محمد بدر الدین، نیو ایج اسلام
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
القاعدہ جس کا مقصد طاقت کے ذریعہ اسلامی خلافت قائم کرنا ہے ، وہ ،ایشیا میں اسلامی ممالک پر چڑھائی کرنے اور اس پر تسلط کے لئے زمین ہموار کرنے کے لئے، اور امریکہ کی قیادت میں نیٹو فورسز کے لئے ذمہ دار ہے۔ القاعدہ اور اس کی ہم فکر تنظیموں کی دہشت گردانہ سر گرمیوں نے یورپی ممالک میں ان کی فورسز کو ، القائدہ ، طالبان اور الشہاب وغیرہ ،جیسی تنظیموں کے ساتھ لڑنے کے نام پر ، داخل ہونے کے لئے ، زمین فراہم کیا ہے ، عراق کو،القاعدہ کو مدد پہونچانے اور پناہ دینے کے لئے تباہ کیا گیا تھا ، افغانستان کو اسامہ بن لادن ‘ وہ شخص جس پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کا الزام ہے ’ کو پناہ دینے کے لئے تاخت و تاراج کر دیا گیا تھا ، ۔ اور دیگر مسلم ممالک میں بھی جہاں لوگوں کو امریکہ نواز آمر اور حکمرانوں کے خلاف برگشتہ کیا گیا ہے، امریکہ القاعدہ کا بھوت جگاتا ہے ،اور نزاع زدہ ممالک میں اپنی مداخلت کا جواز پیش کرنے کے لئے ، مظاہرین پر القاعدہ کے ذریعہ حمایت اور مدد یافتہ ہونے کا الزام لگاتا ہے ۔
گزشتہ سال، مالی ، ایک درماندہ افریقی ملک جو کبھی فرانس کی ایک کالونی تھا ، نےپھر فرانسیسی افواج کی مداخلت کا سامنا کیا ، کیونکہ وہاں کی حکومت کو ،مغربی القاعدہ (AQMI) اور انصار الدین جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ان کی مدد کی ضرورت تھی جنہوں نے ملک کے شمالی حصے پر قبضہ کر لیا تھا، اور مکمل حجاب، زنا کے لئے رجم کو مسلط کرتے ہوئے ،شرعی قانون کو مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔
آخر میں، فرانسیسی فوج نے ان کو شکست دی اور حکومت کوبحال کیا ۔ یہ تازہ ترین واقعہ ہے کہ کس طرح القاعدہ اور اس کی حلیف تنظیمیں ایک ایسی صورت حال پیدا کر کے ، کہ جس میں ، وہاں کی مقامی حکومت ،ان ہی مغربی ممالک سے مدد چاہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں جن سے وہ نفرت کرتی ہیں ۔القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیمیں ان مغربی ممالک کو مسلم اکثریت والے ممالک میں مداخلت کرنے اور غلبہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں ۔ Keats کی مشہور لائنیں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اس صورتحال پر بر محل جاری ہوتی ہے :
اگر القاعدہ آتا ہے،تو کیا نیٹو پیچھے رہ سکتا ہے
وہ دہشت گرد تنظیمیں جو اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے نام نہاد جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں ، دراصل انہوں نے مغربی ممالک کو ایک بار پھر، مسلم ممالک کو ان کالونیوں میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ میں برطانیہ کی کالونیاں بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ایک کر کے آزاد ہو گئی تھیں۔ زیادہ تر مسلم ممالک برطانیہ کی حکمرانی سے آزاد ہو گئے تھے ، اور وہ اپنے مذہبی اور ثقافتی تشخص کے ساتھ ترقی کر رہے تھے اور کامیاب ہو رہے تھے ،یہاں تک کہ القاعدہ اور طالبان وجود میں آگئے۔
ان کے دہشت گردانہ نظریات نے دو اعتبار سے مسلم ممالک میں تباہی مچائی ہے ۔ پہلا، انہوں نے اس ملک کے امن اور ہم آہنگی کو تباہ کر دیا ،جہاں ان کی اپنی بنیاد تھی ،دوسرا ، انہوں نے ،مغربی ممالک کو ان مسلم ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کا موقع دیا ہے ،جہاں سے وہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے خلاف ان ممالک میں زندگی اور معیشت کو تباہ کرتے ہوئے دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
یہ القاعدہ اور ان کے سیاسی مکھوٹوں کا ،موجودہ حکومتوں کے خلاف سیاسی اضطراب پیدا کرنے ،اور پھر حکومت کے اس اضطراب اور کمزوری سے فائدہ اٹھانے ، کا طریقہ ہے ، وہ حکومت کا تختہ الٹتے ہیں، اور ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جس کا بنیادی قانون شریعت ہو ۔
ایسا ہی مالی میں بھی ہوا تھا جہاں تفرقہ بازوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی اور پھر انصارالدین اور القاعدہ نے شرعی قانون نافذ کرتے ہو ئے ، زانیوں کو سنگسار کرتے ہوئے اور آثار قدیمہ اور مقبروں کو ڈھاتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا ۔ اور انہوں نے قدیم علمی ورثے کو بھی تباہ کر دیا اور سائنس اور علم نجوم پر قیمتی دستاویزات کو برباد کر دیا ۔
تاہم، مالی میں ایک غیر معمولی بات مشاہدے میں آئی۔ حال ہی میں کچھ صحافیوں نے ، 79 صفحہ پر مشتمل دستاویز دریافت کئے ۔ دستاویز پر 20 جولائی، 2012 ء کی تاریخ ہے ، اوراس پر AQMI، کے رہنما عبدالمالک دروكدال کے دستخط ہیں ۔ دستاویز سے پتہ چلتا ہےکہ القاعدہ نے اپنی پالیسی سخت گیر اسلام پسند سے معتدل اسلام پسند کی طرف منتقل کر دی ہے ، تا کہ انہیں اس ملک کی مسلم عوام کے ذریعہ قبولیت حاصل ہو جائے ۔ القاعدہ اور دنیا کی دیگر دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں اور حکومت کے تئیں اپنی انتہا پسند اور تکفیری نقطۂ نظر کے لئے بدنام ہیں۔ لیکن پائے گئے دستاویز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے رہنما نے شریعت کے نفاذ کے لئے اعتدال پسند نقطہ نظر اپنانے کے بارے میں سوچا تھا ، تا کہ مقامی لوگ ان کے مخالف نہ ہو جائیں ،اور بین الاقوامی برادری کو مداخلت کرنے کا موقع نہ مل پائے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ نے تبدیل رویہ کے ساتھ ایک معتدل اسلامی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس دستاویز میں جو جنگجوؤں کے لئے تھا، اس میں زناکے لئے سنگساری اور مزارات کو ڈھانے (جس کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی تھی) کی مذمت کی گیئ تھی اور اسے ایک غلطی قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے دستاویز میں لکھا ہے:
"تم نے ایک سنگین غلطی کی ہے"، انہوں نے لکھا'' آبادی ہمارے خلاف ہو سکتی ہے، اور ہم تمام لوگوں کے خلاف نہیں لڑ سکتے۔ آپ ہمارے تجربہ کو تباہ کرنے ، اس نومولود طفل کو، ہمارے خوبصورت درخت کو ختم کرکرنے کا خدشہ پیداکردیا ہے۔ "
اس دستاویز میں جس کا عنوان ، ‘‘ازاواد (شمالی مالی)میں اسلامی جہاد سے متعلق لائحۂ عمل ’’ تھا ، اس بات کی وضاحت تھی ،کہ کس طرح بتدریج ، عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کئے بغیر ایک اسلامی ریاست قائم کی جا سکتی ہے ۔ دروكدال کا خیال ہے کہ ، ابتداہی میں زنا کے لئے رجم اور زبردستی چوروں کےکا ہاتھ کاٹنے ، جیسے شرعی قوانین کو لاگو کرنے کے بجائے، سب سے پہلے عوام میں ایک عوامی رائے پیدا کرنا اور مقبولیت حاصل کرنا ضروری تھا۔ انہوں نے، ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے لوگوں کے خلاف ،اسلامی قوانین (حدود و قوانین) پر عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ، ان کے خیال میں یہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر پوری آبادی دشمن بن جاتی ہے تو ان کے لیے ان کے خلاف لڑنا ممکن نہیں ہوگا ۔ چھ ابواب پر مشتمل اس دستاویز کے ایک باب میں انہوں نے اپنے فوجی ساتھیوں کو یہ تجویز پیش کی ہے :
"شرعی قانون ، زانیوں کو سزا میں کوڑے مارنے کی اجازت دیتا ہے ، لیکن سب سے پہلے ہمیں لوگوں کو اس نظریہ کا عادی بنانا ،اور انہیں اسلام کی تعلیم دینا ضروری ہے ،اس کے بعد ہی ہم ایسی سزا دینے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں"۔
یہاں یہ ذکر کیا جانا چاہئے کہ AQMI کی ایک حلیف انصار الدین نے ،شمالی مالی میں 333 مقبروں اور مزارات کومنہدم کیا ہے ۔ ان میں سے 18 کو یونیسکو کے عالمی ورثے کا درجہ دیا گیا تھا ۔ حجاب اور رجم کے نفاذ کے ساتھ انہدامات نے ، مالی کے مسلمانوں کے درمیان صدمہ اور غصہ پیدا کردیا تھا ، جس نے عبدالمالک دروكدال کو ،ان کے مستقبل کے منصوبوں کے تعلق سے فکر مند کر دیا تھا ۔
تاہم، ایسا لگتا ہے کہ ان کے اعتدال پسند نظریہ کو انصار الدین اور ان جیسی دیگر تنظیمیں کی منظوری نہیں ملی ، جو انہدامات ، لوگوں کے قتل، اور رجم میں بہت آگے نکل گئے ہیں ،جس نے آخر کار ، مالی میں بین الاقوامی مداخلت کے حق میں،اقوام متحدہ کو ایک قرارداد منظور کرنے پر مجبور کر دیا ، جس نے بالآخر ان غارت گروں پرغلبہ حاصل کر ہی لیا ۔ جبکہ پلہ چھاڑتے ہوئے ، انہوں نے اپنے اس ‘عظیم سیاستدان ’ عبدالمالک کے نام نہاد‘ تصوراتی خاکہ ’ کو ریزہ ریزہ کر دیا ، جوفرانسیسی اخبار لبریشن کے دو صحافیوں کے ہاتھ لگے تھے ۔
ہو سکتا ہے کہ اب وہ ‘مجاہد’ کسی غار یا ٹمبکٹو کے جنگل میں چھپے ہوئے ہوں ، اور اپنی تباہی اورکسی دوسرے آزاد مسلم ملک کی غلامی کے لئے ایک ‘ تصوراتی خاکہ اور لائحۂ عمل ’ کی تیاری میں مصروف ہوں۔
سعودی عالم عبدالعزیز فوزان نے مسلم ممالک کے مسائل کے لئے بجا طور پر القاعدہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان (القاعدہ) کی سرگرمیاں "اسلامی ملک کے دشمنوں " کے لئے ،ان کے معاملات میں مداخلت کا دروازہ کھولتی ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/al-qaida’s-roadmap-self-destruction/d/10577
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/al-qaida’s-roadmap-self-destruction/d/10693