New Age Islam
Sun Apr 02 2023, 09:36 AM

Urdu Section ( 5 Sept 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A great tribute to prophet Ibrahim in Holy Qur’an قرآن میں حضرت ابراہیم علی بنینا علیہ السلام کی عظیم یادگار

مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام

5ستمبر 2018

اسلام تکمیل ایمان کے لئے سابقہ تمام انبیائے کرام پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم و تکریم بجا لانا فرض قرار دیتا ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ دیگر مذاہب بھی تمام انبیائے کرام کی تعظیم و تکریم کی تعلیم دیتے ہوں گے۔ اس لئے کہ موجودہ صوتحال انتہائی مایوس کن ہے ، آج آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر معزز و مقدس ہستیوں کی توہین کر کے کڑوروں اور اربوں لوگوں کی دل آزادی کی جا رہی ہے۔ جو لوگ مؤمن ہونےکے لئے صرف اللہ پر ہی ایمان لانے کو کافی سمجھتے ہیں اخلاقی طور پر انہیں بھی انبیائے کرام کی عزت اور تعظیم و توقیر لازم سمجھنا چاہئے، خواہ موضوع بحث نبی یا رسول کا تعلق کسی بھی دین سے ہو۔ اس لئے کہ انبیائے کرام صلوٰۃاللہ علیم و السلام نے جو کارنامے انجام دئے ، کفر و ظلمت اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے وہ جس انداز میں جبل شامخ بن کر ڈٹے رہے اور پیغام حق کی تبلیغ و اشاعت میں انہوں نے جیسی صعوبتیں برداشت کیں اور پیغام حق ہم تک پہنچانے میں جس خنداں پیشانی کے ساتھ وہ اپنی جانوں سے کھیل گئے ان کی اہمیت و افادیت آفاقی اور عالمی ہے، انہیں کسی خاص مذہب اور ملت کے آئینے میں نہیں دیکھا جا سکتا۔

لہٰذا، ہمارا تعلق خواہ دین عیسوی سے ہو، خواہ دین موسوی ہے ہو، خواہ دین محمدی (صلوٰۃ اللہ و علیہم السلام) سے ہو، اگر ہم خود کو مؤمن (believer) کہتے ہیں تو ہمارا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ کم از کم ہم تمام انبیاء کو عام لوگوں سے ممتاز جانیں اور ان کے بارے میں کلام کرتے وقت اپنی زبان پر کڑی نگرانی رکھیں۔ تاکہ کسی کی بھی دل آزاری نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ تمام نام صرف ایک دوسرے کے درمیان شناخت قائم کرنے اور ایک کو دوسرے سے ممیز و ممتاز کرنے کے لئے ہیں ، ورنہ بنیادی پیغام ہمیشہ سے سب کا ایک ہی رہا ہے ، اور وہ اسلام ہے۔

 اور یہی ایک واحد طریقہ ہے معاشرے میں پر امن بقائے باہمی ، امن اور ہم آہنگی قائم رکھنے کا۔ ورنہ اگر ہم دوسروں کی مذہبی شخصیات اور مذہبی قائدین کے خلاف اپنی زبان طعن دراز کریں اور ان سے توقع رکھیں کہ وہ ہمارے ساتھ امن و ہم آہنگی قائم رکھیں تو یہ ایک خیال خام ہے اور فطرت انسانی سے یکسر متضاد ہے۔

چونکہ یہ ماہ مقدس جسے اسلامی کیلنڈر میں ذی الحجہ کے نام سے جانا جاتا ہے ، اس کا تعلق اسلام کے ایک اولوالعزم پیغمبر ابو الانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم علی بنینا علیہ الصلوٰۃ و التسلیم سے ہے اور یہ مذہب اسلام میں ایک ناقابل فراموش اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں میں چند انبیاء ایسے گزرے ہیں کہ قرآن میں ان کا ذکر بڑے اہتمام کے ساتھ اللہ جل شانہ نے کیا ہے، اور ان انبیاء میں اللہ کے ایک اولوالعزم پیغمبر ابو الانبیاء حضرت سیدنا ابراہیم علی بنینا علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اللہ نے قرآن مجید کے اندر جابجا جس انداز میں آپ کا ذکر نازل کیا ہے اس سے آپ کی زندگی ہمیں صبر ، توکل اور ایثار و قربانی سے عبارت نظر آتی ہے۔ ا ن میں سے صرف ایک مقام کا ذکر یہاں میں بغیر کسی تبصرہ کے اس امید کے ساتھ نقل کرتا ہوں کہ ہم اعلاء کلمۃ الحق کی راہ میں ان کے مجاہدانہ کردار سے کچھ سبق حاصل کریں گے، اور ان کے ساتھ دیگر تمام انبیاء کرام کے حق میں محبت اور تعظیم و توقیر کے جذبات کو فروغ دیں گے۔

جب شہر بابل میں نمرود اپنی جھوٹی خدائی کا سکہ چلا رہا تھا اور بندگان خدا کو ان کی پیشانیاں اپنے قدموں میں جھکانے کے لئے مجبور کر رہا تھا ، جب لوگ بھی اس کے قدموں پر اپنی جبین قربان کرنے میں ہی عافیت مان چکے تھے، اور پوری دنیا میں خدا کا نام لینے والا کوئی نہیں تھا ، اس وقت حضرت سیدنا ابراہیم علی بنینا علیہ الصلوٰۃ و التسلیم پیغام حق کا علم لے کر اٹھتے ہیں اور آپ تن تنہاء حق کا پیغام لیکر اس سے ٹکرا جاتے ہیں جو اس دنیا میں خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بے بس ، کمزور ، فاقہ کش ، قلاش ، مفلوک الحال، شریف النفس اور کریم الطبع تو خدائی کا دعویٰ نہیں کر سکتا ، لٰہذا جو جھوٹا ہی سہی لیکن خدا بنا بیٹھا ہو اس کی طاقت و قوت ، جاہ و منصب ، دولت و ثروت اور ظلم و بربریت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ، جب حضرت سیدنا ابراہیم علی بنینا علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے اپنے معاشرے میں نعرہ توحید بلند کیا تو اس کی پاداش میں آپ کے ساتھ کیا کچھ ہوا ، کفر و طاغوت نے آپ کو نیست و نابود کرنے کے لئے کیسے حربے استعمال کئے ، اور پھر اللہ نے آپ کی مدد و نصرت کس انداز میں فرمائی ، ان تمام باتوں کا ذکر قرآن مجید کی سورہ انبیاء میں اس طرح مذکور ہے۔

‘‘وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ (51) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ (52) قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ (53) قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (54) قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ (55) قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ (56) وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ (57) فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ (58) قَالُوا مَن فَعَلَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ (59) قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ (60) قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ (61) قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ (62) قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ (63) فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ (64) ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَٰؤُلَاءِ يَنطِقُونَ (65) قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ (66) أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (67) قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ (68) قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ (69) وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (70)’’

ترجمہ: ‘‘اور بیشک ہم نے پہلے سے ہی ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے (مرتبہ کے مطابق) فہم و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ان (کی استعداد و اہلیت) کو خوب جاننے والے تھے، جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے فرمایا: یہ کیسی مورتیاں ہیں جن (کی پرستش) پر تم جمے بیٹھے ہو، وہ بولے: ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی پرستش کرتے پایا تھا، (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: بیشک تم اور تمہارے باپ دادا (سب) صریح گمراہی میں تھے، وہ بولے: کیا (صرف) تم ہی حق لائے ہو یا تم (محض) تماشا گروں میں سے ہو، (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان (سب) کو پیدا فرمایا اور میں اس (بات) پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں، اور اﷲ کی قسم! میں تمہارے بتوں کے ساتھ ضرور ایک تدبیر عمل میں لاؤں گا اس کے بعد کہ جب تم پیٹھ پھیر کر پلٹ جاؤ گے، پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سوائے بڑے (بُت) کے تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں، وہ کہنے لگے: ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کیا ہے؟ بیشک وہ ضرور ظالموں میں سے ہے، (کچھ) لوگ بولے: ہم نے ایک نوجوان کا سنا ہے جو ان کا ذکر (انکار و تنقید سے) کرتا ہے اسے ابراہیم کہا جاتا ہے، وہ بولے: اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ (اسے) دیکھ لیں، (جب ابراہیم علیہ السلام آئے تو) وہ کہنے لگے: کیا تم نے ہی ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حال کیا ہے اے ابراہیم، آپ نے فرمایا: بلکہ یہ (کام) ان کے اس بڑے (بت) نے کیا ہوگا تو ان (بتوں) سے ہی پوچھو اگر وہ بول سکتے ہیں، پھر وہ اپنی ہی (سوچوں کی) طرف پلٹ گئے تو کہنے لگے: بیشک تم خود ہی (ان مجبور و بے بس بتوں کی پوجا کر کے) ظالم (ہوگئے) ہو، پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے کر دیئے گئے (یعنی ان کی عقلیں اوندھی ہوگئیں اور کہنے لگے:) بیشک (اے ابراہیم!) تم خود ہی جانتے ہو کہ یہ تو بولتے نہیں ہیں، (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: پھر کیا تم اﷲ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں، تف ہے تم پر (بھی) اور ان (بتوں) پر (بھی) جنہیں تم اﷲ کے سوا پوجتے ہو، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے، وہ بولے: اس کو جلا دو اور اپنے (تباہ حال) معبودوں کی مدد کرو اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو، ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا، اور انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ بری چال کا ارادہ کیا تھا مگر ہم نے انہیں بری طرح ناکام کر دیا’’۔ (ترجمہ عرفان القرآن۔ سورۃ الانبیاء –آیت 70-51)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/a-great-tribute-prophet-ibrahim/d/116297


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..