مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
7/1/2017
ابو بکر شبلی:
حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ {متوفی: 334}کا تعلق اتباع التابعین کے دور سے ہے اور آپ جنید بغدادی کے مرید تھے، اس نسبت سے آپ بھی نظریہ وحدۃ الوجود کے زبردست قائل تھے۔ آپ کے تعلق سے حضرت جنید بغدادی کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ:
"لکل قوم تاج و تاج ھذ القوم شبلی" ہر قوم کا ایک تاج ہوتا ہے اور اس قوم کا تاج شبلی ہے۔
آپ کے مندرجہ ذیل اقوال سے "وحدۃ الوجود" کی تائید ہوتی ہے:
لوگوں نے ایک مرتبہ آپ سے دریافت کیا کہ توحید مجرد کے بارے میں ہمیں بتائیں، اس پر آپ نے فرمایا:
"توحید مجرد کا حال بتانے والا ملحد ہے، اس کی طرف اشارہ کرنے والا مشرک ہے، اور اس کے بارے میں بات کرنے والا بت پرست ہے"۔
لوگوں نے آپ سے تصوف سے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
"صوفی وہ ہے جو خلق سے منقطع اور ذات حق سے متصل ہو، عارف وہ ہے جو حق کے علاوہ نہ تو کچھ بولتا ہو، نہ کچھ سنتا ہو اور نہ ہی کچھ دیکھتا ہو۔ اور ذات حق کے سوا کسی اور کو اپنے نفس کا محافظ نہ جانتا ہو اور نہ ہی اس کے غیر کی کوئی بات سنتا ہو۔
وفات سے قبل لوگوں سے آپ سے کہا کہ کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ پڑھیے تو آپ نے فرمایا:
"جب غیر کا وجود ہی نہیں تو نفی کس کی کروں"
خیال رہے کہ وحدۃ الوجود کا مطلب قطعی یہ نہیں ہے کہ کائنات میں وجود حق تعالی کے علاوہ کسی بھی طرح کا کوئی عارضی یا اعتباری وجود بھی نہیں ہے اس لیے کہ وحدۃ الوجود ایک حال کا نام ہے۔ جب کسی سالک کی نظر منبع انوار اور مصدر کائنات پر ہوتی ہے تو ماسوائے ذات حق کے علاوہ نہ ہی اس کی نگاہوں میں کچھ ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کسی کی خبر ہوتی ہے۔ اور جس کی نظر اس ذات وحدہ لاشریک کی تجلیات پر ہوتی ہے اسے کثرت میں بھی وحدت نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سالک اس خاص مقام پر پہنچتا ہے تو وہ لاموجود الا ھو کی صدائیں بلند کرنے لگاتا ہے۔ اسی لیے عرفاء اور صلحاء نے یہ کہا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں وحدۃ الوجود کو نہیں سمجھ سکتا جو ذات حق میں فنائیت کے اس مقام کو حاصل نہ کر چکا ہو، کیوں کہ اس پر ماسویٰ اللہ سے غفلت کی وہ کیفیت ہی طاری نہیں ہوگی۔
گوشِ دل سے سن موحّد کا کلام
عالمِ لاہوت ہے جس کا مقام
گر ہے توحیدِ خدا تو بس یہی
کچھ نہیں ہے اور سب کچھ ہے وہی
احدیت کا نور ہے وحدت میں گم
اور وحدت پردۂ کثرت میں گم
جلوہ گر خود آپ ہے جلوہ میں گم
پردہ اُس میں اور وہ پردہ میں گم
ہر زماں اُس کی نئی پوشاک ہے
شرکتِ شرک و دوئی سے پاک ہے
آمد و شد کا یہی اعلان ہے
ہر نفس اس کی نرالی شان ہے
کون کہتا ہے کہ وہ پردہ نشیں
پردہ کے اندر ہے اور باہر نہیں
پردہ کے اندر بھی وہ پردہ نشیں
کس قدر بے پردہ ہے پوچھو نہیں
خود ہی پردہ اور پردہ میں وہی
خود ہی جلوہ اور جلوہ میں وہی
از زمیں تا آسماں ہے اس کا نور
ذرّہ ذرّہ میں اسی کا ہے ظہور
جوش میں ہے اس قدر بحرِ وجود
موجِ دریا سے ہے دریا کی نمود
آدمِ خاکی میں ہے اس کا ظہور
ریشے ریشے میں ہے ساری اس کا نور
نورکے پردے میں پنہاں ہے وہی
اور اُس پردے سے عریاں ہے وہی
ہر طرف ہر سمت ہے جلوہ نما
بس اُسی کی ذات بے چون و چرا
حور و غِلماں جن و انساں اور پری
سب ہیں اُس کے نور کی جلوہ گری
گلشن و دشت و بیاباں کو ہسار
طوطی و طاؤس و قمری ہزار
ماہ و خورشید و نجومِ آسماں
مشتری زہرہ ثریّا کہکشاں
اسپ و فیل و مرغ و ماہی گاؤ خر
کثرتِ وحدت سے آتے ہیں نظر
غور سے دیکھو تو کوئی بھی نہیں
ما سوائے ذاتِ ربُّ العالمیں
از زمیں تا آسمانِ کبریا
بس خدا ہے بس خدا ہے بس خدا
عرش سے تا فرش ہے اس کا ظہور
جوشِ وحدت میں ہے موجِ بحرِ نور
معنیِ مسجود و مسجد ہے وہی
احمد و محمود و حامد ہے وہی
خود شہود و شاہد و مشہود ہے
خود وجود و واجد و موجود ہے
آپ اپنی خود نمائی کے لیے
دونوں عالم میں خدائی کے لیے
خود حریمِ ناز سے باہر ہوا
آپ اپنے نور میں ظاہر ہوا
آپ اپنے نورپر شیدا ہوا
عاشق و معشوق کا غوغا ہوا
خود ہی اپنی ذات میں حامد ہوا*
*شیخ ابو سعید احسان اللہ
URL: https://newageislam.com/urdu-section/evolution-wahdatul-wajud-throughout-islamic/d/109643
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism