مائیک غوث
08،مئی 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
فتنہ مولانا مودودی کے ذریعہ شروع کیا گیا تھا، اگر یہ ان ، ضیاء الحق اور بھٹو، کے لئے نہیں ہوتا ، تو پاکستانی ساتھی پاکستانیوں کے تئیں جنگجو نہیں ہوتے۔
عمران خان اب تک پاکستان کے امیدواروں کی فہرست میں سب سے کم برے امیدوار ہیں۔ بے شک، اگر وہ ان کے ذریعہ پر زور انداز میں ظاہر کئے گئے فرقہ واریت کی کچھ خامیوں کو ختم کرتے ہیں تو وہ ایک مثالی امیدوار بن سکتے۔ خان کا یہ بیان کہ انہوں نے احمدیہ مسلمانوں کو ان کے لئے ووٹ ڈالنے نہیں کہا ہے، پریشان کن ہے۔ کیا پاکستانی حکومت کے مستقبل کےقائد کو "تمام" پاکستانیوں کا خیال نہیں رکھنا چاہئے ؟ کیا وہ ان کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے با قاعدہ طور پر رومنی کی طرح مشتہر کیا ، اس سے امریکہ کو بچانے کے لئے شکریہ ،( انکشاف : میں ایک ریپبلکن ہوں، اور وہ ہار گیا اس لئے کہ تمام ریپبلکن نے اسے ووٹ نہیں دیا) ۔ میں خان میں اسی کا عکس دیکھتا ہوں ، وہ دائیں بازو کو دلاسا دیتے ہوئے ، مہم کے آخری چند ہفتوں میں رومنی ہی کی طرح کھیل کھیل رہے ہیں۔
دوسرا بیان اردو میں دیا گیا، اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ احمدیہ مسلمان نہیں ہیں کیوں کہ وہ آخری نبی کے طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کو تسلیم نہیں کرتے ، گو کہ وہ خصوصی طور پر سنی مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔ کیا یہ قابل قبول ہے؟ قوم کا ایک رہنما سب کی نمائندگی کرتا ہے خواہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان رکھتے ہوں یا نہیں ۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خود یہودیوں، عیسائیوں اور دوسروں کے احترام کی مثال قائم کی ہے جو ان پرایمان نہیں لائے، اور صرف یہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ بقائے باہم اور ان کے اپنے معاملات میں ان کے اپنے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کے معاہدہ پر دستخط کیا ۔
اگر خان ان دوسرے برے لوگوں میں سے ایک کی طرح ہوتے تو بات کچھ اور ہوتی ، لیکن وہ ایک شائستہ انسان اور شاید پاکستان کی واحد امید ہیں۔ انہوں نے یہ ایماندار اور ایک غیر تسکین بخش ہو کر حاصل کیا ہے۔ اب وہ جیتنے کے بارے میں فکر مند ہیں، انہوں نے ملاؤں کو تسکین پہنچانا شروع کر دیا ہے ، اور جھنگوی احمقوں کی زبان بول رہے ہیں جو پاکستان کو ایک سنی قوم قرار دینا چاہتے ہیں ،اگلے اہلسنت ہوں گے اور پھر وہ جو اہلسنت کے درمیان ہیں جن کی پتلون کی لمبائی ملیمیٹر کے عین مطابق ہے۔ متشددین کی دل جوئی اور انہیں سکون پہنچانے کی کوئی حد نہیں ہے، اور وہ اس سے گوشت کا ایک ٹکڑا نکال لے گا ۔
سوال یہ ہے کہ خان غیر اہم احمدیہ، شیعہ یا ہندو اقلیت کے بارے میں پریشان کیوں ہیں ۔ کیا یہ صحیح کام ہے؟ کیا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مظلوم کے لئے احکام نہیں بیان کئے ہیں ؟ یہاں کچھ شہری مثالیں پیش کی جا رہی ہیں ، اور مجھے امید ہے کہ کم از کم پاکستانی امریکی اسے سمجھیں گے اور اس کی حمایت کریں گے ۔
1۔ شہری حقوق ان افریقی نژاد امریکیوں کے انصاف کے لئے منظور کئے گئے تھے جن کے ساتھ غلط کیا گیا تھا ، جو ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں۔ اسے سفید اکثریت کے ذریعہ منظور کیا گیا تھا، یہ اجتماعی بھلائی اور انصاف کے لئے تھا، تمام انسان برابر ہیں۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ نہیں اپنانا چاہئے؟ کیا یہ ایک اسلامی قدر نہیں ہے ؟
2۔ افریقیوں کے لئے غلامی کی لنکن کے ذریعہ منسوخی کو سفید اکثریت کے ذریعہ منظور کیا گیا تھا، تب یقینا سینٹ میں صرف سفید ووٹر تھے ۔
3۔ یہاں تک کہ براک اوباما نے LGBT کمیونٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کا خطرہ مول لیا جسے ہر کسی نے یہ سمجھا کہ یہ ان کی سیاسی موت ہے ، یہاں تک کہ ایک ہی جنس میں شادی کے لیے ان کی حمایت کے باوجود انہیں مسلمانوں نے اپنا 80 فیصد ووٹ دیا۔
4۔ عام طور پر انسانیت اور خاص طور پر مسلمانوں کو انصاف کے لئے کھڑے ہونے کی رہنمائی کی گئی ہے۔ صرف اکثریت کی شرافت ہی چیزوں کو تبدیل کر سکتی ہے ۔ پاکستان میں اقلیتوں کی کوئی آواز نہیں ہے اور وہ خدشات کے سائے میں جیتے ہیں ۔ ہندو والدین اس بات سے فکرمند ہیں کہ کب ان کی بیٹی کو اغوا کر لیائے اور مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے ، یا کب احمدیہ لڑکی طالب علم کو اسکول سے باہر نکال دیا جائے، یا ان کی قبروں کی بے حرمتی کر دی جائے، کب شیعہ کو بس سے باہر ہونے کا حکم دیا جائے اور گولی کا نشانہ بنا یا جائے اور کب عیسائیوں پر مذہب کی توہین کے الزامات عائد کر دئے جائیں ۔معاشروں کے بارے میں اس بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی اقلیتوں اور ان کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں ۔ اچھے پاکستانی ان کے نام پر بری چیزیں ہونے دے رہے ہیں۔
5۔ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا مسلمانوں کا کام ہے۔
6۔ (یہ کہنا کہ )'بعد میں کر لیں گے ، انتخابات کے بعد، ایک جھوٹ ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوگا۔ خان کی مہم کی بنیاد سالمیت پر مبنی ہونی چاہئے۔ جیسا کہ شریعت کے تئیں مسلمانوں کے رویے کے بارے نئے پیو Pew سروے کے مطابق 96 فیصد پاکستانی مذہب کی آزادی کو ترجیح دیتے ہیں لہذا کون نمائندگی کر رہا ہے؟
مندرجہ بالا تمام صورتوں میں، ایک مفروضہ یہ قائم کیا گیا تھا کہ اکثریت اس کی حمایت نہیں کرتی ۔ ان چند پاکستانیوں کے بیانات کی طرح کہ احمدیہ کو خود کو مسلمان نہیں کہنا چاہئے۔ یہ ایک پاکستان کی بات ہے مسلم کی نہیں ۔
شاید آمر وں کے ساتھ یہ مسئلہ عام پاکستا نیوں کی منفی ذہن سازی کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے اس لئے کہ لوگوں کو اس سے پہلے اپنے کام سے مطلب تھا ۔ فتنہ مولانا مودودی کے ذریعہ شروع کیا گیا تھا، اگر یہ ان ، ضیاء الحق اور بھٹو، کے لئے نہیں ہوتا ، تو پاکستانی ساتھی پاکستانیوں کے تئیں جنگجو نہیں ہوتے ۔ اگر یہ برے ظالمانہ اسلام مخالف حدود کے قوانین پاکستانیوں پر تھوپے نہیں گئے ہوتے تو وہ تمام پاکستانیوں کے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ۔ ان مطلق العنانوں کے ذریعہ نافذ کئے گئے حدود کے قوانین، اب اللہ کے قوانین بن چکے ہیں، یہ کیا ہی تلخ ہے ۔ جراثیم نے بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کو آلودہ کر دیا ہے اور اب چند ہندوستانی مسلمانوں کو بھی متاثر کر رہے ہیں ۔
دنیا بھر کے مسلمان احمدیوں کے تئیں تھوڑا تعصب رکھتے ہیں۔ میں تکثرتیت میں درس کے لئے سال میں دو مرتبہ مسلم ممالک کے مسلم علماء، ائمہ اور وزراء کی بڑی جماعتوں سے ملاقات کرتا ہوں۔ وہ ان تعصب کے حامل نہیں ہیں جو کچھ پاکستا نی ظاہر کرتے ہیں۔ مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اگر ایساکوئی استصواب عامہ ہو جہاں افراد کی شناخت خفیہ رکھی جائے، تو پاکستانی عوام کی غالب اکثریت حدود قوانین اور احمدیہ مسلمانوں کے ہراساں کئے جانے سے سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے گی ۔
صرف چند لوگ کہیں گے کہ کیوں زمین پر، خان احمدیہ کی حمایت کر رہے ہیں ؟ میرا جواب بہت آسان ہے: یہ احمدیہ کے لئے حمایت نہیں ، بلکہ مسلمانوں اور اسلام کے کردار کو محفوظ کرنے کی کوشش ہے اور وہ انصاف کے لئے کھڑا ہوناہے ۔ مجھے کچھ لوگوں کے ذریعہ صرف برے الفاظ سننے کو ملیں گے ۔ میں، پیسہ کمانے کے لئے اپنا وقت صرف کرنے میں آسودہ خاطر ہوں ، کیا میں ایسا نہیں ہوں؟ کیا یہ ایک بہتر دنیا کی طرف کام کی میرے ذاتی تعاون کی ذمہ داری سے راہ فرار اختیا ر کرنے کا باعث نہیں ہوتا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ کم از کم جو آپ کر سکتے ہیں وہ بولنا ہے، کیا انہوں نے ایسا نہیں کہا ؟
مسئلہ در حقیقت خاتم النبین کا نہیں ہے، لیکن کیاہم مسلمان یہ مانتے ہیں کہ اسلام ہمیں ان لوگوں کے ساتھ برا سلوک کرنے کی اجازت دیتا ہے جو سنی نہیں ہیں ؟ خان کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ احمدیہ (قادیانی نہیں اس لئے کہ ان کے لئے یہ لفظ (این) کی طرح ہے) پاکستانی ہیں، اور ان کے پاس ووٹ ڈالنےکا تمام حق حاصل ہے، یہ کہنے کے بجائے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، اور یہ کہ میں حکومت کے ممکنہ سربراہ کے طور پر ان کی نمائندگی کرتا ہوں اور ان کی نمائندگی کرنے کے لئے میں ان کے ووٹ کا مطالبہ کروں گا۔
جمہوریت ایک آسان نظام نہیں ہے، یہ ہر کسی سے بہت کچھ مطالبہ کرتا ہے۔ یہ دوسروں کے لئے نفرت کے احساس کے بغیر ، مختلف رائے کو سننے کی صلاحیت کی جانچ کرتی ہے۔ زیادہ تر مسلمانون کے دلوں اور روح میں جمہوریت ہے، بہت سے لوگوں کو ابھی تک یہ حاصل کرنا باقی ہے ۔ خدا کا شکر ہے، میں ہندوستان میں ایک اقلیت تھا ، اور امریکہ میں ایک اقلیت ہوں۔ اکثریت کا تکبر اکثریت کی طرف سے نہیں ہے، بلکہ ان میں سے کچھ کی طرف سے ہے ، جو حقیقی اکثریت کی خاموشی کے ذریعہ ایک براہ راست جواز فرض کرلیتے ہیں ۔ اکثریت کے لئے یہ آواز بلند کرنے کا وقت ہے اور عمران خان سےبغیر کسی تفریق کے ہر پاکستانی کی نمائندگی کروانے کا وقت ہے ۔ اگر نہیں، تو وہ صرف ایک ایسے سیاستدان ہین جو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرنے کا دعوی کرتےہیں ، لیکن وہ ایسے نہیں ہیں ۔
مائیک غوث ایک مقرر، مفکر اور مصنف ہیں ، جو تکثیریت ، سیاست، امن، اسلام، اسرائیل، ہندوستان، بین المذاہب اور کام کی جگہ پرہم آہنگی کے عناوین پر لکھتے ہیں ۔ انہوں نے خودکو ایک ہم آہنگ امریکہ کی تعمیر کے لئے وقف کر رکھا ہے اور www.TheGhousediary.com پر روز مرہ کے مسائل کا تکثریت پر مبنی حل پیش کرتے ہیں ۔ ۔
ماخذ:
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2013\05\08\story_8-5-2013_pg3_5
URL for English article:
https://newageislam.com/current-affairs/imran-khan,-be-exemplary-prime/d/11483
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/imran-khan,-be-exemplary-prime/d/12968