New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 10:10 AM

Urdu Section ( 11 Oct 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Do We Have absolutely no choice, But to Perform What is Predestined in Islam? Part-4 کیا بندہ تقدیر کے ہاتھوں مجبور محض ہے؟

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

11 اکتوبر 2018

قضاء و قدر کے حوالے سے گزشتہ مضامین میں ہم نے بخاری و مسلم سے جن چند منتخب احادیث کریمہ کا مطالعہ کیا ان کا خلاصہ یہ ہے کہ

        انسان کے لئے رزق، موت، بدبختی یا نیک بختی حتیٰ کہ جنت یا جہنم بھی شکم مادر میں ہی مقدر کر دیا جاتا ہے،

        ہر انسان کا فطرت پر پیدا ہونا مقدر ہو چکا ہے،

        انسان کو تدبیر کے باوجود وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے،

        انسان کی موت کا وقت اور اس کا سبب متعین ہو چکا ہے لہٰذا انسان کو صبر کرنا چاہئے ،

        جس جان کا پیدا ہونا مقدر میں لکھا جا چکا ہے اسے تدبیر کے ذریعہ روکا نہیں جا سکتا،

        تقدیر کے بھروسے عمل ترک کر دینا اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے ،

        جہنم جس کا مقدر ہو چکا ہے وہ جہنم جا کر رہے گا خواہ اس کے عمل بظاہر کتنے ہی نیک معلوم کیوں نہ ہوں،

        نذر بھی تقدیرسے ہی وابستہ ہے ،

        جس کے مقدر میں جو معصیت لکھی جا چکی ہے وہ اس کا ارتکاب کر کے رہے گا،

        حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے درمیان بھی تقدیر پر گفتگو ہوئی ،

        اللہ نے جس کے لئے جو مقرر کر دیا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں ،

        اسلام میں بری تقدیر سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے ،

        کوئی بھی انسان اپنی تقدیر سے دامن بچا کر آگے نہیں نکل سکتا ،

        طاغون کی وباء پر استقامت برتنے اور صبر کرنے کا اجر اللہ نے ایک شہید کا ثواب مقدر کر دیا ہے ،

        ایمان ، ہدایت ، روزہ ، نماز ، سکینہ اور فتح و نصرت سب اللہ کی تقدیر پر موقوف ہے ،

        کائنات کی ہر شئی کا تقدیر الہی کے ساتھ وابستہ ہے ،

        اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا اور اس پر کامل یقین رکھنا ایمان کا حصہ ہے،

        اللہ تقدیر کے مطابق اعمال انسان کے اوپر آسان فرما دیتا ہے ،

        جس کے لئے آخرت میں جو مقام مقدر ہو چکا ہے وہ وہیں جائے گا ،

        آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل تمام مخلوقات کی تقدیر لکھی جا چکی ہے،

        اللہ عز و جل اپنی مرضی کے مطابق لوگوں کے دلوں کو پھیر دیتا ہے ،

        انسان کا جنتی یا جہنمی ہونا اس کے آبا و اجداد کے صلب میں ہی مقدر کر دیا گیا ہے ،

        انسان کی عمر ، اس کا رزق اور اس کے حصول کا وقت مقدر ہو چکا ہے اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی ،

مسائل قضاء و قدر کے حوالے سے چند ضروری مبادیات اور بنیادی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد اب ہم اصل موضوع پر آتے ہیں۔ قضاء و قدر کے حوالے سے جو آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ﷺ پیش کی گئی ہیں انہیں دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کے ارادہ و اختیار اور اس کے فیصلے سے ہے کائنات کا کوئی ذرہ حتیٰ کہ انسان کے افعال اور اعمال بھی اللہ کے ارادہ و اختیار سے باہر نہیں ہیں اور انسان کا مقدر ، اس کا نیک ہونا یا معصیت پرور ہونا اس کا مومن ہونا یا کافر ہونا سب اللہ نے اس کی پیدائش سے قبل ہی لکھ دیا ہے اور یہ نظریہ اس امر کا مقتضی ہے کہ انسان اپنے کسی بھی اقوال ، اعمال و افعال کا ذمہ دار نہیں ہے ، لہٰذا اس پر بازپرس بھی انصاف کے تقاضے کے خلاف ہو گا ۔ جبکہ دوسری طرف قرآن و حدیث میں جابجا نیکیوں پر اجر و ثواب اور کفر و معصیت پر سزا و عتاب کا ذکر بھی ملتا ہے ۔ اور یہ قضاء و قدر کی ایک ایسی تفہیم ہے کہ اکثر لوگ اس کی وجہ سے ایک مغالطہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا ایک غیر معقول اور ظلم پر مبنی نظام ہے ، اس اعتراض کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ذیل میں ایک استفتاء نقل کیا جاتا ہے جو مجدد مائۃ ماضیۃ و مائۃ حاضرہ محقق اعظم کنز الکرامات اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا بریلوی قادری برکاتی (رضی اللہ عنہ وارضاہ عنا) سے کیا گیا تھا ، وہ استفتاء حسب ذیل ہے ؛

چہ می فرمایند علمائے دین دریں مسئلہ(کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں،ت)قرآن میں جس آیت کے معنی یہ ہیں کہ "اے محمد !ان اشخاص کو زیادہ ہدایت مت کرو،ان کےلئے اسلام کے واسطے مشیت ازلی نہیں ہے،یہ مسلمان نہ ہوں گے "۔اور ہر امر کے ثبوت میں اکثر آیات قرآنی موجود ہیں،تو پس کیونکر خلاف مشیت پروردگار کوئی امر ظہور پذیر ہوسکتا ہے،کیونکہ مشیت کے معنی ارادہ پروردگار عالم کے ہیں،تو جب کسی کام کا ارادہ اﷲ تعالٰی نے کیا تو بندہ اس کے خلاف کیونکر کرسکتا تھا۔اور اﷲ نے جب قبل پیدائش کسی بشر کے ارادہ اس کے کافر رکھنے کا کرلیا تھا توا ب وہ مسلمان کیونکر ہوسکتا ہے " یَہدِی مَن یَّشَآءُ"[1]۔ القرآن الکریم ۲/ ۲۷۲ کے صاف معنی یہ ہیں کہ جس امر کی طرف اس کی خواہش ہوگی وہ ہوگا۔پس انسان مجبور ہے اس سے باز پرس کیونکر ہوسکتی ہےکہ اس نے فلاں کام کیوں کیا،کیونکہ اس وقت اس کو ہدایت ازجانب باری عزاسمہ ہوگی وہ اختیار کرے گا۔علم اور ارادہ میں بین فرق ہے،یہاں من یشاء سے اس کی خواہش ظاہر ہوتی ہے۔پھر انسان باز پرس میں کیوں لایاجائے،پس معلوم ہوا کہ جب اﷲ پاك کسی بشر کو اہل جنان سے کرنا چاہتا ہے تو اس کو ایسی ہی ہدایت ہوتی ہے۔

(مرسلہ ۔از ضلع کھیری ملك اودھ موضع کٹوارہ مرسلہ سید محمد مظفر حسین صاحب خلف سید رضا حسین صاحب،تعلقدار کٹوارہ ۲۸،محرم الحرام ۱۳۲۵ھ- حوالہ ؛ العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ – جلد 29 –صفحہ 288 –رسالہ- ثلج الصدر لایمان القدر‘‘سینے کی ٹھنڈک ، ایمان تقدیر کے سبب’’)

اس استفتاء کا جواب مرحمت فرمانے سے قبل اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا بریلوی قادری برکاتی (رضی اللہ عنہ وارضاہ عنا) نے جو مختصر مقدمہ تحریر فرمایا ہے اس سے قضاء و قدر کے باب میں مسلک اہلسنت و جماعت اور مذہب سواد اعظم نکھر کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے ، مقدمہ ملاحظہ ہو ؛

‘‘اﷲ عزوجل نے بندے بنائے،اور انھیں کان،آنکھ،ہاتھ،پاؤں،زبان وغیرہا آلات و جوارح عطافرمائے اور انھیں کا م میں لانے کا طریقہ الہام کیا۔اور ان کے ارادے کا تابع وفرماں بردار کردیا کہ اپنے منافع حاصل کریں اور مضرتوں سے بچیں۔ پھر اعلی درجہ کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس نے تمام حیوانات پر انسان کا مرتبہ بڑھایا۔عقل کو ان امور کے ادراك کی طاقت بخشی۔خیر وشر،نفع وضرر یہ حواس ظاہری نہ پہچان سکتے تھے۔پھر اسے بھی فقط اپنی سمجھ پر بے کس وبے یاور نہ چھوڑا،ہنوز لاکھوں باتیں جن کو عقل خودادراك نہ کرسکتی تھی،اور جن کا ادراك ممکن تھا ان میں لغزش کرنے،ٹھوکر کھانے سے پناہ کے لئے کوئی زبردست دامن ہاتھ میں نہ رکھتی تھی۔لہذا انبیاء بھیج کر،کتابیں اتار کر ذراذرا بات کا حسن و قبح خوب جتاکر اپنی نعمت تمام وکمال فرمادی کسی عذر کی جگہ باقی نہ چھوڑی" لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ؕ"[1] (کہ رسولوں کے بعداﷲ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے-ت)حق کا راستہ آفتاب سے زیادہ واضح ہوگیا۔ہدایت وگمراہی پر کوئی پردہ نہ رہا " لَاۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّینِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۚ"[۲]کچھ زبردستی نہیں دین میں بے شك خوب جدا ہوگئی ہے نیك راہ گمراہی سے(ت)

[1] القرآن الکریم ۴/ ۱۶۵

 [۲] القرآن الکریم ۴/ ۱۶۵

(حوالہ ؛ العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ – جلد 29 –صفحہ 288 –رسالہ- ثلج الصدر لایمان القدر‘‘سینے کی ٹھنڈک ، ایمان تقدیر کے سبب’’)

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/do-absolutely-no-choice-perform-part-1/d/116564

URL for Part-2: https://www.newageislam.com/urdu-section/do-absolutely-no-choice-perform-part-2/d/116573

URL for Part-3: https://www.newageislam.com/urdu-section/do-absolutely-no-choice-perform-part-3/d/116581

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/do-absolutely-no-choice-perform-part-4/d/116606

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..