مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
(بہار ادب قسط: 17)
بنیادی طور پر صدق اور کذب دو ایسی صفات ہیں جن کا مادہ اللہ نے انسان کی جبلت میں رکھا ہے، جبکہ بیک وقت دونوں کی فطرت اور دونوں کے نوعیت یکسر متضاد ہے اور انسانی شخصیت پر ان دونوں کے اثرات بھی برعکس مرتب ہوتے ہیں۔ صدق اور کذب یعنی سچ اور جھوٹ یہی وہ ایسی دو انسانی صفتیں ہیں جو معاشرے کے اچھے، برے اور نیک و بد عناصر کے دمیان خط فاصل نمایاں کرنے والی ہیں۔ انسان کی خوش بختی اور نیک بختی کا فیصلہ انہیں دو صفات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔خالق کائنات نے انسانوں کو صدق اور کذب دونوں پر قدرت عطا کی ہے، اب یہ اس کے ذوق اور اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ صدق کا راستہ اختیار کر کے دنیا و آخرت میں خوش بختی اور نجات کو اپنا مقدر بناتا ہے یا کذب اور جھوٹ کو اپنا کر بدبختی اور ذلت و رسوائی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
جبکہ اللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں جگہ جگہ انسانوں کو سچائی اور حق کوئی کی نصیحت کی ہے اور جھوٹ، چغلی، غیبت اور گالی گلوچ سے باز رہنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جب انسان جھوٹ، دھوکہ ، مکر اور دجل و فریب میں جری ہو جاتا ہے تو پھر اس کی زبان دراز ہو جاتی ہے اور اس کی زبان پر خود اس کا بس نہیں رہتا اور اس کے بعد تلخ گوئی، بد کلامی اور گالی گلوچ کرنا اس کا معمول بن جاتا ہے۔ زبان کے اس فتنے میں مبتلاء لوگوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ زبان ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کی بنیاد پر انسان اپنے لیے یا تو جنت حاصل کرتا ہے یا جہنم خریدتا ہے، اگر وہ اپنی زبان سے انسانوں کے دلوں کو جیتتاہے تو اس کا مقدر آخرت میں جنت ہے اور اگر وہ اپنی زبان سے لوگوں کی دل آزاری کرتا ہے تو آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
ارشاد بارٰی تعالٰی ہے۔
· وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ ....... (القرآن)
"اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے"۔ (ترجمہ: عرفان القرآن –الانعام:108)
· مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ۔ (القرآن)
"وہ مُنہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے"۔ (ترجمہ: عرفان القرآن –ق:18)
· يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (القرآن)
"اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے"۔ (ترجمہ: عرفان القرآن –الحجرات:12)
· يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا۔ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا۔ (القرآن)
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو۔ وہ تمہارے لئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لئے بخش دے گا، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بیشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا"۔ (ترجمہ: عرفان القرآن –الاحزاب:70-71)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
· یا معشر من آمن بلسانہ ولم یدخل الإیمان فی قلبہ لا تغتابوا المسلمین ولا تتبعوا عوراتھم فإنہ من اتبع عوراتھم یتبع اللہ عز وجل عورتہ، ومن یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ۔
"اے وہ لوگو!جو اپنی زبان سے تو ایمان لائے مگر ان کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو۔ اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیوب کےپیچھے پڑے گا۔ اور جس کے عیوب کے پیچھے اللہ پڑے گا اسے اس کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دےگا"۔ (ابو داود)
· یا معشر النساء تصدقن فإنی رأیتکن أکثر أھل النار، فقلن: لم ذلک یا رسول اللہ؟ قال: تکثرن اللعن وتکفرن العشیر۔
"اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ دیا کرو اس لیے کہ میں نے تم عورتوں کو کثرت کے ساتھ جہنم میں دیکھا ہے۔ تو ان سب نے پوچھا: اے اللہ کے رسول اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور شوہروں کی ناشکر ی کرتی ہو۔" (بخاری)
· المسلم علی المسلم حرام دمہ وعرضہ ومالہ المسلم أخو المسلم لا یظلمہ ولا یخذلہ، التقوی ھاھنا و أومأ بیدہ إلی القلب۔
"ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، ان کی عزت و آبرو اور ان کا مال حرام ہے۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ نہ کوئی مسلمان کسی مسلمان پر زیادتی کرے اور نہ اسے بےیار و مددگار چھوڑے۔ تقویٰ یہاں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے دل کی طرف اشارہ فرمایا ۔"
· ما من شئ أثقل فی میزان العبد المومن یوم القیامۃ من حسن الخلق و إن اللہ یبغض الفاحش البذی۔
"قیامت کے دن ایک بندہ مومن کے میزان عمل میں حسن خلق سے زیادہ بھاری کوئی شئی نہیں ہوگی۔ اور اللہ تعالیٰ رب العزت یقیناًبدکلامی اور فحش گوئی کرنے والے سے نفرت کرتا ہے"۔
· عن أبي هريرة أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال أتدرون ما الغيبة قالوا الله ورسوله أعلم قال ذکرک أخاک بما يکره قيل أفرأيت إن کان في أخي ما أقول قال إن کان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يکن فيه فقد بهته
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا اللہ اور اسکے رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "غیبت اپنے بھائی کے اس عیب کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا ہے کہ جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اگر واقعی وہ عیب میر ے بھائی میں موجود ہو تب بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عیب تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تبھی تو وہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ غیب نہ ہو پھر تو پھر وہ اس پر بہتان ہوگا"۔(مسلم)
زمانے کو برا بھلا کہنا خالق زمانہ کو برا بھلا کہنا ہے۔
یہ حدیث قدسی ملاحظہ فرمائیں:
اللہ فرماتا ہے : " ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے ۔ (اس لیے کہ) وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے ، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ۔ میرے ہی دست قدرت میں تمام معاملات ہیں ۔ رات اور دن کو میں ہی پھیرتا ہوں "۔ ( بخاری)
مسلمان کو گالی دینا فسق ( گناہ ) ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ ( بخاری)
چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس کے اندر ہوں وہ مکمل منافق ہے یا اگر کسی کے اندر ان چار خصلتوں میں سے کوئی ایک بھی ہو تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت موجود ہے، یہاں تک کہ وہ اس سے باز آ جائے :
1. بات کرے تو جھوٹ بولے ۔
2. وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ۔
3. معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے ۔
4. اور جب کسی سے جھگڑا کرے تو بد کلامی اور گالی گلوچ کرے ( بخاری)۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ "انسان کا اپنے والدین کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: " اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا کوئی انسان اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے ؟ “ فرمایا: " ہاں ! انسان جب کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے ۔ جب یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے " ( مسلم)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے زبان اور شرمگاہ کے شر سے محفوط کر دیا وہ جنت میں داخل ہو گیا"۔ (ترمذی)
ہر صبح انسانی جسم کے تمام اعضاء عاجزی کے ساتھ زبان حال سے کہتے ہیں تو اللہ سے ڈرتی رہ، (اس لیے کہ) ہم سب تیرے تابع ہیں اگر تو درست رہی تو ہم سب درست رہیں گے اور اگر تو بگڑ گئی تو ہم سب بگڑ جائیں گے ۔ (ترمذی)
نبی ﷺ نے فرمایا کہ :ایک بندہ کوئی ایسا کلمہ کہتا ہے کہ جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو اور وہ اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کرتا، جبکہ اس کی وجہ سے اللہ اس کے درجات بلند کردیتا ہے۔ اور ایک بندہ کوئی ایسا کلمہ کہتا ہے کہ جس سے اللہ کی ناراضگی حاصل ہو اور وہ اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کرتا جبکہ وہ اس کی وجہ سے دوزخ میں جاگرتا ہے۔ (بخاری )
جو شخص مجھے اس چیز کی ضمانت دے جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیا ن ہے (یعنی زبان) اور جو اس کی دونوں رانوں کے درمیان ہے (یعنی شرم گاہ) تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (بخاری)
گفتگو شروع کرنے سے پہلے چند منٹوں اور سیکنڈوں کے لیے ہی سہی لیکن ایک بار اس پر غور کر لینا چاہیے اگر چہ بات مختصر ہو یا مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔ پہلے تولنے اور اس کے بعد بولنے کا اصول ہر وقت نگاہوں کے سامنے رہنا چاہیے۔ ایک مسلمان پر فرض ہے کہ اپنی باتوں میں حق و صداقت کو ملحوظ خاطر رکھے، سچ اور حق بات کہے، انصاف کی بات کرے، سچی گواہی دے، سچا وعدہ کرے اور سچا اقرار کرے۔ اپنے والدین، بڑی عمر کے افراد، اہل علم، اساتذہ اور رشتے داروں کے ساتھ گفتگو بہترین انداز میں کی جائے۔ گفتگو کرنے کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ گفتگو کی اسلامی اور علاقائی تہذیب و ثقافت اور آداب ملحوظ رکھے جائیں اور نرمی کے ساتھ پہلے سامنے والے کی بات غور سے سنی جائے اور اس کی بات مکمل کے بعد ہی اپنی بات شروع کیا جائے۔
جاری...................................
URL: