نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
ہندوستان بھر کی مساجد میں جمعہ کے دن مسجد کی طرف سے عطیات کی وصولیابی کی جا تی ہے۔ جمعہ کی نماز کے لئے جانے والے مصلی حضرات اس دن اپنی جیب خاص سے اللہ کے گھر کی تعمیر و ترقی کے لئے رقم نکالتے ہیں۔ مسجد کے رضاکار حضرات ان عطیات کو وصول کرنے کا کارخیر انجام دیتے ہیں جس کے لئے وہ اجر کے مستحق ہیں۔
عام طور سے بنگال کی مسجدوں میں اور دیگر ریاستوں کی مسجدوں میں بھی، یہ رقم جمعہ کی فرض نماز کے بعد دعا سے پہلے وصول کی جاتی ہے۔ سلام پھیرنے کے بعد کچھ لوگ مصلیوں کے درمیان پھر جاتے ہیں اور جس کو جو بھی رقم دینی ہو وہ ان کے ہاتھوں میں یا رومال میں یا ٹوپی میں ڈال دیتے ہیں۔ عطیات کی وصولی کے بعد دعا ہوتی ہے ۔یہ رقم کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ دس روپئے ، پانچ روپئے ، دو روپئے کا سکہ یا ایک روپئے کا سکہ۔
حدیثوں میں جمعہ کی فرض نماز کی بڑی فضیلیتیں آئی ہیں۔جمعہ کی فرض نماز کے بعد کا وقت دعا کی قبولیت کا وقت بتایاگیاہے۔ پھر جب وہ وقت رمضان کے مہینے کا ہو تو اس وقت کی فضیلیت میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا۔ سوال یہ ہے کہ ایک عمل جو نیک تو ہے مگر نماز کا حصہ نہیں ہے اس عمل کو نماز کے درمیان لانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ عطیات کی ادائیگی یا وصولی کے لئے کوئی دوسرا وقت بھی متعین کیا جاسکتاہے یا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جاسکتاہے۔ہر نمازی جس کا ارادہ جمعہ کو مسجد کیلئے کچھ عطیہ کرنے کا ہو، وہ اپنی جیب میں کچھ نہ کچھ رقم لے کر آتاہے۔اس لئے اس سے تقاضہ کرنا ضروری نہیں ہے۔لہذا، اگر اس مقصد کے لئے کوئی بکس مسجد میں اس جکہ لگا دیا جائے جہاں ہر نمازی کا گذر ہو تو وہ رقم اس بکس میں ڈال دے گا۔ اس کے لئے امام یا مسجد کا کوئی ذمہ دار فرد نماز سے قبل اعلان کردے کہ عطیات کی رقم فلاں مقام پر نصب بکس میں ڈال دیں۔یا مسجد کی کمیٹی کا کوئی رکن رسید لے کر کسی مناسب جگہ پر بیٹھ جائے ۔ مگر یہ نماز سے قبل یا نماز کے بعدہو۔ نماز کے درمیان نہ ہو۔
سلام پھیرنے کے بعدعطیات کی رقم وصولنے کے لئے اپنے گمچھے یا ٹوپی کو مصلیوں کے سامنے سے لیکر گذرنااور مصلیوں کا اس میں دو روپئے یا پانچ روپئے کا سکہ ڈال دینا نیک عمل تو ہے مگر اللہ کے شایان شایان نہیں ہے۔ قرآن کہتاہے:
ما لکم لا ترجون لللہ وقارا (سورہ نوح: 13)
’’تم کو کیا ہوا کہ اللہ کے ساتھ عزت و وقار کا معاملہ نہیں کرتے۔‘‘
اسلام مسلمان سے ہر کام میں نفاست اور رکھ رکھاؤ کی توقع کرتاہے۔اللہ نہ خود محتاج ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو بھکاریوں کی سی وضع قطع اور طور طریقہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتاہے ۔عطیات لینے اور دینے کا باوقار طریقہ بھی اپنایا جاسکتاہے۔قرآن مسلمانوں سے کہتاہے کہ اللہ کو اچھی طرح پر قرض دو۔ بھیک دینے کے لئے نہیں کہتا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ با حیثیت مصلی حضرات بھی جمعہ کو مسجد کو عطیہ کے لئے جیب میں کچھ ریزگاری رکھ لیتے ہیں۔اور نماز کے بعد وصول کنندہ حضرات کی جھولی میں چند سکے اللہ کے نام پر ڈال دیتے ہیں ۔یہ طرزعمل اتنا عام ہوگیاہے کہ اس میں کوئی برائی نظرنہیں آتی ۔شاید ہم قرض اور بھیک کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/method-receiving-donations-mosques-friday/d/98665