New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 04:03 PM

Urdu Section ( 23 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Militancy and the West سیاست ، جنگجوئی اور مغرب

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

23جنوری 2024

گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں عالمی سیاست میں جنگجو تنظیموں کے استعمال کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ افغانستان پر روسی فوج کشی اور قبضے کے خلاف مغرب نے جنگجو تنظیم طالبان کو جنگی حکمت عملی کے حصے کے طور پر استعمال کیا اور یہ تجربہ کامیاب بھی رہا ۔لیکن سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے جبگجو تنظیموں کے استعمال کی روایت 1940ء میں یہودیوں نے شروع کی جب انہوں نے فلسطین میں اپنی صیہونی ریاست کے قیام کے لئے ایک دہشت گرد تنظیم لیہی کی بنیاد ڈالی۔ اس گروپ کے لوگ خود کو دہشت گرد کہتے تھے۔اس گروپ نے فلسطین میں فلسطینیوں کا قتل عام بھی کیا اور برطانوی سامراج کے خلاف دہشت گرردانہ کارروائیاں بھی انجام دیں۔یہ تنظیم 1948ء میں قیام اسرائیل کے بعد تحلیل ہو گئی اور اس سے وابستہ کئی دہشت گرد اسرائیل کے وزیراعظم اور وزیر بنے۔ گویا سیاسی مقاصد کے لئے دہشت گردی کے استعمال کی حکمت عملی مغرب نے اسرائیل سے سیکھی ۔ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لئے امریکہ نے اسی حکمت عملی کا استعمال کیا اور جنرل ضیاءالحق کی مدد سے طالبان کی تشکیل کرکے اسے اسلحے اور تربیت مہیا کرائی۔اسامہ بم لادن بھی امریکہ کے اس مشن میں ساتھ رہا ۔ امریکی محکمہ دفاع پنٹاگن سے اس کے تعلقات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔ لادن نے القاعدہ کی تشکیل کی اور امریکہ کو تباہ کرنے کے اپنے جذباتی نصب العین پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کی ہمدردی حاصل کی اور ہزاروں مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرکے دہشت گردی کی راہ پردھکیلا۔ امریکہ نے افغانستان سے روس کو نکالنے کے لئے جس طالبان اور اسامہ بن لادن کو استعمال کیا اسی طالبان اور لادن کے خاتمے کے بہانے اس نے افغانستان پر قبضہ کیا اور بیس برسوں تک اس پر قابض رہا۔ افغانستان پر فوج کشی کے لئے اس نے نیویارک کے ٹریڈ سینٹر پر القاعدہ کے دہشت گردانہ حملوں کو جواز بنایا جبکہ سی آئی اے کے ہی ایک سابق اہل کار ریکونو سیو ٹو نے امریکی حکومت کو حملے کے چھ ماہ قبل ہی خبردار کردیا تھا کہ ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ ہوسکتا ہے۔ اس حملے کی تیاری خود امریکہ کے اندر چل رہی تھی اور کینیڈا میں کیوبک کے ایک ہوائی اڈے کو حملوں کی رہہرسل کے لئے استعمال کیا گیا تھا ۔امریکی حکومت نے اس کی اطلاعات کو پراسرار طور سے نظرانداز کیا تھا اور بعد میں اسے کئی مقدموں میں پھنسا کر جیل میں ڈال دیا تھا۔ 7 اکتوبر کے اسرائیل پر حماس کے حملوں سے دو ماہ قبل ہی اسرائیلی فوج کی خاتون انٹلی جنس افسران نےبھی اسرائیلی فوج کے اعلی افسران کو ایک بڑے ممکنہ حملے کی تیاری کی اطلاع دی تھی لیکن اعلی فوجی افسران نے ان کی اطلاعات کوان کی خام خیالی قرار دے کر نظر انداز کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج 7 اکتوبر کے حملوں کی اندرونی انکوائری کی مخالفت کررہی ہے۔القاعدہ نے اپنے دہشت گردانہ حملوں سے امریکہ اور ناٹو ممالک کو کافی فائدہ پہنچایا۔ اس نے دہشت گردانہ حملے کرکے امریکہ اور ناٹو ممالک کو اسلامی ممالک میں فوجی مداخلت اور فوجی اڈے قائم کرنے کا جواز مہیا کیا۔ جب امریکہ اور یوروپی ممالک کا لادن سے مقصد پورا ہوگیا تو اسے ختم کرادیا اور اس کے بعد داعش نام کی ایک نئی تنظیم کھڑی کردی۔ اس بار اس تنظیم کو خلافت کا علم بردار بنا کر پیش کیا گیا کیونکہ مغربی ممالک کو مسلمانوں کی خلافت کے تئیں جذباتی وابستگی کا علم تھا۔ لہذا، ناٹو ممالک نےمسلمانوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور خلافت کے قیام کے نام پر داعش کو عراقی فوج کے اسلحے اور جنگی سازوسامان بڑی صفائی سےپہنچا دئیے اور موصل میں ابوبکر بغدادی کو خلیفہ بنا کراس کی خلافت قائم کرادی جو عراق اور سیریا کے دوتہائی علاقے پر قابض تھی۔دراصل ناٹو ممالک کو مشرق وسطی میں روس کے بڑھتے ہوئے فوجی اور معاشی دائرے کو روکنے کے لئے اس بار بھی مسلم جنگجو تنظیموں کی ضرورت تھی۔ اور اس ضرورت کو داعش ، النصرہ اور القاعدہ نے پورا کیا ۔ مسلمان خلافت کے جذباتی نعروں اور شیعہ سنی کے فروعی تنازعوں میں الجھے رہ گئے اور مغربی ممالک اہنا کام کرگئے۔مسلمانوں کو ہوش تب آیا جب داعش نے موصل سے اکھڑنے کے بعد القاعدہ ہی کی طرح مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملے کرنے شروع کردئیے اور مساجد، اسکولوں اور اسپتالوں پر حملہ کرکے معصوم مسلمانوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔

گزشتہ تین ماہ سے جاری اسرائیل حماس جنگ بھی مغرب کی اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے ۔ اسرائیل نے فلسطین میں یاسر عرفات کو کمزور کرنے اور فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے سیاسی حکمت عملی کے طور پر حماس کو تیار کیا اور اسے فنڈ مہیا کرایا۔ لیکن جب حماس نے طاقت حاصل کرنے کے بعد اس کے اثر سے نکل گیا تو اس کا قلع قمع کرنے کے لئے اس پر چڑھائی کردی۔ اس جنگ میں اسرائیلی فوج نےفلسطینی عوام کے خلاف جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن امریکہ ، برطانیہ اور یوروپی ممالک نے اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کے قتل عام کا دفاع کرکے جنگجو تنظیموں حماس، حزب اللہ اور حوثی انصاراللہ کے لئے عالم اسلام میں ایک نرم گوشہ پیدا کردیا ہے۔ جب عرب اور اسلامی ممالک کی حکومتوں نے مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیل کے حملوں سے بچانے اور انہیں غذائی اشیاء اور ادویات بہیم پہنچانے کے لئے کچھ نہیں کیا تو فلسطینی عوام اور عالم اسلام کی امیدیں انہیں جنگجو تنظیموں سے وابستہ ہو گئیں۔ دہشت گردی مخالف جنگ کی علمبردار مغربی قوموں نے غزہ کے 25000 بچوں اور عورتوں کے قتل عام کی حمایت کرکے اور عرب ملکوں کو غلام اور بے حس بنا کر ان جنگجو تنظیموں کو اپنی مقبولیت اور دائرہء اثر کو بڑھانے کا خود موقع دے دیا ہے۔اگر امریکہ ، اسرائیل اور یوروپی ممالک نے مسلم جنگجو تنظیموں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا ہوتا اور فلسطین مسئلے کا سیاسی اور سفارتی حل نکال لیا ہوتا جو ان کے لئے مشکل نہیں تھا تو آج مشرق وسطی جنگ کی آگ میں نہ جھلس رہا ہوتا اور جنگجو تنظیموں کو عالمی طور پر قبولیت نہ ملی ہوتی۔ ۔لہذا دنیا میں دہشت گرد اور جنگجو تنظیموں کی طاقت اور دائرہ اثر اور مقبولیت میں اضافے کے لئے خود امریکہ اور یوروپی ممالک ذمہ دار ہیں۔

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/militancy-west/d/131570

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..