبلیہ کا نظریہ:
حافظ ابن کثیر حنبلی لکھتے ہیں :
‘‘امام ترمذی اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا عکرمہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا :
لا تدرکہ الابصار و ھو یدرک الابصار (الانعام: ۱۰۳)
آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں او روہ سب آنکھوں کا ادراک کرتاہے۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا تم پر افسوس ہے یہ اس وقت ہے جب وہ اس نورکے ساتھ تجلی فرمائے جو اس کا نور سے اور وہ غیر متناہی نور ہے او ربے شک آپ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے ’’۔
رؤیت باری اور کلام ربانی کا حضرت سیدنا محمد ﷺ اور حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم کیا جانا :
‘‘نیز امام ترمذی نے روایت کیا ہے کہ کعب کی حضرت ابن عباس سے میدان عرفہ میں ملاقات ہوئی ،انہوں نے کسی چیز کے متعلق حضرت ابن عباس سے سوال کیا، پھر اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھے ، حضرت ابن عباس نے کہا ہم بنو ہاشم ہیں کعب نے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنی رویت اور اپنے کلام کو حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ کے درمیان تقسیم کر دیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دوبار کلام فرمایا اور حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دو بار دیکھا’’۔
حضرت عائشہ اور مسروق کا مکالمہ:
‘‘اور مسردق نے کہا میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ حضرت عائشہ نے فرمایا تم نے ایسی بات کہی ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، میں نے تھوڑی دیر بعد یہ آیت پڑھی:
لقد راٰی من آیات ربہ الکبریٰ (النجم :۱۸)
ترجمہ: بے شک انہوں نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں ضرور دیکھیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس سے مراد جبرائیل ہے جو شخص تم کو یہ خبر دے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ،یا آپ نے کسی حکم کو چھپالیا یا آپ مغیبات خمسہ کو جانتے تھے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ،البتہ آپ نے جبرائیل کو دیکھا تھا ، اور آپ نے جبرائیل کو ان کی اصل صورت میں صرف دو بار دیکھا ہے ، ایک مرتبہ سد برۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک مرتبہ اجیاد میں ، ان کے چھ سو پر تھے اور انہوں نے افق کو بھر لیا تھا۔
خلت (اللہ سے دوستی کا تاج) حضرت ابراہیم کے لیے ، کلام حضرت موسیٰ کے لیے اور رویت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ؛ متعدد روایتیں:
‘‘امام نسانی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ کیا تم کو اس پر تعجب ہے کہ خلت حضرت ابراہیم کے لیے ہو، اور کلام حضرت موسیٰ کے لیے اور رویت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ، اور صحیح مسلم میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ! آپ نے فرمایا وہ ایک نور ہے میں نے اس کو جہاں سے بھی دیکھا نور ہی نور ہے اور مسلم کی ایک روایت میں ہے میں نے نور کو دیکھا ، محمد بن کعب روایت کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ، آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا ہے ، اور امام ابن جریر نے بعض صحابہ سے روایت کیا ہے ، ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن میں نے اس کو اپنے دل سے دوبار دیکھا ہے ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ثم دنی فتدلیٰ ۔(حافظ عماد الدین ابن کثیر متوفی ۷۷۴ ھ ۔ تفسیر ابن کثیر ج ۶ ص ۴۴۸ ۔ ۴۴۷ ، مبوعہ ادارہ اندلس بیروت ۱۳۸۵ ھ ۔ بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی ۔ج۱۔ ص ۷۰۷)’’
حافظ ابن کثیر کا موقف اور علامہ غلام رسول سعدی کا موقف
‘‘حافظ ابن کثیر اس کے قائل ہیں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھا دل کی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہماکی نفی کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے پر محمول کرتے ہیں اور حضرت ابن عباس کے بات کو دل کی آنکھ سے دیکھنے پر محمول کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک مختار یہ ہے کہ آپ نے سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور حضرت عائشہ کے انکار کی توجیہہ یہ ہے کہ وہ رویت علی درجہ الاحاطہ کی نفی کرتی ہیں’’۔
شب معراج دیدار الہٰی کے متعلق شوافع کا نظریہ اور حدیث عائشہ پر جرح از علامہ یحییٰ بن شرف نودی شافعی:
‘‘شب معراج دیدار الہٰی کے متعلق علماء شافعیہ کا نظریہ؛
علامہ یحییٰ بن شرف نودی شافعی لکھتے ہیں اس بحث میں اصل چیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو حضرت ابن عباس کے پاس بھیجا اور ان سے اس مسئلہ میں استفسار کیا، حضرت ابن عباس نے فرمایا حضرت سید نامحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے انکار سے اس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ حضرت عائشہ نے یہ نہیں کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے میں نے اپنے رب کو نہیں دیکھا حضرت عائشہ نے اپنے طور سے قرآن مجید سے استدلال کرکے یہ نتیجہ نکالا ۔اور جب صحابی کوئی مسئلہ بیان کرے او ردوسرا صحابی اس کی مخالفت کرے تو اس کا قول حجت نہیں ہوتا او رجب صحیح روایات کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے تو ان روایات کو قبول کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا واقعہ ان مسائل میں سے نہیں ہے جن کو عقل سے مستبط کیا جاسکے یا ان کو ظن سے بیان کیا جائے، یہ صرف اسی صورت پر محمول کیا جاسکتا ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو، اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابن عباس نے اپنے ظن اور قیاس سے یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ، علامہ معمر بن راشد نے کہا اس مسئلہ میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس کا اختلاف ہے اور حضرت عائشہ حضرت ابن عباس سے زیادہ علم نہیں ہیں، حضرت ابن عباس کی روایات رویت باری کا اثبا ت کرتی ہیں او رحضرت عائشہ وغیر ہا کی روایت رویت کی نفی کرتی ہیں اور جب مثبت اور منقی روایات میں تعارض ہوتو مثبت روایات کو منفی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ’’ (بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی ۔ج۱۔ ص ۷۰۷)
URL for Part-1:
URL for Part-2:
URL for Part-3:
URLfor Part-4:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism