مائیک غوث
31 مئی 2015
کسی کو بھی یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے کہ شیعیت یا سنیت جھوٹ اور باطل ہے۔
شیعہ اور سنی روایات کے درمیان ایک اہم اختلاف قیادت کے بارے میں ہے۔ اپنے آخری حج سے واپس ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم نامی ایک نخلستان میں قافلے کو جمع کیا اور انہیں قرآن کی ایک آیت سنائی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ‘‘آج میں نے خدا کی طرف سے نازل ہونے والی مکمل رہنمائی کو تم تک پہنچا دیا ہے، اور اب اسلام کا پیغام مکمل ہو گیا ہے’’۔
پیغام یہی تھا اور بالکل واضح تھا؛ اس کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ اس سے زیادہ خدا نے اور کوئی ہدایت نازل نہیں کی اور دین میں اس سے زیادہ کچھ اور شامل کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تاہم، اس پیغام کے اہم حصے کو دو مختلف طریقوں سے سمجھا گیا ہے۔
ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو روحانی قیادت تفویض کی تھی، اور ان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں یہ فرمایا تھا کہ میں مستقبل میں رہنمائی کے لئے قرآن اور اہل بیت اطہار کو چھوڑ رہا ہوں۔
جبکہ دوسرے گروہ کا یہ ماننا ہے کہ اب انہیں صرف قرآن مجید کو ہی اپنا مشعل راہ بنانا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا، ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں انہوں نے دینی امور میں رہنمائی کے لئے اہل بیت اطہار کی پیروی کا حکم دیا ہو یا قیادت کی ذمہ داری حضرت علی کو سونپی گئی ہو۔
پہلا گروپ شیعہ اور دوسرا گروہ سنی بن گیا، اور دونوں نے اپنے اپنے "مذہب" کی تعمیر کر لی ہے اور اپنے باہمی اختلافات کو پختہ کر لیا ہے۔
اگر اہل تشیع کو یہ لگتا ہے کہ انہیں دینی امور میں ائمہ دین سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت تو یہ ان کی مرضی ہے، اوراگر اہل سنت کو یہ لگتا ہے کہ انہیں اس کی ضرورت نہیں تو یہ ان کی مرضی ہے اور یہی معاملہ احمدیہ مسلمانوں کا بھی ہے۔ آپ (ہم سب) کی پریشانی کیا ہے؟ کیا قیامت کے دن ہم اپنے علاوہ کسی اور کے اعمال کے لئے جوابدہ ہوں گے؟ اگر نہیں، تو ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور بد نام کرنے کے بجائے ہمیں اپنے مذہب پر دھیان دینا چاہیے اور ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کیا ان آپسی اختلافات کو سلجھانے کی کوئی ضرورت ہے؟ بالکل نہیں! اسے حل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی یہ حل کیا جا سکتا ہے، اپنی توانائی کو بچائیں، اس لیے کہ یہ تمام باتیں فطری ہیں اور ان کی پیشن گوئی پہلے ہی کر دی گئی تھی۔ خیالات و نظریات، مذہب و ملت، سیاست، ثقافتوں اور قوموں میں خود کو تقسیم کرنا ایک انسانی فطرت ہے۔ اہل تشیع، اہل سنت اور احمدیہ کی تقسیم ایک فطری عمل ہے، اور کسی کو بھی کسی دوسرے کے مذہب کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام کسی بھی صورت میں لوگوں کی مرضی کے خلاف کسی بھی طرح کے جبر و اکراہ سے منع کرتا ہے (2:256) اور مجھے امید ہے کہ مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں۔
ہمیں صرف اختلافات سے اتفاق کرنا اور دوسروں کے اختلاف رائے کا احترام کرنا سیکھنا ضروری ہے، جیسا کہ خدا نے ہمیں اس کی ہدایت دی ہے (قرآن: 109) جس کا اظہار مندرجہ ذیل پیراگراف میں کیاگیا ہے۔
اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی، تاکہ تم تولنے میں تجاوز نہ کرو، انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں کم نہ دو، اور اسی نے مخلوق کے لیے زمین بچھا دی، جس میں میوے ہیں اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں(55:7-11)، اور خدا ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اسے برقرار رکھیں۔ اور اس سمت میں قدم بڑھانا ہماری ذمہ داری ہے، اس لیے کہ ہمیں زمین پر اللہ کا خلیفہ کہا گیا ہے۔ کیا ہم نے اپنے اس قائدانہ کردار کو کھو دیا ہے جو ہمیں تفویض کیا گیا تھا؟
ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں ، اور ہم میں سے ہر ایک آدم و حوا کی اولاد ہے، اور خدا نے ہمیں مختلف قبائل، طبقوں، اقوام، مذہب اور نسل میں مختلف انفرادیت (49:13) کے ساتھ پیدا کیا ہے(جیسا کہ خدا نے قرآن میں دیگر مذاہب کو منظور کیا ہے، اور خدا نے کسی بھی مذہب کی مذمت نہیں کی ہے، بلکہ قرآن میں اس بات کو یقینی بنا یا گیا ہے کہ اگر وہ دوسرے انسانوں کے لیے اچھے ہیں تو ان کا اجر ان کے ساتھ ہے) جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں مذکورہ معیار کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان کوئی بھی امتیازی سلوک اپنانے سے منع فرمایا ہے۔
ہم میں سے ہر ایک انسان کے انگوٹھے کا نشان، ذائقہ، آنکھوں کا پرنٹ اور ڈی این اے منفرد ہے۔ اگر خدا چاہتا تو وہ کسی فیکٹری کی مصنوعات کی طرح ہم سب کو بالکل ایک جیسا پیدا فرماتا لیکن اس نے ہم میں سے ہر ایک کو ایک منفرد انداز اور منفرد شناخت کے ساتھ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے یہ فیصلہ اپنی مرضی سے لیا ہے؟ کیا اس نے ایسا کر کے کوئی غلطی کی ہے؟ کیا ہمیں اس کی مرضی کا احترام کرنا چاہیے؟
جب ہم اتنے مختلف ہیں تو تنازعات کا پیدا ہونا یقینی ہے، اور وہ مزید رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ، تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ علم سے سمجھ بوجھ اور ایک دوسرے کی انفرادیت کو قبول کرنے اور اسے سراہنے کا شعور پیدا ہوتا۔
اسلام ایک انسانی فطرت کا حامل دین ہے۔اور یہ دین فطرت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت بہت سارے فرقوں میں بٹ جائے گی (72 یا 73 کی تعداد کثرت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے محض ایک استعارہ ہے۔ ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے میں مقابلہ کرنا چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اور ہمیں قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی ذمہ داری عطا کی ہے، اور انہیں یہ معلوم تھا کہ ہم سب ہمارے اپنے تجربات کی بنیاد پر اس سے مختلف مفہوم اخذ کریں گے۔
کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی روایت کو باطل قرار دے۔ یہ اللہ کا کام ہے، ہمارا یا آپ کا نہیں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو خدا کا شریک کار مانتے ہیں اور یہ آپ جیسے لوگوں کے علاوہ کسی بھی دوسرے مسلمان کے لیے قابل قبول نہیں ہےجب تک آپ کے پاس اللہ کی جانب سے تحریری طور پر اس کی کوئی ضمانت موجود نہ ہو آپ کا فیصلہ کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے۔
اگر آپ کسی مسلمان کو غیر مسلم قرار دے رہے ہیں تو آپ شرک کا ارتکاب کر رہے ہیں، اور آپ کی ان باتوں کی ہمارے معاشرے میں کوئی قدر نہیں ہے، تاہم، خدا کی نمائندگی کرنے کی اس کذب بیانی کا معاملہ آپ کے اور خدا کے درمیان ہے۔
یاد رہے کہ ہم شرک کا ارتکاب کرنے کے لئے آپ کو 100 کوڑے مارنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، اس لیے کہ ہمیں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہم، لوٹ، عصمت دری، چوری، ایذا رسانی اور دست درازی، خاندان کے ارکان اور ملازمین کے ساتھ بدسلوکی، لوگوں کے ساتھ کیے گیے معاہدوں کو توڑنے اور قتل عام جیسے دیگر سماجی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لئے سزا دے سکتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ کے معتقدات کی بنیاد پر ہم آپ کو سزا نہیں دے سکتے، اور نہ ہی کسی کے پاس آپ کو سزا دینے کا حق ہے، یہ معاملہ آپ کے اور خدا کے مابین ہے۔
ماخذ:
http://worldmuslimcongress.blogspot.in/2015/05/shia-sunni-takfiris-not-acceptable.html
URL for English article: https://newageislam.com/islam-sectarianism/shia-sunni-takfiriyat-acceptable/d/103265
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/shia-sunni-takfiriyat-acceptable-/d/103344