مائیک غوث رائیٹر، اسپیکر، نظریہ تکثیریت کے حامی ، کارکن
11 نومبر 2011
( انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام )
اظہار شکر کا سب سے بڑا حصہ کا اشتراک اور دیکھ بھال ہے۔ وہ، ان لوگو کے ساتھ جو زندگی کی مشکلات کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں دوستی اور مہربانی کے اظہار کا دن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ہمارے اندر دوسروں کے لئے بھلائی پیدا کر دے۔
ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہیے؟
امریکی باشندوں کا خیال ہے کہ دنیا ایک بڑا خاندان ہے، باہم مربوط اور باہم منحصر زندگی کا ایک جال ہے ، جہاں ہم میں سے ہر ایک، ایک ڈوری ہے ۔ جو چیز ایک پر اثر انداز ہوتی ہے، دوسرے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہ ، اس جال کو صحیح سالم برقرار رکھنے کے لئے ایک دوسرے کی دیکھ بھال ہمارے اوپر فرض کر دیتا ہے ۔یقیناً، ہندومت نے ،اسے اس خوبصورتی کے ساتھ یہ عنوان دیا ہے : وسودیوا کٹمبکم - پوری دنیا ایک فیملی ہے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام نے کہا، دوسروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو ،جیسا کہ تم دوسروں سے اپنے لئے چاہتے ہو ۔ وہ ان لوگوں کے پاس گئے جو سماج کے ذریعہ نکال دئے گئے تھے ۔ انہوں نے پوری انسانیت کو اپنے دل اور روح کے ساتھ اپنایا۔ یہودی نے Ve'ahavta la'ger کی روایت کو فروغ دیا - (جس کا مطلب ہے )آپ کو اس با ضمانت خوشی کے لئے اجنبی سے محبت کرنا ضروری ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کم سے کم جو تم دوسروں کو دے سکتے ہو، وہ ایک امید اور مسکراہٹ ہے۔ بلاشبہ، سکھ مذہب انسانیت کی دیکھ بھال کے اصول پر قائم ہے، جینوں اور بہائیوں کا یقین ہے کہ ہماری خوشی دوسروں کی دیکھ بھال کرنے سے آتی ہے، جیسا وکیوں کا یقین ہے کہ جو ہم دیکھتے ہیں، اس کا خیال رکھنا ہے- ماں زمین اور وہ سب کچھ جو غذا فراہم کرتا ہے ۔ ملحد اخلاقیات بقائے باہمی کی منطق پر مبنی ہے، اور وہ نامعلوم توانائی یا ایسےنظام کا شکریہ ادا کرنے پر یقین رکھتے ہیں ہے جو کہ ہمیں جاری رکھتا ہے ۔
زندگی ایک خود توازن عمل ہے
وہ لوگ جو زندگی میں توازن حاصل کر لیتے ہیں، وہ سب سے زیادہ خوش لوگ ہیں۔ ہماری خوشی ہماری خواہشات کی تکمیل پر براہ راست منحصر ہے، کم تکمیل سے زیادہ بے اطمنانی ملتی ہے۔ اسی لئے ، روشن خیال بدھ کہتے ہیں، کم خواہشات کم تکلیف کا سبب ہے !
یہ صرف آپ نہیں ہیں ۔ بل گیٹس سے پوچھو، جسے خدا نے دیا ہے، وہ کہیں گے کافی نہیں ہے! بے گھر سے پوچھو اور جواب، اب بھی وہی ہوگا: کافی نہیں۔ تو کس کے پاس کافی ہے ؟
میانہ روی اختیار کرو، محمد الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا کہ، صرف اتنی ہی خواہش کرو جتنا کہ آپ پورا کر سکتے ہو، خوشی آپ کے ساتھ ہوگی ۔ میری ماں کا کہنا ہے کہ "اپنی چادر سے زیادہ اپنے پاؤں مت پھیلاؤ، اور" اس کا مطلب یہ ہےکہ اپنے ذرائع کے تحت رہو۔ ہر مذہب اور ہر خاندان کو اس طرح کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ہر اس بھلائی کے لئے جو ہمیں ملتی ہے ، ہمیں اس عطا کرنے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، ایک سادہ شکریہ کی عدم موجودگی، تعلقات اور روحانی توانائی میں عدم توازن پیدا کر دیتی ہے۔ ایک سادہ شکریہ سے آپ خراب انجام پر قابو پا سکتے ہیں ،اور توازن بحال رکھ سکتے ہیں ۔
ہر تکلیف کے لئے ہم دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اسی کے برابر توانائی ہم سےختم ہو جاتی ہے، اور اب تک ہم سوری کہتے ہیں اور حقیقی طور نادم ہوتے ہیں، توانائی کا توازن کم رہتا ہے اور معاملات نامکمل رہتے ہیں۔
ہر عمل کا ایک برابر اور مخالف ردعمل ہے، اور ایک روحانیت کا حامی کے طور پر مجھے یقین ہے کہ، ہر اس غلط کے لئے جو ہم کرتےہیں ، توانائی کی اتنی ہی مقدار ہم ختم ہو جاتی ہے، اور ہر اچھے کام کے لئے ، اتنی ہی توانائی کی تلافی ہو جاتی ہے۔
زندگی درد اور خوشی کے درمیان توازن قائم کرنے کا مسلسل عمل ہے، اور ایک عام زندگی گذارنے کے لئے ہمیں اس توازن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ہم مسلسل توانائی حاصل کر رہے ہیں اور بانٹ رہے ہیں، مدخل اور ماحصل کا برابر ہونا ایک صحت مند ذہنیت کے لئے ضروری ہے، یا مزید اتنا اور توازن جتنا ہمارا رد کیا گیا ہے۔
اظہار تشکر خود کو ایک ساتھ جمع کرنے کا ، اور زندگی کے خراب انجام پر قابو پانے کا دن ہے۔ پورے سال ہم دوسروں کے ذریعہ ، اعمال اور افعال کی صورت میں، بہت بھلائی حاصل کرتے ہیں، اور اکثر معاملات نامکمل رہتے ہیں ۔ صرف شکریہ روح کو حقیقی سکون اور توازن فراہم کرتا ہے۔
غیر معمولی شکریہ کی کہانی
میں اپنے بچھپن کی ایک کہانی بتاتا ہوں۔ اتوار کے دن، بیٹھنا اور غریبوں کی دیکھ بھال کرنا میرا معمول تھا۔ میرے گھر کے سامنے سے ضرورت مند لوگوں کی ایک قطار گزرتی، اور، خاندان میں سب سے بزرگ کی حیثیت سے، میرے والد نے، مجھے ان افراد میں نقد رقم اور کھانے کی چیزوں کو خیرات کرنے کی ذمہ داری تفویض کی تھی، جب وہ ہمارے دروازے کے پاس سے گذرتے۔ میں نے کوڑھ کے مرض میں مبتلاء ایسےلو گو کو دیکھا، جو ،دیکھ سن یا بول نہیں سکتے تھے ، اور یقینی طور پر کچھ ایسے لوگوں کو جن کےجسم کے اعضاء ان کے جسم پر نہیں تھے ۔
ایک ایسے شخص کی طرف متوجہ ہوا۔ جس کے جسم پر بنیاد سے ہی ہاتھ اور پاؤں نہیں تھے، اور صرف اس کا دھڑ اور سر تھا ۔ اس نے ایک گاڑی کے ٹائر کی ایک ربڑ ٹیوب (ان دنوں گاڑی کے ٹائر میں ، ہوا ضبط رکھنے کے لئے، ہوا سے بھرا ہوا ربر کا ٹیوب منسلک ہوتا تھا ) میں اپنے جسم کو لپیٹ رکھا تھا، اور ایک ایک انچ اپنی پیٹھ کے بل کھسک کھسک کر ، ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک جاتا ۔ اس کے کندھے اور پیچھے کا حصہ ایک ٹم ٹم میں سانپ کی طرح حرکت کرتا ۔ وہ، مجھے ہمیشہ میرے زندگی اور امید کے بارے میں سوچنے کا باعث بنا ۔ اس وقت میری عمر تقریبا 14 سال تھی، اور اس کے ساتھ بات کرنے سے ہچکچاتا تھا۔
ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ کس چیز کی وجہ سے وہ جینا چاہتا ہے۔ اس کے رشتہ دارنہیں تھے، کچھ نہیں کر سکاتھا، اس کا خاندان نہیں تھا، رہنے کی جگہ نہیں تھی، اور کپڑے نہیں پہن سکتا تھا۔ کس وجہ سے جینا چاہتا ہے؟
اس نے ایک گہری سانس لی اور میری طرف دیکھا اور کہا، "بیٹا، مجھے، نیلے آسمان کو دیکھنے، بارش کو دیکھنے اور زمین کو سونگھنے کے لئے ، ہر صبح کا انتظار ہوتا ہے، میں ان اچھے کھانوں کو سونگھتا ہوں اور چکھتا ہو ں جو لوگ مجھے دیتے ہیں، میں خدا کا شکرگزار ہوں کہ ، اس نے مجھےآنکھ دی تاکہ میں اس کی مخلوق کی خوبصورتی کو دیکھ سکوں ۔ " وہ بہت شاعرانہ تھا۔
اپایہ گھوما اور اس کے بجائے پوچھا، "کیا وہاں رب کا شکریہ ادا کرنے کا لئے کا فی نہیں ہے؟" میں خاموش ہو گیا تھا۔ یہاں ایک ایسا آدمی ہے جسے کوئی امید نہیں ہے ، پھر بھی شکایت نہیں کر رہا ہے، یہی شکریہ ہے۔ اسی صبح، میں نے اپنے والد صاحب کی، قرآن کی ایک پسندیدہ آیت سنی (55:16): "تو تم اپنے رب کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟، اس دن تک ،اگر میں نیچے ہوں، مجھے صحیفوں تک جانے کے لئے، بھگود گیتا، بائبل، ڈیل کارنیگی کی کتاب، مارمان کی کتاب، کتاب اقدس کھولنے میں، مجھے سکون ملا ، یا میں ، اپنی روح کو بلند کرنے کے لئے ،قرآن مجید میں، باب 55،سورہ الرحمٰن کی تلاوت کرتا ہوں، ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہئے ، اور جس نے ہمیں یہ سب دیا ہے، اور نامعلوم دینے والےسے اس کا اظہار کرنا چاہئے ۔ ، ایک سچا اظہار تشکر ۔
مبارک اظہار تشکر
برائے مہربانی، آپ جہاں بھی جائیں اپنے ساتھ کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے جائیں، اور جب بھی آپ کو ایک خاموش لمحہ میسر ہو، تو ان تمام لوگوں کی ایک فہرست بنائیں، جن کا آپ شکریہ ادا کرنا چاہتے، آپ کو اس میں سکون کا احساس ملے گا۔ اگر چہ آپ فہرست میں مندرج تمام لوگوں کو شکریہ نہ کہیں، آپ نے فرد کے بارے میں سوچ کر، پہلے ہی اپنا شکریہ ادا کر دیا ۔ عمل کا تناؤ (تمہارا اچھا ہوا) کشیدگی ان کے بارے میں تمہارے سوچھنے یا ان کے نام لکھنے اور ممکنہ طور پر انہیں بلانے کے رد عمل کے ساتھ نکل گئی ۔
ان تمام اچھی باتوں پر غور کرو جو لوگوں نے تمہارے ساتھ کیا ہے، ان اچھے الفاظ کو جو انہوں نے تم سے کہا ۔ یہاں تک کہ اب، اگر ان میں سے کچھ کو تم پسند نہیں کرتے، اس اچھے کو الگ کرو جو انہوں نے کیا، اور اس کے لئے شکریہ کہو۔ اپنی انانیت پر لگام کسو ، اور اپنے اندر جیت کو محسوس کو۔
میں میری مثبت توانائی میں تعاون کے لئے ہر روح کو شکریہ ادا کرتا ہوں۔
آج جب آپ گھر سے باہر قدم نکالیں اور کوئی ایسا ملے جو نیچے ہے، تو اس کے تئیں مہربانی کا رویہ اختیار کریں ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار سوال کیا گيا کہ اگر آپ کے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو، تو آپ کیا دے سکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ایک سچی مسکراہٹ، سب سے خوبصورت چیز ، جو آپ دے سکتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں، اور اپنی زندگی میں ، اس تبدیلی کو دیکھیں ، جو آپ نے پیدا کیا ہے ۔ یہ سب سے کم مقدار کا صدقہ ہے جو آپ کر سکتے ہیں ۔
میں اپنے ان مردوں اور عورتوں کو مزید شکریہ ادا کرتا ہوں، جو ہماری آزادی کی حفاظت کے لئے، اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ۔
اظہار تشکر مبارک ہو
امریکہ کا خدا بھلا کرے
URL for English article:
URL for this article: