مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام
29 ستمبر 2018
سلسلۂ کلام آگے بڑھے اس سے قبل ہم بالترتیب غلام احمد پرویز صاحب کے موقف اور ان کے دلائل کا تجزیہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ تاکہ ان کی فکر میں اضطراب اور دلائل میں تضاد طشت از بام ہو سکے۔ نسخ قرآن کے حوالے سے غلام احمد پرویز صاحب کے نظریات کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد چند تاثرات سطح ذہن پر ابھرتے ہیں جنہیں ذیل میں بالترتیب درج کیا جاتا ہے:
غلام احمد پرویز صاحب شرائع سابقہ کی تنسیخ کو حق مانتے ہیں اور اسے ثابت کرنے کے لئے یہ دلیل قائم کرتے ہیں:
‘‘اہل کتاب (بالخصوص یہود) قرآن کریم اور رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف اعتراضات کرتے ہیں (قرآن کریم ان اعتراضات کا جواب دیتا ہے)۔ اسی سلسلے میں ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا (اور یہ اعتراض بڑا اہم تھا) کہ جب خدا نے انبیائے سابقین (مثلا حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہ) پر اپنے احکام نازل کر دیے تھے ، اور وہ احکام تورات وغیرہ میں موجود ہیں۔ تو پھر ان کی موجودگی میں اس نئے رسول اور نئے نبی کی ضرورت کیا تھی؟ اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ ٹھک ہے کہ خدا کی طرف سے سلسلہ رشدوہدایت حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے مسلسل چلا آ رہا ہے۔ لیکن اسکی صورت یہ رہی ہے کہ مختلف انبیاء کی وساطت سے جو وحی بھیجی جاتی تھیں ان میں ایک حصہ ان احکامات پر مشتمل ہوتا تھا جو وقتی ہوتے تھے اور ان کا تعلق خاص اسی قوم سے ہوتا تھا جس کی طرف وہ احکام بھجے جاتے تھے۔ اور انہیں انہی حالات میں نافذالعمل رہنا ہوتا تھا جو اس زمانے کے تقاضے سے پیدا ہوئے تھے۔ بعد میں جب وہ قومیں نہ رہتی یا زمانے کے تقاضوں سے و حالات بدل جاتے تو ایک اور رسول آجاتا اور وہ ان احکام کی جگہ دوسرے احکام لے آتا۔ اس طرح یہ جدید وحی اس سابقہ وحی کی قائم مقام (ناسخ) بن جاتی۔ یہ سلسلہ شروع ہی سے ایسا چلا آرہا ہے چنانچہ تم خود دیکھ رہے ہو کہ توریت کے کتنے احکام ہیں جنہیں حضرت عیسیٰ نے آکر بدل دیا ہے ( یہ بدلے ہوئے احکام انجیل میں موجودمیں)۔
دوسری بات یہ ہے کہ انسانیت کے تقاضے اور اس کی ذہنی سطح بھی اپنے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہوئی اور اوپر کو اٹھتی چلی آرہی ہے۔ اس لئے ہر قوم کو اسکے حالات اور ارتقائی سطح کے مطابق ہی احکام دیے جاتے تھے۔ ان کی سطح سے بلند احکام و قوانین روک لئے جاتے تھے۔ حتی کہ ان کے بعد دوسری قوم آتی جو ارتقائی منزل میں ان سے آگے ہوتی۔ تو وہ ‘‘روکے ہوئے’’ احکام و قوانین اس وقت نازل کر دئے جاتے۔ تنزیل وحی میں یہ اصول بھی کار فرما رہا ہے۔’’ (لغات القرآن ۔( ص 1609– مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام)
تاثر نمبر 1
مندرجہ بالا دلیل یہ تقاضا کرتی ہے کہ احکام شرعیہ میں نسخ جارے رہے اور تنسیخ کا سلسلہ بند کرنا عقلاً جائز نہیں ، خواہ وہ امم سابقہ کا دور ہو خواہ امت محمدیہ کا ، اس لئے کہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ انسانی عقل اور فکر و شعور بھی ترقی پذیر ہے ، اور یہ کہ حالات بھی ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ، نیز ترقیٔ فکر و شعور اور تبدیلیٔ حالات کی تقدیر پر بعض احکامِ شرعیہ میں نسخ اور تبدیلی شرعاً ثابت اور واقع بھی ہے۔
مثال کے طور پر یہ آیات ملاحظہ ہوں؛
وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (سورہ البقرہ آیت نمبر 109)
ترجمہ : بہت کتابیوں نے چاہا کاش تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں اپنے دلوں کی جلن سے بعد اس کے کہ حق ان پر خوب ظاہر ہوچکا ہے تو تم چھوڑو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے – (کنز الایمان)
مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں اہل کتاب نے مسلمانوں کو دین فطرت سے پھیرنے کے لئے ہر جتن کئے ، جہاں تک ان سے بن پڑا انہوں نے کمزور اور بے بس مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ بھی توڑے ، اور قرآن خود اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اہل کتاب کے ان کالے کرتوتوں کے پیچھے اصل وجہ اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر شدید بغض و عناد تھی ، لیکن اہل کتاب کی ان تمام ریشہ دانیوں کے باوجود اسلام نے مسلمانوں کو صبر کرنے اور اپنے دین پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کا حکم دیا ، اور ساتھ ہی انہیں یہ تسلی بھی دی کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے کا حکم بھی نازل فرمانے والا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اگر اہل کتاب کی ریشہ دانیاں صرف ان کے دین کی وجہ سے تھیں اور مسلمانوں کے ساتھ اہل کتاب کا یہ رویہ سرا سر ظلم تھا تو قرآن نے روز اول سے ہی مسلمانوں کو ظلم کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا حکم کیوں نہیں دیا ؟کیا اسلام ظلم پنپنے ، پھیلنے ، سہنے اور مظلومیت کی زندگی بسر کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ تو اسکا جواب ہے نہیں ! اسلام کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتا ، مگر اس کے باوجود مسلمانوں کو وقتی طور پر رکے رہنے اور اہل کتاب کے ظلم ستم کا جواب نہ دینے کا حکم اس لئے دیا گیا تھا کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کی جمعیت اتنی مضبوط نہیں تھی کہ وہ ایک بڑی اکثریت کے خلاف صف آرا ہو سکیں ، اس وقت مکہ میں مسلمانوں کے حالات ایسے تھے کہ اہل کتاب کے مقابلے میں کھڑا ہونا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ لہٰذا ، بعد میں جب حالات مسلمانوں کے لئے کچھ سازگار ہوئے اور مسلمانوں کی ایک مضبوط جمعیت بن گئی تو پھر اللہ نے اس حکم کو منسوخ کر کے یہ آیت نازل فرمائی؛
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ (سورہ التوبہ آیت نمبر 5)
ترجمہ : پھر جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو مارو جہاں پا ؤ اور انہیں پکڑو اور قید کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، (کنز الایمان)
(نوٹ : اس آیت کو بنیاد بنا کر جہاد کا جو مسخ شدہ معنی آج کے جہادی گروہ بیان کرتے ہیں اور جس طرح اس کا غلط اطلاق آج کے امن پسند شہریوں پر کرتے ہیں وہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس آیت کی رو سے بھی جہاد کا ہرگز وہ معنی نہیں جو جہادی علماء بیان کرتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین اس کی مزید تفصیلات کے لئے اسی سائٹ پر دیگر مضامین اور خاص طور پر غلام غوث صدیقی صاحب کے مضامین سے استفادہ کر سکتے ہیں)۔
دوسری مثال:
‘‘لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ’’۔ (33:52)
ترجمہ: ‘‘ان کے بعد اور عورتیں تمہیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ ان کے عوض اور بیبیاں بدلو اگرچہ تمہیں ان کا حسن بھائے مگر کنیز تمہارے ہاتھ کا مالک اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے’’۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان)
اس آیت میں واضح طور پر نبی ﷺ کو مزید عورتوں سے نکاح کرنے سے روکا گیا ہے لیکن
‘‘جب ازواج مطہرات نے عسرت اور تنگدستی کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند کر لیا اور مزید خرچ کا مطالبہ ترک کردیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی پھر بعد میں اس حکم کو منسوخ کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید ازواج کے ساتھ نکاح کی اجازت دے دی ہرچند کہ اس اجازت کے باوجود آپ نے پھر کوئی نکاح نہیں کیا وہ آیت یہ ہے،
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ -
ترجمہ : ‘‘اے غیب بتانے والے (نبی)! ہم نے تمہارے لیے حلال فرمائیں تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم مہر دو اور تمہارے ہاتھ کا مال کنیزیں جو اللہ نے تمہیں غنیمت میں دیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور پھپیوں کی بیٹیاں اور ماموں کی بیٹیاں اور خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی اور ایمان والی عورت اگر وہ اپنی جان نبی کی نذر کرے اگر نبی اسے نکاح میں لانا چاہے یہ خاص تمہارے لیے ہے امت کے لیے نہیں’’۔ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 50)۔ (ترجمہ؛ کنز الایمان) (بحوالہ ؛ مقدمہ تبیان القرآن صفحہ 79)
مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تبدیلیٔ حالات کے مطابق قرآن کے اندر بھی نسخ ثابت اور واقع ہے۔ ورنہ اگر غلام احمد پرویز کی مذکورہ دلیل کو حق بجانب مان لیا جائے تو اس سے یہ بھی ماننا لازم آئے گا کہ عرب میں اسلام کے روز اول سے اب تک حالات کے اندر کوئی تبدیلی ہی واقع نہیں ہوئی اور بعد کے ادوار میں اسلام دنیا کے جن جن خطوں تک پہنچا وہاں اس زمانے سے لیکر اب تک حالات میں نہ تو کوئی تبدیلی پیدا ہوئی اور نہ ہی کوئی تغیر رونما ہوا ، لہٰذا احکام اسلام میں بھی نسخ کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور یہ خیال سرا سر باطل ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ غلام احمد پرویز اپنی اسی کتاب ‘‘لغات قرآن کے صفحہ 1609 کے آخری پیراگراف کی آخری سطر میں لکھتے ہیں ‘‘تنزیل وحی میں یہ اصول (یعنی بعض مسائل کی تنسیخ) بھی کار فرما رہا ہے۔(لغات القرآن ۔ ص 1609– مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام)’’ ، اور پھر آگے خود ہی لکھتے ہیں ‘‘یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جو منسوخ ہو ۔ اس غیر متبدل صحیفہ آسمانی کا ایک ایک حرف اپنے مقام پر اٹل ہے اوراٹل رہے گا (لغات القرآن ۔ص 1613)’’۔ شاید ان کے نزدیک قرآن ‘‘وحی منزل’’ نہیں ۔ یا للعجب!
تاثر نمبر 2
در اصل غلام احمد پرویز صاحب نے تنسیخ کے مسئلے میں جو ٹھوکر کھائی اس کی وجہ نسخ کے بارے میں ان کا یہ نظریہ ہے؛
‘‘اس (تنسیخ) کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ خدا نے قرآن کریم میں کسی بات کا حکم دیا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اس نے سوچا کہ اس حکم کو منسوخ کر دینا چاہیے ۔ چنانچہ اس نے ایک اور آیت نازل کر دی جس سے وہ پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔ یہ حکم اس سے پہلے حکم سے بہتر ہوتا تھا۔ واضح رہے کہ اس نئی آیت میں یہ کہیں نہیں بتایا جاتا تھا کہ اس سے فلاں آیت کو منسوخ سمجھا جائے ۔ اس عقیدے کی رو سے آپ دیکھیے کہ خدا ، قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کس قسم کا تصور پیدا ہوتا ہے ۔ خدا کا تصور اس قسم کا کہ وہ آج ایک حکم صادر کرتا ہے لیکن بعد کے حالات بتا دیتے ہیں کہ وہ حکم ٹھیک نہیں تھا اس لئے وہ قرآن کریم کے اس حکم کو منسوخ کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم دے دیتا ہے ۔ قرآن کریم کے متعلق یہ کہ اس میں بے شمار آیات ایسی ہیں جن کا حکم منسوخ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی تلاوت برابر ہو رہی ہے ۔ اور یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ کونسی آیت منسوخ ہے اور کونسی ناسخ ۔ اسے لوگوں پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود اس کا فیصلہ کریں کہ کونسی آیت منسوخ ہے اور کونسی اس کی ناسخ ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تصورکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے نازل کردہ قرآنی آیات کو بھی بھول جایا کرتے تھے ۔ یا للعجب! (لغات القرآن ۔ ص 1608-1607 – مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام)’’
لیکن جمہور مفسرین نے نسخ کے جو شرعی معانی بیان کئے ہیں انہیں سامنے رکھنے کے بعد غلام احمد پرویز صاحب کی مذکورہ فکر انتہائی سطحی اور علمی اور فنی گہرائی و گیرائی سے خالی معلوم ہوتی ہے ، ان میں سے چند ذیل میں ذکر کئے جارے ہیں:
امام رازی لکھتے ہیں:
ناسخ وہ دلیل شرعی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناسخ سے پہلے جو حکم کسی دلیل شرعی سے ثابت تھا وہ حکم اب نہیں ہے اور نسخ کی یہ دلیل پہلے حکم کی دلیل سے متاخر ہوتی ہے اور اگر یہ ناسخ نہ ہوتا تو وہی حکم ثابت رہتا۔ ( تفسیر کبیر جلد 1 صفحہ 433۔ مطبوعہ دار الفکر بیروت۔ بحوالہ تبیان القرآن)
علامہ تفتازانی لکھتے ہیں:
نسخ یہ ہے کہ ایک دلیل شرعی کے بعد ایک اور دلیل شرعی آئے جو پہلی دلیل شرعی کے حکم کے خلاف کو واجب کرے۔ ( توضیح تلویح۔ جلد 2 ۔ صفحہ 31۔ مطبوعہ دارالکتب العربیہ الکبریٰ، مصر۔ بحوالہ تبیان القرآن)
علامہ میر سید شریف لکھتے ہیں:
صاحب شرع کے حق میں کسی حکم شرعی کی انتہا کو بیان کرنا نسخ ہے، اس حکم کی انتہا اللہ کے نزدیک معلوم ہوتی ہے مگر ہمارے علم میں اس حکم کا دوام و استمرار ہوتا ہے اور ناسخ سے ہمیں اس حکم کی انتہا معلوم ہوتی ہے ، اس لئے ہمارے حق میں نسخ تبدیل اور تغیر سے عبارت ہے۔ ( کتاب التعریفات۔ صفحہ 106۔ مطبوعہ المطبعۃ الخیریۃ۔ بحوالہ تبیان القرآن)
علامہ محمد عبدالعظیم زرقانی لکھتے ہیں:
کسی حکم شرعی کو دلیل شرعی سے ساقط کردینا نسخ ہے۔ (مناھل العرفان، جلد 2۔ صفحہ 107۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت۔ بحوالہ تبیان القرآن)
جاری.......
URL for Part-1:
URL for Part-2:
URL for Part-3:
URL foe Part-4:
URL for Part-5:
URL for Part-6:
URL for Part-7:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism