مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
26 جولائی 2019
اللہ کی بے شمار مخلوقات میں انسان کو تمام پر فضیلت اور فوقیت اس لئے حاصل ہے کہ انسان صاحب عقل اور ذی شعور بنا کر پیدا کیا گیا ہے ۔ اس کائنات کی بیشتر چیزیں اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہیں ، اس کائنات میں شاید ہی کوئی ایسی شئی ہو جس سے انسان آج متمتع و فیضیاب نہ ہو رہا ہو۔ قدرت کا سب سے حسین شاہکار انسان کو بنایا گیا ۔بحر و بر کی سلطانی انسان کو عطا کی گئی۔ پاکیزہ اور پسندیدہ غذاؤں سے رزق انسان کو مہیا کرایا گیا۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (17:70)
ترجمہ: اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔ عرفان القرآن
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (95:4)
ترجمہ: بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔ عرفان القرآن
نیز یہ آیات بھی ملاحظہ ہوں:
قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (17) مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (18) مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ (19) ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (20) ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (21) ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ (22) كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ (23) فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ (24) أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (25) ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا (26) فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا (27) وَعِنَبًا وَقَضْبًا (28) وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا (29) وَحَدَائِقَ غُلْبًا (30) وَفَاكِهَةً وَأَبًّا (31) مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ (80:32)
ترجمہ: ہلاک ہو (وہ بد بخت منکر) انسان کیسا نا شکرا ہے (جو اتنی عظیم نعمت پا کر بھی اس کی قدر نہیں کرتا) - اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے، نطفہ میں سے اس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعین فرما دیا - پھر (تشکیل، ارتقاء اور تکمیل کے بعد بطنِ مادر سے نکلنے کی) راہ اس کے لئے آسان فرما دی - پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں (دفن) کر دیا گیا - پھر جب وہ چاہے گا اسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کرے گا - یقیناً اس (نافرمان انسان) نے وہ (حق) پورا نہ کیا جس کا اسے (اللہ نے) حکم دیا تھا - پس انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کی طرف دیکھے (اور غور کرے) - بیشک ہم نے خوب زور سے پانی برسایا - پھر ہم نے زمین کو پھاڑ کر چیر ڈالا - پھر ہم نے اس میں اناج اگایا - اور انگور اور ترکاری - اور زیتون اور کھجور - اور گھنے گھنے باغات - اور (طرح طرح کے) پھل میوے اور (جانوروں کا) چارہ - خود تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لئے متاعِ (زیست)۔ عرفان القرآن
اللہ کی رضا جوئی انسان کا ایک واحد مقصدِ حیات
لیکن دنیا کا نظام یہ ہے کہ جسے جتنی زیادہ سہولیات دی جاتی ہیں اور جسے جتنے عظیم مراعات حاصل ہوتے ہیں اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی عظیم ہوتی ہے۔ لہٰذا، ہمیں یہ سوچنا ہے کہ انسان کہ جس کے لئے یہ بزم کائنات آراستہ کی گئی ہے‘ اس کا مقصد حیات کیا ہے۔ بے شمار عقلاء اور مفکرین نے ایک کامیاب انسانی زندگی کے متعدد پیمانے وضع کئے ہیں اور انسانی زندگی کے مقصد کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا ہے۔ لوگ ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور انہیں کے قالب میں اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ لیکن بحیثیت مسلم اس سوال کا جواب ہمارے لئے قرآن سے بہتر کسی اور کتاب کے پاس نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا جب یہ سوال ہم قرآن کے سامنے پیش کرتے ہیں تو قرآن اس کا جواب ہمیں یہ دیتا ہے، ارشاد ربانی ہے؛
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (51:56)
ترجمہ: اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔ عرفان القرآن
قرآن کا پیغام بڑا واضح ہے کہ انسانوں کی تخلیق کا مقصد حقیقی اللہ کی بندگی سے اپنی زندگی کو آراستہ و پیراستہ کرنا ہے۔ لیکن اس کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان شرک کی آلودگی سے خود پاک کرے اور اس کے بعد اللہ کی بیان کردہ نشانیوں میں تدبر و تفکر کر کے حتی الامکان اس کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ (20) وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (51:21)
ترجمہ: اور زمین میں صاحبانِ ایقان (یعنی کامل یقین والوں) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں - اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔ عرفان القرآن
آسمان اور زمین کی نشانیوں کے علاوہ خود قرآن میں بھی ایسی ایسی بے شمار نشانیاں بیان کی گئی ہیں کہ انسان اگر صرف انہیں نشانیوں پر غور کر لے تو اس کی وحدانیت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا، مثلاً درج ذیل آیتیں ملاحظہ ہوں :
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (21) وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ (22) وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (23) وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (24)وَمِنْ آيَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ۚ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُجُونَ (30:25)
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں - اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں - اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن میں تمہارا سونا اور اس کے فضل (یعنی رزق) کو تمہارا تلاش کرنا (بھی) ہے۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں - اور اس کی نشانیوں میں سے یہ (بھی) ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے (بارش کا) پانی اتارتا ہے پھر اس سے زمین کو اس کی مُردنی کے بعد زندہ و شاداب کر دیتا ہے، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں - اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اس کے (نظامِ) اَمر کے ساتھ قائم ہیں پھر جب وہ تم کو زمین سے (نکلنے کے لئے) ایک بار پکارے گا تو تم اچانک (باہر) نکل آؤ گے ۔ عرفان القرآن
ہماری زندگی صرف اسی دنیا تک محدود نہیں بلکہ ہمیں موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا، اور یہ اللہ کی ایک نشانی ہے
مذکورہ آیات مبارکہ میں احیائے موتیٰ کو اللہ کی ایک نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی نشانی ہے جو وجود انسانی کی تکمیل کرتی ہے۔ اس پر اور اس جیسے دوسری آیتوں پر انسان اگر غور و فکر کرے تو اسے خود اپنی معرفت تو حاصل ہوگی ہی ساتھ ہی ساتھ اسے اللہ کی بھی معرفت کا نور نصیب ہوگا اس لئے کہ اسلام نے انسان کو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک عظیم ترین نشانی قرار دیا ہے اور انسان کی ذات کو اس کی معرفت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ۔ لیکن معرفت کا حصول صرف اس کی نشانیوں پر غور و فکر کرنے پر ہی نہیں بلکہ انہیں بطور نشانی تسلیم کرنے پر بھی منحصر ہے۔ ارشاد ربانی ہے؛
وَيَقُولُ الْإِنسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا (66) أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا (67) فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا (68) ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَٰنِ عِتِيًّا (19:69)
اور انسان کہتا ہے: کیا جب میں مرجاؤں گا تو عنقریب زندہ کر کے نکالا جاؤں گا - کیا انسان یہ بات یاد نہیں کرتا کہ ہم نے اس سے پہلے (بھی) اسے پیدا کیا تھا جبکہ وہ کوئی چیز ہی نہ تھا - پس آپ کے رب کی قسم ہم ان کو اور (جملہ) شیطانوں کو (قیامت کے دن) ضرور جمع کریں گے پھر ہم ان (سب) کو جہنم کے گرد ضرور حاضر کر دیں گے اس طرح کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے پڑے ہوں گے - پھر ہم ہر گروہ سے ایسے شخص کو ضرور چن کر نکال لیں گے جو ان میں سے (خدائے) رحمان پر سب سے زیادہ نافرمان و سرکش ہوگا ۔ عرفان القرآن
قارئین! دیکھا آپ نے کہ کس طرح مندجہ بالا آیتوں میں احیائے موتیٰ پر عقلی دلیل قائم کی گئی ہے اور کس انداز میں اس کا انکار کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب بیان کئے گئے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ کی آیتوں کا انکار نہ صرف یہ کہ کفر ہے بلکہ یہ تمرد و سرکشی اور اللہ کے بیان کردہ حدود کی خلاف ورزی اور اس کی بندگی سے بغاوت کا کھلا اعلان بھی ہے۔ اور اللہ کے احکامات سے تمرد و سرکشی کرنے والوں اور اس کی نشانیوں سے منھ پھیرنے والوں کی زجر و توبیخ اللہ نے اس انداز میں کی ہے، ارشاد ربانی ملاحظہ ہو؛
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ (36) أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ (37) أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ (38) أَمْ لَهُ الْبَنَاتُ وَلَكُمُ الْبَنُونَ (39) أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ (40) أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ (41) أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ (52:42)
یا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، (ایسا نہیں) بلکہ وہ (حق بات پر) یقین ہی نہیں رکھتے - یا اُن کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا وہ اُن پر نگران (اور) داروغے ہیں - یا اُن کے پاس کوئی سیڑھی ہے (جس پر چڑھ کر) وہ اُس (آسمان) میں کان لگا کر باتیں سن لیتے ہیں؟ سو جو اُن میں سے سننے والا ہے اُسے چاہئے کہ روشن دلیل لائے - کیا اس (خدا) کے لئے بیٹیاں ہیں اور تمہارے لئے بیٹے ہیں - کیا آپ اُن سے کوئی اُجرت طلب فرماتے ہیں کہ وہ تاوان کے بوجھ سے دبے جا رہے ہیں - کیا اُن کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ وہ لکھ لیتے ہیں - کیا وہ (آپ سے) کوئی چال چلنا چاہتے ہیں، تو جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ خود ہی اپنے دامِ فریب میں پھنسے جا رہے ہیں ۔ عرفان القرآن
الغرض، انسان کا مقصد اصلی اللہ کی بندگی ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان سب سے پہلے تمام معبودان باطل کی نفی کر کے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرے اور اس کے بعد اللہ کی بیان کردہ آیات اور نشانیوں کی روشنی میں حتی المقدور اللہ کی اور خود اپنی ذات کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے، معمولات و معتقدات کے باب میں اس کے بیان کردہ حدود کی پاسداری کرے، تب جا کر انسان کو اللہ کی بندگی کی لذت نصیب ہوتی ہے اور اس کی زندگی کامیابی و کامرانی کے ساحل سے جا لگتی ہے۔ بہر کیف، بعض دیگر مذاہب کے برعکس مذہب اسلام اللہ کی بندگی کا ایک ایسا آسان اور جامع تصور پیش کرتا ہے کہ انسان ایک کامیاب زندگی کا جو بھی مسلّم پیمانہ اختیار کرے اللہ کی بندگی اس میں شامل کی جا سکتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ انسان معتقدات اور معمولات کے حوالے سے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی نہ کرے اور اس کے قائم کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/allahs-signs-purpose-human-creation/d/119325
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism