طالبان اور اسلامی شدت پسند طرز حکومت کے متعلق ایک الگ نظریہ رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں صرف خلافت ہی اسلامی طرز حکومت کی حیثیت سے قابل قبول ہے۔ وہ مسلم حکومتوں کے خلاف برسر پیکار ہیں اور انہیں غیر اسلامی اور کفر پر مبنی حکومت قرار دیتے ہیں۔ انکے نزدیک جمہوریت کفر پر مبنی طرز حکومت ہے اور مسلم ممالک کی جمہوری حکومتوں کے منتخب رہنما ان کی رائے میں کافر ہیں۔ عوام جو ان رہنماؤں کو منتخب کرتے ہیں وہ بھی ان کی نگاہ میں کافر اور قابل گردن زدنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بے گناہ اور نہتے شہریوں کو رہائشی علاقوں، تجارتی مراکز اور عبادت گاہوں میں خودکش بم دھماکوں میں ہلا ک کرتے ہیں۔
ہم طالبان کے ترجمان رسالے نوائے افغان جہاد میں شائع شدہ دو مضامین یہا ں پیش کررہے ہیں جو مئی کے شمارے میں شامل ہیں۔ یہ مضامین جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے رد اور تنقیص میں ہیں۔ ان مضامین میں مضمون نگاروں نے اسلامی جمہوریت کو اسلام مخالف ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے اور اس کی حمایت میں دور از کار اور مضحکہ خیز دلائل اور منطق پیش کئے ہیں۔ ان کے مطابق اسلامی جمہوریت کا تصور بے بنیاد اور نا قابل قبول ہے جبکہ پاکستان کے روحانی بانی علامہ اقبال نے اشتراکی جمہوریت اور روحانی جمہوریت کو پاکستان کے لئے پسند فرمایا۔ مگر طالبان میں موجود جہلا اور تنگ نظر نام نہاد علما اسلام اور جمہوریت کو ایک دوسرے کی ضد ثابت کرنے پر تلے ہیں اور اس لئے اسلامی جمہوریت کی اصطلاح کو مجموعہ اضداد بتاتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ پالیٹیکل سائنس (پا لیٹکس اور سائنس) ، جینیٹکس انجینئرنگ ( جیندٹکس اور انجینئرنگ) اور ان جیسے دوسرے درجنوں جدید اصطلاحات کو بھی مجموعہ اضداد قرار دینگے جو جدید دور کے تقا ضوں کے مطابق وضع کئے گئے ہیں۔۔۔ نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
--------------
اسلامی جمہوریت
محمد سعید حسن
مئی ، 2013
اٹھتے بیٹھتےاس قسم کےجملےآپ کی سماعت سے کبھی نہ کبھی ٹکرائے ہوں گے ..... جمہوریت مغرب کی سوغات ہے۔ خرابی ہی خرابی ہے۔ یہ ٹھیک ہےکہ یہ چیز ان کے معاشروں میں چل سکتی ہے لیکن ہمارے معاشرے رومن تہذیب پر نہیں بلکہ اسلامی تہذیب پر بنے ہیں۔ یہاں مغربی جمہوریت نہیں چل سکتی ۔ ذرا سا کُرید ا جائے کہ یہ جمہوریت ، جس کی خاطر کٹنے مرنے کی قسمیں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے، یہ بھی نہیں ہونی چاہیے تو اس سے ملتا جلتا جواب ملتا ہے: مغربی جمہوریت واقعی خرابی ہی خرابی ہے لیکن ہم اسلامی جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ یعنی کہ جب جمہوریت کو اسلامیا لیا جائے ( جیسے کپڑوں کو رنگوا لیا جاتا ہے) تو پھر وہ اسلامی جمہوریت بن جاتی ہے اور اس پر ایمان لانانہایت ضروری ہوجاتا ہے۔
امید ہے کہ اس کے ساتھ ہی اس طرح کاایک اور منظر بھی نظروں میں گھوم گیا ہوگا۔ کہیں کوئی خطیب شعلہ نوا تو کہیں کوئی صاحب طرز ادیب، اہلِ مغرب کو ان کی حیثیت یاد دلاتے ہوئے یو ں کہتے لکھتے پائے جاتے ہیں: ‘‘ مغرب والو! یہ جمہوریت ،جس کے تم راگ الاپتے تھکتے نہیں ہو، جس کی خاطر لاکھوں ٹن بارود برسا کر ڈکٹیٹر وں کو مٹاتے ہو، یہ ہمارے یہاں تب سے رائج تھی جب تم کھالوں سے بنا لباس پہنتے اور قبائلی زندگی گزارتے تھے’’۔ سینہ ذرا سا پھول جاتا ہے۔ جدید دنیا میں اپنا احساس کمتری کچھ کچھ مٹتا محسوس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جمہوری معرکہ سر کرنے کے بعد اب بس ٹیکنالوجی کی دوڑ رہ گئی ہے ..... وہ بھی لے دےکے ہوجائے گی۔
اگر کبھی دست بستہ جھجکتے جھجکتے ، ادب آداب کے تمام قرینے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ پوچھنے کی جسارت کر ہی لی جائے کہ جمہوریت کے ساتھ اسلامی کا پیوند لگانے کے بجائے اگر خلافت یاامارت کے الفاظ استعمال کرلیے جائیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا تو گرما گرم قسم کا جواب موصول ہوتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ نکال کر اس میں جو بچتا ہے وہ کچھ اس طرح ہوتا ہے: اسلامی جمہوریت اور خلافت اور اسلامی امارت میں کوئی فرق نہیں ہے۔دونوں ایک ہی جیسے الفاظ ہیں ۔ بر خور دار! دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے اور یہ اصطلاح مشہور ہے ۔ اگر اسے ہم اپنے مطلب کے لیے استعمال کرلیں تو کون سی آفت پڑتی ہے۔
آفت کے مسئلے کو ایک طرف رکھ کر، خالی الذہن ہوکر سوچا جائے تو یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ لفظوں کی کہانی لمبی ہوتی ہے۔ پھر لفظوں میں سے بعض الفاظ اصطلاحات کی شکل اختیار کر جاتے ہیں ۔ اگر چہ ان لفظوں کے او ربھی استعمالات انسان کرتے ہیں لیکن جب وہ کسی خاص فن یا زندگی کے کسی خاص شعبے یا علوم میں سےکسی خاص ترتیب میں بولے جاتے ہیں تو اس کے معنی وہ نہیں رہتے جو لغات (dictionaries) میں لکھے ہوتے ہیں ۔ اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ انگریزی میں سور کو pig کہتے ہیں انگریزی لغت میں اس کے کم وبیش 9 مختلف مطلب لکھتے ہیں ۔ ان میں سے ایک مطلب پولیس مین بھی ہے اور ایک مطلب قابلِ اعتراض کردار والی عورت بھی ۔ اسی طرح try کے ( verb) یا فعل کے طور پر (6) مطلب ہیں۔ ایک تو کوشش کرنا ہے اور ایک قانون کی اصطلاح میں کسی پر مقدمہ کی کارروائی کرنا ہے۔ جب بھی قانون کی زبان میں اس لفظ کو استعمال کیا جائے گا تو اس کا خاص مطلب لیاجائے گا ۔ اسی طرح سے جمہوریت بھی ایک اصطلا ح ہے اور خلافت اور امارت بھی ایک اصطلاح ہے۔
یہاں ایک بات ذہن نشین کر لینا اچھاہوگا کہ ایک اصطلاح کےمقابلے پر دوسری اصطلاح کیسے بنتی ہے ۔ با لکل سادہ سی بات ہے۔ ایک اصطلاح موجود ہے تو دوسری اصطلاح پہلی اصطلاح سے جن جگہوں پر اختلاف ہیں انہیں واضح کرنے کے لیے بولی جاتی ہے ۔ دیکھئے ، اصطلاح بنائی ہی کیوں جاتی ہے؟ اس کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے کہ بہت سارے جملوں اور بہت ساری explanations کو ایک لفظ میں بند کردے۔ جمہوریت کی اصطلاح کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔ یہ کہانی اُس کہانی سےبہت مختلف ہے جو خلافت او رامارت کے لفظ کے پیچھے ہے۔ ظاہر ہے کہ جب پس منظر back grounds مختلف ہوں گے تو پھر ان کےمعنی بھی مختلف ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اصطلاح کے مقابلے پر اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کامقصد ان اختلافات ( differences) کو واضح ( highlight) کرنا ہوتا ہے جو ان دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو انتہائی مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوتی ہے ۔ اس کی ایک جھلک دیکھتے چلتے ہیں۔
آپ، میں اور ایک قاتل اور ایک ڈکیت کتنی طرح سے، کتنے ہی پہلوؤں سے ایک جیسے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً دونوں ہی کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ دونوں ہی زندہ رہنے کے لیے سانس لینے کےمحتاج ہیں۔ دونوں بغیر سوئےمسلسل کام نہیں کرسکتے ۔ جب اتنی ساری موافقتیں ( similarities) دونوں میں جمع ہوگئی ہیں تو پھر آپ کے تعارف میں یہ کہنا ہوگا کہ آپ بھی ان معاملات میں اتنے ہی ڈکیت ہیں جتنا سلطانا ڈاکو! یا یہ کہنا کیسا ہوگا کہ آپ بھی سونے میں اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنا زرداری ! اسی طرح کوئی بھی شخص کھانے پینے میں قاتل ، چور اور شرابی ہوسکتا ہے ۔ اس سے زیادہ بے تکی بات آخر اور کیا ہوگی؟ یہ توتھے رویّے ۔ اسی طرح سےنظریات اور افکار کو لے لیں ۔ عیسائیت یہودیت ، کمیونسٹ کیپٹل ازم اور اسلامی بدھ مت نام کی کوئی چیز اس دنیامیں صرف اس لیے نہیں پائی جاتی کیونکہ ہم ان اصطلاحات کوالگ الگ طور پر ایک دوسرے سےمختلف پس منظر ( back grounds) رکھنے کی وجہ سے ایک دوسرے سےمختلف تصور کرتے ہیں اور اسی لیے یہ الفاظ اصطلاح کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ۔ حیرانی ہے کہ ہم انہیں تو بے تکا ، بے جوڑا او ربے ہودہ سمجھتے ہیں لیکن اگر اسلامی جمہوریت کی اصطلاح استعمال کی جائے تواسےیوں قبول کر لیتے ہیں جیسے اس سے زیادہ منطقی (logical ) اور عقلی (rational ) اصطلاح شاید موجود ہی نہیں ہے۔ اسلام کا اپنا تصور حکومت ہے۔ اس کےلیے ایک اصطلاح باقاعدہ طور پر موجود ہے اور جب تک استعمار نے آکر ہمارے علاقوں میں جمہوریت کی ڈفلی نہیں بجائی تھی تب تک لوگ اسی کو استعمال کرتے تھے ۔ یہ خلافت ہے۔ عموماً جو گھسی پٹی دلیل ان دونوں اصطلاحات کو ایک کرنے کےلیے دی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ اسلام میں شورائیت ہے او رجمہوریت میں بھی ۔ لہٰذا دونوں ایک جیسی ہیں ۔ چلیں، بات بڑھانےکی غرض سےیہ مان بھی لیاجائے کہ دونوں میں شورائیت ہے تو بات پھر بھی نہیں بنتی ۔ کیونکہ اصطلا حات اختلافات کی بنیاد پر بنتی ہیں ناکہ اتفاقات کی بنیاد پر ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس شورائیت کا دھوکہ جمہوری نظام میں ہورہا ہوتا ہے وہ بھی خلافت والی شورائیت نہیں ہوتی ۔ وہ اس طرح کہ خلافت میں شوریٰ تَشْرِیْع بِغَیْرِ مَا اَنْزَلَ اللہ پر نہیں ہوتی جب کہ جمہوریت میں یہ اسی پر ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ بخار اور درد مرض نہیں ہوا کرتے بلکہ مرض کی علامات symptoms ہوتے ہیں ۔ یہی معاملہ ان نعروں اور اصطلا حات کا ہے ۔ ان کی اکثریت شدید کنفیوژن لیے ہوتی ہے ۔ بولنے والاکچھ اور مراد لے رہا ہوتا ہے ، سننے والا کچھ اور جب کہ جو کچھ کہا جارہا ہوتا ہے اس کےمعنی کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ اس چوں چوں کے مربے میں سے ہر فریق اپنی اپنی مرضی کے معانی نکال کر کام چلارہا ہوتا ہے ۔ مرض کیا ہے؟ مرض اس فاسد نظام کا حصّہ بن کر اسے کسی نہ کسی درجے میں تسلیم سا کرلینا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دینے کےلیے جوشے لے کر آئے تھے اس کےمتعلق اللہ کا فرمان ہے:
تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْ قَانَ عَلیٰ عَبْدِہ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِ یْراً
‘‘ نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارےجہاں والوں کےلیے ڈرانے والاہو’’۔
الفرقان : حق اور باطل میں تمیز کردینے والا ۔ وہ شے جس سے حق اوراہلِ حق کے پرچم ، ان کےنشان دور سے پہچانے جائیں اور اہلِ باطل کے نعرے اور علم الگ ہوکر رہ جائیں۔ دیکھنے والے کو انسانی زبان اور وحی میں فرق نظر آجائے اور خدا کے مجرموں کا راستہ کھول کر سامنے کردیا جائے ۔ اس الفرقان کے لائے ہوئے نظام حکومت کی بنیاد اللہ کے احکامات کو لوگوں کےدستوروں ، رواجوں ، نظاموں ، قانونوں پر نافذ کردینا ہے۔ اس کی اتاری ہوئی شریعت کو وہ مقام دینا ہے جس میں وہ انسانوں کی اکثریت کی منظوری کی محتاج بنی دستوری سفارشات کی شکل میں ذلیل نہ کی جاتی رہےبلکہ اس کا اللہ کی جانب سے نازل کیاہوا ہو نا خود بخود اسے قانون کا درجہ دے دے جس کےلیے دو تہائی تو کیا ایک فرد کی بھی رضا در کار نہ ہو!
-------------
‘ جمہوریت’ علمائےکرام کی نظر میں
عبد الرؤف انصاری
مئی ، 2013
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّہ ِإِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ ھمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ( الانعام:116)
‘‘ اور اگر آپ زمین والوں کی اکثریت اطاعت کریں گے۔ تو وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کےراستے سے گم راہ کردیں گے’’۔
تفسیر روح المعانی، جلد 4، صفحہ 11 پر علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
‘‘ یہ خود بھی گم راہ ہونا ہےاور دوسروں کو بھی گمراہ کرنا ہے، اور فاسد شکوک ہیں جو جہالت اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑنے سے پیدا ہوتے ہیں ( ان یتبعون ) وہ پیروی کرتے ہیں شرک اور گم راہی کی’’۔
وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (الأ عراف: 187)
‘‘ اور لیکن اکثر آدمی علم نہیں رکھتے ’’۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں وان تطع اکثر من فی الارض کی تشریح میں جمہوریت کا رد فرمایا۔
قاری طیّب قاسمی رحمہ اللہ ‘‘ فطری حکومت ’’ میں لکھتے ہیں:
‘‘ یہ (جمہوریت ) رب تعالیٰ کی صفت ‘ ملکیت’ میں بھی شرک ہے اور صفتِ علم میں بھی شرک ہے’’۔
‘‘ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ مزدور اور عوام کی حکومت ہے ایسی حکومت بلا شبہ حکومت کا فرہ ہے’’۔
مولانا محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ ‘‘ فتاویٰ محمودیہ’’، جلد 20، صفحہ 415 میں لکھتے ہیں :
‘‘ اسلام میں اس جمہوریت کا کہیں وجود نہیں (لہٰذا یہ نظام کفر ہے) اور نہ ہی کوئی سلیم العقل آدمی اس کے اندر خیر تصور کرسکتا ہے’’۔
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ‘‘ ملفوظاتِ تھانوی ’’ ، صفحہ 252 پر لکھتے ہیں :۔
‘‘ ایسی جمہوری سلطنت جو مسلم اور کافر ارکان سے مرکّب ہو۔ وہ تو غیر مسلم (سلطنتِ کافرہ) ہی ہوگی ’’۔
ایک وعظ میں فرماتے ہیں :
‘‘ آج کل یہ عجیب مسئلہ نکلا ہے کہ جس طرف کثرتِ رائے ہو وہ بات حق ہوتی ہے۔ صاحبو! یہ ایک حد تک صحیح ہےمگر یہ بھی معلوم رہے کہ رائے سے کس کی رائے مراد ہے؟ کیا ان عوام کا لانعام کی؟ اگر انہی کی رائے مراد ہے تو کیا وجہ ہےکہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کی رائے پرعمل نہیں کیا، ساری قوم ایک طرف رہی اور حضرت ہود علیہ السلام ایک طرف۔ آخر اُنہوں نے کیوں تو حید کو چھوڑ کر بُت پرستی اختیار نہیں کی؟ کیوں تفریق قوم کا الزام سر لیا ؟ اسی لیے کہ وہ قوم جاہل تھی ۔ اس کی رائے جا ہلانہ رائے تھی ’’ ۔ ( معارف حکیم ُ الامّت ، صفحہ 617) ۔
ایک او رموقع پر ارشاد فرماتے ہیں :۔
‘‘ مولانا محمد حسین الہٰ آبادی رحمہ اللہ نے سید احمد خان سے کہا تھا کہ آپ لوگ کثرت رائے پر فیصلہ کرتےہیں، اس کا حاصل یہ ہے کہ حماقت کی رائے پر فیصلہ کرتے ہو، کیونکہ قانونِ فطرت یہ ہے کہ دنیا میں عقلا کم ہیں اور بے و قوف زیادہ ، تو اس قاعدے کی بنا پر کثرتِ رائے کافیصلہ بے وقوفی کا فیصلہ ہوگا ’’۔ ( معارفِ حکیمُ الامت ، صفحہ 626)
مفتی رشید احمد رحمہ اللہ ‘‘احسن الفتاویٰ ’’ ، جلد 6، صفحہ 24 تا 26 میں لکھتے ہیں :۔
‘‘ اسلام میں مغربی جمہوریت کاکوئی تصور نہیں، اس میں متعدد گروہوں کا وجود ( حزب اقتدار و حزبِ اختلاف) ضروری ہے، جب کہ قرآن اس تصّور کی نفی کرتا ہے:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّہِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ( آل عمران : 103)
‘‘ اللہ تعالیٰ کی رسی کوسب مل کرمضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو’’۔
اس میں تمام فیصلے کثرتِ رائے سے ہوتے ہیں جب کہ قرآن اس اندازِ فکر کی بیخ کنی کرتا ہے:۔
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّہِ (الا نعام : 116)
یہ غیر فطری نظام یورپ سے در آمد ہوا ہےجس میں سروں کو گنا جاتا ہے تو لا نہیں جاتا ۔ اس میں مرد و عورت ، پیر و جواں ، عامی و عالم بلکہ دانا و نادان سب ایک ہی بھاؤ تُلتے ہیں ۔ جس اُمید وار کے پلّے ووٹ زیادہ جائیں وہ کامیاب قرار پاتا ہے اور دوسرا سراسر نا کام۔ مثلاً کسی آبادی کے پچاس علما، عقلا اور دانش وروں نے بالا تفاق ایک شخص کو ووٹ دیے ، مگر ان کے بالمقابل علاقہ کے بھنگیوں ، چرسیوں اور بے دین اوباش لوگوں نے اس کے مخاطب اُمید وار کو ووٹ دے دیے جن کی تعداد کا ون ہوگئی تو یہ اُمید وار کا میاب اور پورے علاقہ کے سیاہ سفید کا مالک بن گیا ۔ یہ تمام برگ و بار مغربی جمہوریت کے شجرہ خبیثہ کی پیداوار ہے۔ اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس طریقے سے قیامت تک اسلامی نظام آسکتا ہے۔ ‘ الجنس یمیل الی الجنس ’ عوام (جن میں اکثر یت بے دین لوگوں کی ہے) اپنی ہی جنس کے نمائندے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں ۔
اسلام میں شورائی نظام ہے جس میں اہل الحل و العقد غور و فکر کر کے ایک امیر کا انتخاب کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت چھ اہل الحل والعقد کی شوریٰ بنائی جنہوں نے اتفاق رائے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا۔ اس پاکیزہ نظام میں انسانی سروں کو گننے کے بجائے انسانیت کا عنصر تو لا جاتاہے ، اس میں ایک ذی صلاح مدبرّ انسان کی رائے لاکھوں بلکہ کڑوروں انسانوں کی رائے پر بھاری ہوسکتی ہے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کسی سے استشارہ کے بغیر صرف اپنی ہی صواب دید سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا ، آپ کا یہ انتخاب کس قدر موزوں مناسب اور جچا تُلا تھا ’’۔
‘‘ احسن الفتاویٰ ’’ ، جلد 6، صفحہ 94 میں لکھتے ہیں :
‘‘ جمہوریت کومشاورت کے ہم معنی ٰ سمجھ کر لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ جمہوریت عین اسلام ہے۔ حالانکہ بات اتنی سادہ نہیں ہے ۔ در حقیقت جمہوری نظام کے پیچھے ایک مستقل فلسفہ ہے۔ جو دین کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا ۔ اور جس کے لیے سیکولر ازم پر ایمان لانا تقریباً لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے’’۔
مولانا عاشق الہٰی بلند شہری رحمہ اللہ ‘‘ تفسیر انوار البیان ’’ جلد 1، صفحہ 518 پر لکھتے ہیں :
‘‘ ان کی لائی ہوئی جمہوریت با لکل جاہلانہ جمہوریت ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ’’۔
مفتی نظام الدین شا مزئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :۔
‘‘ آج مجھے جو بات سےعرض کرنی ہے وہ یہ کہ اب بھی اگر دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین غالب ہوگا تو وہ ووٹ کے ذریعے سےنہیں ہوسکتا ..... کہ آپ سیاسی جماعت بنا کر مغربی جمہوریت کے ذریعے سے آپ اللہ کے دین کو بڑھا ناچاہیں ....... اللہ کے دین کو غالب کرنا چاہیں ..... تو کبھی بھی دنیا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین ووٹ کے ذریعے سے ...... مغربی جمہوریت کے ذریعے سے غالب نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ اس دنیا کے اندر اللہ کے دشمنوں کی اکثریت ہے ....... فساق اور فجار کی اکثریت ہے ....... او رجمہوریت جو ہے وہ بندوں کو گننے کانام ہے، بندوں کو تولنے کا نام نہیں ہے۔ اقبال نے کہا تھاکہ
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے
وہاں بندوں کو گنا کرتے ہیں کہ کتنے سر ہیں ..... لہٰذا مغربی جمہوریت کے ذریعے کبھی اسلام نہیں آسکتا ہے ...... جیساکہ پیشاب کے ذریعے کبھی وضو نہیں ہوسکتا اور جیسا کہ نجاست کے ذریعے سے بھی طہارت اور پاکی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ اسی طرح سے لادینی اور مغربی جمہوریت کے ذریعے سے کبھی اسلام غالب نہیں آسکتا ....... دنیا میں جب بھی اسلام غالب ہوگا تو اس کا واحد راستہ وہی ہے ....... جو راستہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا تھا ...... اور وہ جہاد کا راستہ ہے کہ جس کے ذریعے سے اس دنیا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین غالب ہوگا ۔ اسلام اگر آئے گا توجہاد کے ذریعے سے آئے گا ..... اور اس دنیامیں جہاں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین غالب ہوگا تو وہ جہاد کے ذریعے سے ہوگا ...... ووٹ کے ذریعے یا مغربی جمہوریت کے ذریعے سےکبھی بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین دنیا میں غالب نہیں ہوسکتا نہ ہی اس کے ذریعے سے کبھی اسلام آسکتا ہے’’۔
مو لانا فضل محمد دامت بر کا تہم ‘‘ اسلام خلافت ’’، صفحہ 117 پر لکھتے ہیں :
‘‘ اسلامی شرعی شوریٰ او رموجودہ جمہوریت کے درمیان اتنا فرق ہے جتنا آسمان اور زمین میں ۔ وہ مغربی آزاد قوم کی افرا تفری کا نام ہے۔ جس کا شرعی شورائی نظام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ’’۔
‘‘ اسلامی خلافت ’’ ، صفحہ 176 پر لکھتے ہیں :۔
‘‘ کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریت ، یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی کہے کہ اسلامی شراب ’’۔
مولانا عبدا لرحمٰن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ اسلاف کی سیاست اور جمہوریت’’ کے صفحہ 26 اور 27 میں لکھتے ہیں :
‘‘ کیا کسی جمہوری ملک کی عدالت اللہ کے نازل کردہ دستور کے مطابق چور کاہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرسکتی ہے جب کہ اسے اسمبلی نے قانون نہ بنایا ہو؟ آخر اسمبلی کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دستور و قانون پر پھر سے غور کرے۔
اس کا جی چاہے تو اس کو قانون بنادے، جی چاہے تو ٹھکرادے ۔ اسمبلی کو یہ اختیار دینا ہی شرک فی الحا کمیۃ ہے۔ اسمبلی کی منظور کے بعد دستور مانا تو کیا مانا؟ یہ اللہ کی اطاعت ہوئی یا اسمبلی کی؟ ’’
مولانا عبدالرحمٰن کیلانی اسی کتاب کی ابتدا میں صفحہ 9 پر لکھتے ہیں :
‘‘ جمہوریت تو حق و باطل میں صلح کرواتی ہےجب کہ جہاد سے حق غالب آتا ہے اگر چہ عددی کثرت حاصل نہ بھی ہو بلکہ اہل حق کی اقلیت کو باطل کی اکثریت پر غلبہ نصیب ہوجاتا ہے اور اسی راستے سےخلافت کا قیام بھی ممکن ہے’’۔
پروفیسر عبدا للہ بہاول پوری رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب ‘‘ اسلام اور جمہوریت میں فرق’’ کےصفحہ 7 پرلکھتے ہیں :۔
‘‘ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں جمہوریت ہی رہے، خواہ ‘‘ اسلامی جمہوریت’’ کے نام سے ہی ہو۔ ان کو خطرہ ہے کہ اگر مسلمان جمہوریت کے چنگل سے نکل گے تو وہ ضرور اسلام کے نظام خلافت کی طرف دوڑیں گے ۔ مسلمانوں کو تو خلافت یاد نہیں رہی لیکن کفر کو وہ کبھی نہیں بھولتی۔ کفر کے لیے وہ پیغام موت ہے اور اسلام کے لیے وہ آب حیات۔ کفر کو جو نقصان پہنچا وہ خلافت ہی سے پہنچا ہے۔ وہ خلافت راشد ہ ہو ، یا خلافت بنو امیہ ، خلافت عثمانیہ ۔ بیت المقدس کو فتح کیا تو خلافت نے ، یورپ کو تاراج کیا تو خلافت نے ۔ جمہوریت نے تو خلافت کے فتح کیے ہوئے علاقے دیے ہیں لیا کچھ نہیں۔ اسلام کے عروج اور فتوحات کا زمانہ یہ خلافتیں ہی ہیں، جمہوریت نہیں ’’۔
مئی ، 2013 بشکریہ : نوائے افغان جہاد
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-politics/taliban-tirade-democracy-based-sheer/d/11687
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/taliban’s-tirade-democracy-/d/11690