(انقلاب ادب و ثقافت ڈیسک)
17 جولائی 2023
کمیونسٹ چیکوسلوواکیہ میں
سیاسی منحرف کے طور پر اپنی تحریروں کا آغاز کرنے کے بعد عالمی شہرت یافتہ ادیب
بن جانے والے چیک نژاد فرانسیسی مصنف میلان کنڈیرا ، گزشتہ دنوں (۱۱؍جولائی
بروز منگل) ۹۴؍
برس کی عمر میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں انتقال کر گئے
--------------
میلان کنڈیرا
--------
عالمی ادب کے سب سے نمایاں
چہروں میں سے ایک ناول نگار، شاعر، اور
مضمون نگار کے طور پر شہرت حاصل کرنے والے میلان کنڈیرا یکم اپریل ۱۹۲۹ء کو موجودہ چیک جمہوریہ
کے دوسرے سب سے بڑے شہر برنو میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے تعلیم پراگ میں حاصل
کی تھی۔ ان کے والد، لڈویک کنڈیرا، موسیقی کے ماہر اور برنو میں جانکیک یونیورسٹی
آف لٹریچر اینڈ میوزک کے چانسلر تھے۔ کنڈیرا نے پیانو بجانا اپنے والد سے سیکھا، بعد میں موسیقی، سینما اور ادب کی تعلیم حاصل
کی۔ انہوں نے ۱۹۵۲ء
میں گریجویشن مکمل کیا اور پھر پراگ اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں سینما کی
فیکلٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرر کام کیا۔ ۱۹۷۵ء
میں اُس دور کی کمیونسٹ ریاست چیکوسلوواکیہ سے رخصت ہو کر فرانس میں آباد ہو جانے
کے بعد کنڈیرا نے اپنی زندگی کے آخری تقریباً ۴۸؍
برس فرانس ہی میں گزارے۔ کنڈیرا نے اپنے ادبی سفر میں جو شہرت حاصل کی، اس کا آغاز ’’دی
جوک‘‘ یا ’’مذاق‘‘ نامی اس ناول سے ہوا تھا جو ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا تھا اور جس کا مرکزی کردار ایک
ایسا نوجوان ہے، جس کو ایک بے ضرر سا مذاق کرنے پر کمیونسٹ پارٹی اور یونیورسٹی
دونوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ کنڈیرا کی مشہور ترین تصنیفات میں ان کا ناول ’’وجود
کی ناقابل برداشت لطافت‘‘ بھی شامل ہے، جو اس منظر نامے کے ساتھ شروع ہوتا ہے کہ ۱۹۶۸ء میں پراگ میں سوویت یونین کے ٹینک داخل ہو رہے
ہوتے ہیں۔ وہی پراگ جہاں میلان کنڈیرا رہتے تھے اور جہاں سے وہ ۱۹۷۵ء
میں فرانس منتقل ہو گئے تھے۔ اس پس منظر میں اور اپنے دور کے سیاسی حالات و واقعات
کا گہرے ذاتی انہماک سے مشاہدہ کرنے والے میلان کنڈیرا کے ادبی موضوعات میں محبت
اور جلاوطنی سے لے کر سیاست اور ذاتی تجربات تک سب کچھ شامل ہے وہ بھی بڑی شدت سے۔
ماضی میں کنڈیرا
چیکوسلوواکیہ کے شہری تھے مگر ۱۹۸۹ء
میں آنے والے ’’مخملیں انقلاب‘‘ کے نتیجے
میں جب کمیونسٹوں کو اقتدار سے باہر کر دیا گیا، تو کنڈیرا کا وطن تقسیم ہو کر
اپنے لئے ایک نیا نام اپنا چکا تھا: چیک جمہوریہ۔ مگر تب تک کنڈیرا اپنے لئے
جلاوطنی کی زندگی میں ایک نیا آغاز کر چکے تھے۔ ایک نئی زندگی، ایک نیا وطن اور
ایک نئی شناخت جس کا محور فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ان کا فلیٹ تھا اور جہاں
سے انہوں نے اپنا ادبی تخلیقی سفر جاری رکھا۔ اس عرصے میں کنڈیرا نے چیک زبان کے
بجائے فرانسیسی میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ فرانس میں جلاوطنی کی زندگی شروع کرنے
کے بعد جب یورپ میں مشرق اور مغرب کو تقسیم کرنے والا آہنی پردہ ختم بھی ہو گیا،
تو بھی وہ شاذ و نادر ہی چیک جمہوریہ گئے۔ ۱۹۸۴ء میں شائع ہونے والے کنڈیرا کے ناول ’’وجو
دکی ناقابل برداشت لطافت‘‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا ان کی بہت سی دیگر ادبی
تخلیقات اور تصنیفات کی طرح دُنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ۱۹۸۸ء میں اس پر ایک بہت
مشہور فلم بھی بنائی گئی تھی، مگر خود چیک جمہوریہ میں یہ ناول ۲۰۰۶ء تک کبھی شائع نہیں ہوا،
حالانکہ چیک زبان میں یہ ناول دستیاب تو ۱۹۸۵ سے تھا۔ کنڈیرا کے بارے میں سرکردہ بین
الاقوامی ادبی نقاد یہ کہتے رہے تھے کہ وہ ادب کے نوبیل انعام کے حق دار تھے اور
انہیں یہ اعزاز دیا جانا چاہئے تھا، تاہم انہیں یہ اعزاز حاصل نہ ہو سکا۔
میلان کنڈیرا نے، جنہیں
ایک بار ان کی چیک شہریت سے محروم بھی کر دیا گیا تھا، ۱۹۹۸ء میں فرانسیسی شہریت
اختیار کر لی تھی۔ ۲۰۱۹ء
میں انہیں ان کی چیک شہریت بھی لوٹا دی گئی تھی۔ فرانس نقل مکانی کے تعلق سے وہ
لکھتے ہیں: ’’۱۹۶۸ء میں جو لوگ فوری ترکِ وطن کرنا چاہتے تھے، میں
ان میں سے نہیں تھا۔ میں نے فرانس جانے سے پہلے دو ناول لکھے تھے۔ اب میں لکھتا
تھا اور کتاب مترجم کے حوالے کردیتا تھا۔ میں نے اپنے کرداروں کو ہمیشہ باپ کی سی
شفقت سے برتا۔ چونکہ میں خود بیوروکریسی کا ہدف رہ چکا تھا، اسلئے مظلومیت کی
اتھاہ کو پہچانتا تھا۔ روس کے قبضے کے بعد سات سال تک میں وطن میں رہا۔ میری نوکری
ختم ہوگئی تھی۔ میری بیوی خفیہ طریقے پر انگریزی پڑھاتی رہی اور کچھ میری بچائی
ہوئی رقم کام آئی۔ یوں میں لکھتا رہا۔ پھر میرے پاس نقل مکانی کے علاوہ کوئی اور
راستہ نہیں رہا۔‘‘
میلان کنڈیرا کے چند
مشہور ناولوں کے نام ہیں: ’دی جوک‘ (۱۹۶۷)
، لائف اِز ایلس ویئر (۱۹۶۹)، دی فیئرویل والٹز (۱۹۷۲ء)، دی بک آف لافٹر اینڈ
فارگیٹنگ (۱۹۷۹ء)،
دی اَن بیئرایبل لائٹنیس آف بیئنگ (۱۹۸۴)
، سلونیس (۱۹۹۵ء)
اور آئڈینٹیٹی (۱۹۹۸ءٌ
وغیرہ)۔ اس کے علاوہ کہانیوں کا ایک
مجموعہ، تین شعری مجموعے ، مضامین اور ڈرامے بھی انہوں نے تخلیق کئے ۔ ان کی کئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی شائع
ہوچکا ہے۔
اُنہیں نوبیل نہیں ملا
مگر کئی دوسرے ایوارڈز پر اُن کا نام جلی حروف میں لکھا گیا مثلاً آسٹریلین اسٹیٹ
پرائز فار یورپین لٹریچر، انٹرنیشنل ہرڈر پرائز، چیک اسٹیٹ لٹریچر ایوارڈ اور
فرانز کافکا ایوارڈ۔
17 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism