ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
19 اپریل 2025
شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی (1879-1957) ہندوستان کے ان سرخیل علماء میں شامل ہیں جنہوں نے وطن کی آزادی کے تئیں تن من دھن کی بازی لگادی ۔ جب ہم مولانا حسین احمد مدنی کے زندگی کے احوال کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جہاں علومِ دینیہ کی ترویج و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو وہیں آپ نے ملک کی آزادی کے لیے نہ صرف جتن کیے بلکہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ انگریزوں کے مظالم سہے ،مالٹا کے اسیر بنائے گئے ،اسی کے ساتھ انگریزوں نے دیگر تمام مظالم کو روا رکھا ۔ تمام طرح کی اذیتیں برداشت کرنے کے بعد بھی آپ کا جذبہ حریت سرد نہیں پڑا ۔ سچ یہ ہے کہ آزادی کی چنگاری شعلہ بنتی گئی۔ چنانچہ جون / 1940 کو جمعیة علماء ہند کی جانب سے جون پور میں اجلاس منعقد ہوا اس کی صدارت خود مولانا حسین احمد مدنی نے فرمائی تھی ۔
اپنے صدارتی خطاب میں کہا تھا :
محترم بزرگو! حالات موجودہ اور زیادہ مجبور کرتے ہیں کہ آزادی ہند کے لیے اپنی مساعی میں زیادہ سے زیادہ سرگرمی عمل میں لائی جائے اور تمام خلق کو عموماً اہل ہند خصوصا اسی ذریعہ سے ہر قسم کے عذاب الیم سے نجات دلائی جائے ہماری غلامی نہ صرف ہمارے لیے باعث آفات و مصائب ہے بلکہ بہت سی غیر ہندوستانی قومیں بھی اس کی وجہ سے انتھائی تکلیف میں مبتلا ہیں ، اگر چہ یہ فرض تمام ہندوستانیوں کا ہے مگر مسلمانوں پر یہ فرض سب سے زیادہ ہے. ( اسیر ادروی ، مآثر شیخ الاسلام ، صفحہ 260)
یہاں صرف یہ واضح کرنا ہے کہ بھارت کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے جو مشقتیں جھیلیں اور جس دل چسپی کا مظاہرہ کیا وہ اس بات کا شاہد ہے کہ مسلمانوں کو یہاں کی زمین سے فطری محبت ہے۔ اسی جذبہ حریت نے باہم مل کر ہندوستان کو انگریزوں کے ناجائز قبضہ سے آزاد کرایا ۔ اب اگر کوئی ملک کے لیے دی گئیں مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش کرتاہے ،اور ملک کی وفاداری کے ثبوت طلب کیے جائیں تو یہ ایک ایسا عمل ہے جو ان تمام جیالوں کی روح کو اذیت دے رہا ہے جنہوں نے آزادی کے لیے جد وجہد کی ہے۔ تاریخ کے صفحات مملو ہیں اور بتارہے ہیں کہ مسلمانوں نے ملک کی آزادی سے لے دیگر تمام تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کے کاموں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ ملک کے سیکولر ڈھانچے اور یہاں کے سماجی تنوع کو کبھی بھی مسخ نہیں ہونے دیا ہے ۔ لہذا ان تمام افراد کو ہندوستان کی تاریخ کو تعصب و تنگ نظری کی عینک ہٹا کر پڑھنا ہوگا اور پھر طے کرنا ہوگا کہ مسلمانوں پر ان کی حب الوطنی کو لے کر عہد حاضر میں جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان میں کہاں تک صداقت اوروہ مبنی بر حقیقت ہیں؟
یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے صرف آزادی کے لیے ہی کاوش نہیں کی بلکہ وہ متحدہ قومیت کے بھی علمبردار تھے اور اس موضوع پر آپ نے ایک رسالہ بھی تحریر کیا تھا۔ دیگر ضروری مباحث اور باتوں کو بیان کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس فلسفہ اور تصور کو واضح کردیا جائے جو متحدہ قومیت کے نام پر مولانا حسین احمد مدنی نے پیش کیا تھا۔
ہماری مراد متحدہ قومیت سے اس جگہ وہی قومیت متحدہ ہے جس کی بناء جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ڈالی تھی ، یعنی ہندوستان کے باشندہ خواہ کسی مذہب کے ہوں بحیثیت ہندوستانی اور بحیثیت متحد الوطن ہونے کے ایک قوم ہوجائیں اور اس پردیسی قوم سے جو وطنی قوم کو مشترکہ مفاد سے محروم کرتی ہوئی سب کو فنا کررہی ہے، جنگ کرکے اپنے حقوق حاصل کریں اور اس ظالم اور بے رحم قوت کو نکال کر غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھوڑ دیں ، ہر ایک دوسرے سے کسی مذہبی امر میں تعرض نہ کرے بلکہ تمام ہندوستان کی بسنے والی قومیں اپنے مذہبی رسم و رواج ، مذہبی اعمال واخلاق آزادی کے ساتھ عمل میں لائیں اور جہاں تک ان کا مذہب اجازت دیتا ہو امن و امان قائم رکھتے ہوئے اپنی اپنی نشر واشاعت بھی کرتے رہیں ، اپنے پرسنل لاء ، کلچر ، تہذیب کو محفوظ رکھیں نہ کوئی اقلیت دوسری اقلیتوں اور اکثریت سے ان امور میں دست و گریباں ہو اور نہ اس کی جد و جہد کرے کہ وہ اقلیتوں کو اپنے اندر ہضم کرے
(مآثر شیخ الاسلام ، صفحہ 245)
یہ اقتباس اس بات کی واضح علامت ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی نے اتحاد قوم اور متحدہ قومیت کا جو تصور پیش کیا اس میں انسان دوستی اور بشر نوازی کا پہلو نمایاں ہے ۔ توسع اور اعتدال ہے ۔ یہ سچ ہے کہ جب سب قوموں نے مل کر آزادی کے لیے سعی کی تبھی جاکر ہندوستان آزاد ہوا ۔ آج بھی اس مفہوم اور پیغام کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مل کر کوشش کی جائے گی تبھی ہندوستان سے ان نظریات و افکار اور طاقتوں کا رد ہوسکے گا جو نہ صرف ہندوستان کی جمہوری قدروں اور سیکولر روایات کو پاش پاش کرنا چاہتی ہیں بلکہ ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو بھی مسخ کررہج ہیں ۔ مولانا حسین احمد مدنی نے جن حالات میں یہ پیغام قوم کو دیا وہ حالات یقینی طور پر بہت ہی دگر گوں تھے۔ اس وقت ضرورت تھی کہ ملک کی عظمت اور اس کی رفعت شان کو برقرار رکھا جائے اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب مل جل کر ہندوستانی آگے بڑھیں گے ۔ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان میں ہمیں ایک ساتھ چلنا ہوگا اور جو تہذیب و تمدن اور قومی اتحاد و اتفاق ، یگانگت و یکجہتی کا سلسلہ صدیوں سے یہاں چلا آرہا ہے اسے نہ صرف برقرار رکھنا ہوگا بلکہ زمینی سطح پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی بھید بھاؤ اور سماج دشمن عناصر کا خاتمہ انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ نظریات و ادیان کا مختلف ہونا الگ بات ہے لیکن جب یہ اختلاف تعصب و تنگ نظری کی جانب لے جائے اور باہم دشمنی پیدا کردے تو اس سے نہ صرف اس معاشرے کی تہذیب داغ دار ہوتی ہے بلکہ وہ ملک بھی بہت جلد ہمہ ہمی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے متحدہ قومیت کے تصور کو اجاگر کرکے یہی بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان میں ہمارے افکار و عقائد مختلف ہیں ، رسم و رواج اور طریق معاشرت جدا جدا ہیں ۔ دینی مصادر و مراجع مختلف ہیں عقیدتوں اور عقائد کے مرکز و محور الگ الگ ہیں ان تمام باتوں کے اختلاف کے ساتھ ہمیں باہم مل جل کر اور اتحاد و اتفاق سے رہنا چاہیے، معاشرے میں امن و امان کے لیے بھی ضروری ہے، نیز فرقہ پرست طاقتوں کو زیر کرنے کے لیے بھی لازمی امر ہے ۔ واضح رہے کہ جب متحدہ قومیت کا تصور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے پیش کیا تھا تو ان کے اس نظریہ کی مخالفت کے لیے ڈاکٹر علامہ اقبال سامنے آئے تھے اور انہوں نے باقاعدہ خطوط لکھ کر اپنے اعتراضات پیش کیے تھے ۔ علامہ اقبال کے خطوط کا جواب مولانا حسین احمد مدنی نے دیا اس کے بعد علامہ اقبال نے اپنی بات سے رجوع کیا ۔ اگر کسی کو یہ علمی و فکری اور نظریاتی مباحثہ دیکھنا ہے تووہ درج ذیل کتاب کا مطالعہ کرسکتا ہے ۔" متحدہ قومیت اور اسلام " اس کو استقلال پریس لاہور نے 1975 میں شائع کیا ہے۔ ( وقت یہ کتاب آن لائن بھی موجود ہے) اس میں علامہ اقبال اور مولانا حسین مدنی کی خط و کتابت کے ساتھ ساتھ مولانا کا رسالہ "متحدہ قومیت اور اسلام" بھی موجود ہے۔
اتحاد و اتفاق اور متحدہ قومیت کے حوالے سے مولانا حسین احمد مدنی نے اپنے متذکرہ بالا خطبہ صدارت میں یہ بھی کہا تھا ۔
" ہم باشندگان ہندوستان بحیثیت ہندوستانی ہونے کے ایک اشتراک رکھتے ہیں جو کہ اختلاف مذاہب اور اختلاف تہذیب کے ساتھ ہر حال میں باقی رہتا ہے جس طرح ہماری صورتوں کے اختلافات، ذاتوں، صنفوں کی تباین رنگتوں اور قامتوں کی افتراقات سے ہماری مشترک انسانیت میں فرق نہیں آیا ، اسی طرح ہمارے مذہبی اور تہذیبی اختلافات ہمارے وطنی اشتراک میں خلل ا انداز نہیں ہے ہم سب وطنی حیثیت سے ہندوستانی ہیں اور وطنی منافع کے حصول اور مضرات کے ازالے کا فکر اور اس کے لیے جدوجہد مسلمانوں کا بھی اسی طرح فریضہ ہے جس طرح دوسری ملتوں اور غیر مسلم قوموں کا ، اس کے لیے سب کو مل کر پوری طرح کوشش کرنی ازبس ضروری ہے ۔ اگر آگ لگنے کے وقت تمام گاؤں کے باشندے آگ نہ بجھائیں گے، سیلاب آنے کے وقت تمام گاؤں کی باشندے بند نہ باندھیں گے تو تمام گاؤں برباد ہو جائے گا اور سبھی کے لیے زندگی وبال ہو جائے گی ، اسی طرح ایک ملک کے باشندوں کا فرض ہے کہ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، سکھ ہوں یا پارسی کہ ملک پر جب کوئی عام مصیبت پڑ جائے تو مشترک قوت سے اس کو دور کرنے کی جدوجہد کریں، اس اشتراک وطنی کے سب پر یکساں فرائض عائد ہوتے ہیں ، مذہب کے اختلاف سے اس میں کوئی رکاوٹ یا کمزوری نہیں ہوتی ہر ایک اپنے مذہب پر پوری طرح قائم رہ کر ایسے فرائض انجام دے سکتا ہے۔ یہی اشتراک میونسپل بورڈوں ، ڈسٹرکٹ بورڈوں کونسلوں اور اسمبلیوں میں پایا جاتا ہے اور مختلف المذاہب ممبران فرائض شہر یا ضلع یا صوبہ یا ملک انجام دیتے ہیں اور اس کو ضروری سمجھتے ہیں، یہی معنی اس جگہ متحدہ قومیت کے ہیں ۔
اس کے علاوہ دوسرے معنی جو لوگ سمجھ رہے ہیں وہ غلط نا جائز ہیں ، یورپین لوگ قومیت متحدہ کے جو معنی مراد لیتے ہیں اور جو کانگریسی لوگ بیان کرتے ہیں ان سے جمعیة علماء بیزار ہے" ( مآثر شیخ الاسلام ، صفحہ 246-247)
ان تمام باتوں کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ متحدہ قومیت اور سماجی اتحاد کی ضرورت ہر معاشرے کے لیے ہوتی ہے ۔ جو معاشرے باہم ربط و ضبط قائم نہیں رکھتے ہیں ان کی حیثیت معدوم ہوجاتی ہے ۔ اتحاد و اتفاق ایک ایسی صفت ہے جس سے معاشرے نہ صرف اپنی حیثیت برقرار رکھتے ہیں بلکہ ہم آہنگی کا عنصر حساس اور تعمیری صفات سے حامل معاشروں کے لیے ضروری ہے ۔ اس تناظر میں جب ہم ہندوستان کی رنگا رنگی اور تعدد کے ساتھ ساتھ یہاں کی سماجی اکائیوں اور طبقوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت و ہمدردی کا جذبہ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ادیان و مذاھب کے اختلاف کے باجود ایک دوسرے کی خوشی غم اور دکھ سکھ میں شریک ہونے کو سعادت سمجھا جاتاہے ۔
مولانا حسین احمد مدنی کے زندگی یا ان کے افکار و نظریات کا اس وقت جو پیغام ہے وہ یہ کہ ہم ایک ہندوستانی ہیں اور ہندوستان کی شناخت تعدد و تنوع ہے ، یہ تنوع رسم و رواج ، زبان و ادب ، مذہب و دین اور فکر و خیال سب میں پایا جاتاہے۔ لیکن بحیثیت ہندوستانی ہم متحدہ قومیت کا ثبوت پیش کرتے ہیں، مزید کرنا چاہیے۔ اس وقت ہندوستان پر قابض انگریز تھے جنہوں نے ملک میں آکر طرح طرح سے اذیتیں پہنچائیں اور ملک کے سیکولر نظام کو مجروح کیا۔ آج ہمارے سامنے فرقہ پرست طاقتیں ہیں جونہ صرف ہماری تہذیب و تمدن کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں بلکہ متحدہ قومیت کے تصور کو بھی پامال کررہی ہیں۔ بھائی چارگی اور امن و امان کو ختم کیا جارہا ہے ۔ اس لیے ملک کی سیکولر اور جمہوری روایتوں کو بحال کرنے اور سماجی اتحاد کو پھر سے زندہ وتابندہ کرنے کے لیے متحدہ قومیت کے اسی تصور کو فروغ دینا ہوگا جس کو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے پیش کیا تھا۔ تاکہ ہندوستانی معاشرہ یکجہتی اور پر امن روایات کا حسب سابق امین بن سکے ۔
-------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/meaning-united-nationalism-india/d/135232
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism