New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 07:12 AM

Urdu Section ( 27 Jul 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

An Analysis of Wakf Bill and Select Committee Report وقف بل اور سلیکٹ کمیٹی رپورٹ کا جائزہ

 

محمد عبدالرحیم قریشی

3 جولائی ، 2013

آزاد ہندوستان میں اوقاف کی نگہداشت و نگرانی کا پہلا قانون 1954 میں بنا۔یہ قانون  کئی پہلوؤں سے ناقص تھا ۔ اس لئے حکومت  ہند نے وقف  انکوائری  کمیٹی  تشکیل دی ۔ جس کی رپورٹ  پیش ہونے کے برسوں بعد 1984 ترمیمی قانون منظور ہوا جس پر مسلمانوں  کی کئی جماعتوں نے سخت نکتہ چینی کی جس پر حکومت نے اس کے کئی دفعات کے نفاذ  کو معطل کردیا اور اس کے بعد 1995 میں نیا قانون بنا گیا  جو اب تک  نافذ ہے  1995 کے قانون  کو کئی اعتبارات سے غیر تشفی بخش قرار دے کر کئی ترمیمات کا مطالبہ  کیا گیا ۔ اس قانون پر غور کرنے کے لئے راجیہ سبھا نے ایک جائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی تشکیل  دی ، جس کے پہلے صدر  موجودہ  مرکزی وزیر اقلیتی  بہبود جناب کے ۔ رحمٰن  خان صاحب تھے اور بعد میں  اس وقت  کے رکن راجیہ  سبھا  لال جان پاشاہ  صاحب کو صدر بنایا گیا ۔ اس کمیٹی  نے ہر اسٹیٹ  کا دورہ کیا اور وہاں کے اوقاف  کی صورتحال  معلوم  کی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ  نے بھی  اس کمیٹی  کو اپنی  تجاویز رو انہ کیں ۔ لال جان پاشاہ  صاحب دور میں وقف کے قانون  کا ایک مسودہ  مرتب  کر کے حکومت  کو پیش کیا گیا ،ان کی راجیہ سبھا کی رکنیت کی مدت ختم ہونے پر پھر کے ۔ رحمٰن خان کو کمیٹی کا صدر بنایا گیا  جس نے ایک تفصیلی رپو رٹ حکومت پیش کی۔

وقف بل 2010 : جناب سلمان خورشید صاحب نے یہ حیثیت  مرکزی وزیر اقلیتی بہبود  2010 میں لوک سبھا میں ایک بل (مسودہ قانون) بڑی چالاکی کے ساتھ پیش کیا، اس کی تفصیل  اس وقت  ضروری نہیں ہے اور بس گھنٹہ   بھر میں لوک سبھا کے پاس کروالیا۔ جب اس بل کا آل انڈیا  مسلم پرسنل لاء بورڈ نے جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ اس میں کئی خامیاں  ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کئی تجاویز کو نظر انداز کرنے کے ساتھ جائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی  کی بعض اہم سفارشات کو بھی رد کردیا گیا ۔اس بل پر بورڈ کےایک وفد  نے سلمان خورشید صاحب سے مل کر گفتگو کی انہوں نے ہماری تقریباً تمام تجاویز  کی اہمیت کو تسلیم کیا، جب ہم نے ان سےکہا اس کو راجیہ  سبھا میں پیش کرنے سے پہلے ترمیمات اس میں شامل کی جائیں ۔ اس پر انہوں  نے کہا کہ راجیہ سبھا سے منظوری کے بعد وہ ترمیمات پر توجہ دیں گے ۔ ہم نے کہا کہ راجیہ سبھا  سے منظوری کے بعد یہ بل، قانون بن جائے گا او رکوئی ترمیمات  پر توجہ نہیں دے گا بورڈ  نے راجیہ سبھا کے بعض ارکان سے ربط پیدا کر کے ان کو نقائص سے آگاہ کیا چنانچہ راجیہ سبھا  میں جب یہ پیش  ہوا تو ان ارکان کے اعتراضات پر یہ بل  سلیکٹ کمیٹی  کے سپرد غور کےلئے  کیا گیا جس کے صدر نشین  سیف الدین سوز صاحب بنائے گئے ۔

 بورڈ نے اپنی تجاویز  سلیکٹ  کمیٹی  کو روانہ کیں۔ سلیکٹ کمیٹی نے بورڈ کو بھی نمائندگی کے لئے طلب  کیا تھا۔ چنانچہ ایک وفد نے جس میرے علاوہ  عالم دین مولانا محمد ولی رحمانی سکریٹری  بورڈ، جناب یوسف مچھا لا سینئر ایڈوکیٹ شامل تھے۔سلیکٹ کمیٹی کی نشست میں شرکت کی ۔ میں چاہتا تھا کہ ہماری پیش کردہ ایک ایک تجویز  کی وضاحت  کی جائے لیکن سیف الدین سوز صاحب اور دیگر ارکان نے کہا  کہ اس کی ضرورت  نہیں ہے کیونکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی بیشتر ترمیمات کومنظور کر لیا گیا ہے کمیٹی صرف ایک دو تجاویز کے بارے میں  رائے جاننا چاہتی ہے چنانچہ  انہوں نے حکومت مہاراشٹر  ا کی تجویز  کے بارے میں پوچھا  جس میں کلکٹر  اور دیگر  عہدیداران  ضلع  کو وقف ایڈ منسٹر یش جوڑنے کی بات کہی گئی تھی ۔ ایک دو اور باتوں پر یہ نشست ختم ہوگئی۔

سلیکٹ  کمیٹی رپورٹ : سلیکٹ کمیٹی نے اپنی رپورٹ  راجیہ سبھا کو پیش کردی۔ جب اس رپورٹ کامطالعہ کیا گیا تو  معلوم  ہوا کہ یہ رپورٹ اطمینان  بخش  نہیں ہے۔ یہ موقع نہیں ہے کہ اس رپورٹ  کاپورا جائزہ ناظرین کےسامنے پیش کیا جائے چنداہم امور پر اکتفا  کرتا ہوں ۔ وقف  کی تعریف میں یہ ضروری  قرار دیا گیا ہے کہ وقف کرنے والا مسلمان ہو، یہ شرط  وقف کے قوانین میں 1954 سےلے کر 1995 تک نہیں تھی ۔ بورڈ کا اصرار رہا ہےکہ ایک غیرمسلم بھی اگر ان مقاصد کےلئے جن کو اسلام میں کار ثواب قرار دیا گیا ہے کچھ  مستقلاً  بنادئے تو وہ بھی  وقف ہے ہندوستان کی تاریخ  میں جہاں مسلم  بادشاہوں نے منادر  کے لئے  زمینات  اور انعامات دیئے وہیں بعض ہند راجاؤں اپنی ریاست کےمسلمانوں  کےلئے مسجدیں وغیرہ بنوائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کعبۃ اللہ  میں حطیم کو باقی  رکھا جو کفار قریش  کی تعمیر ہے اور حضرت  عمر رضی  اللہ عنہ  نے بیت المقدس کے اندر  زکریا علیہ السلام کے محراب کومسلم وقف قرار دیا جو عیسائیوں  کی تعمیر ہے، وقف کرنے والا غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے اس تجویز کو سلیکٹ کمیٹی رد کردیا ۔

وقف کے سروے کے بارے میں قانون یہ ہےکہ وقف کا سروے سرکاری گزٹ میں شائع ہونے کے بعد  ایک سال کے اندر اس میں درج کسی جائیدا د کے وقف  ہونے کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔ ایک سال گزرنے کے بعد یہ نوعیت قطعی ہوجاتی ہے ۔بورڈ  کی تجویز تھی کہ کسی جائیداد کے سرکاری گزٹ میں بہ حیثیت  وقف شائع  ہونے کے ایک سال بعد اگر کوئی اس کے خلاف عدالت میں نہ گیا ہوتو ریونیوریکارڈ  میں تبدیلی تصور کیا جائے ۔ کیونکہ ہزار ہا ہزار  جائیداد  یں  ایسی ہیں  کہ گزٹ میں بہ حیثیت  وقف ان کی اشاعت پر پچاس سال گزر چکے ہیں لیکن ریو نیوریکارڈ  میں اس کا اندرراج سرکار کے نام یا کسی اور کے نام ہے جس سے بہت سی جائیداد وں کااتلاف ہوچکا ہے۔ گزٹ  میں اشاعت کو قطیعت قرار دینے کی یہ تجویز  بھی سلیکٹ کمیٹی کو قبول نہیں ہوئی ۔  موجودہ قانون کی دفعہ 87 کی رو سے اگر کوئی وقف  رجسٹرڈ  نہ ہوتو اس کو عدالت میں چار ہ جوئی  کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس دفعہ  کی وجہ سے غیر رجسٹرڈ  وقف پر ناجائز  قبضہ کرنے میں ناجائز قابضین  کو سہولت  ملتی ہے آندھرا پردیش ہائی کورٹ  کے اس  دفعہ  کی بنیاد پر فیصلہ  کی وجہ سے ایک دیہات  کی مسجد سے مسلمانوں  کو ہاتھ دھونا پڑا ۔ بورڈ  کا مطالبہ رہا  ہے کہ اس دفعہ کو ختم کردیا جائے اور قانون سےحذف کردیا جائے ۔ یہ تجویز بھی سلیکٹ  کے دربار میں بار نہ پاسکی ۔ ان کے علاوہ  بھی کئی امور ہیں جن پرکوئی توجہ سلیکٹ کمیٹی  نے نہیں دی۔

حکو مت  سے نمائندگی :سلیکٹ  کمیٹی  کی رپورٹ کو غیر اطمینان  بخش پاکر بورڈ نے نئے وزیر اقلیتی  بہبود جناب  کے۔ رحمٰن خان صاحب سے نمائندگی کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کوششوں اور اس سے پہلے بھی کی گئی کوششوں کا سہرا مولانا محمد ولی رحمانی  صاحب  سکریٹری  بورڈ کے سر جاتا ہے بعض  حلقوں سے یہ جو کہا جارہا ہے کہ سلیکٹ کمیٹی  کی رپورٹ  پر پرسنل لا بورڈ نے کوئی ٹوٹ لگایا ہے، لغو  اور بہمل بات ہے سلیکٹ  کمیٹی کی رپورٹ پر  کوئی نوٹ لگانا ہوتو سلیکٹ  کمیٹی  ہی لگا سکتی  کوئی فرد یا کوئی ادارے کیسے نوٹ لگائے گا۔ یہ الزام لگانے  والے سونچیں ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ  نے تو اپنی تجاویز  سلیکٹ کمیٹی کی تشکیل  سے پہلے حکومت کو دی تھی جو اہم تجاویز ملی، جن کے لئے بورڈ جائنٹ  پارلیمنٹری کمیٹی کے دور سے نمائندگی  کرتا رہا ہے ۔ ان ہی پر زور دیا جارہا ہے ۔معترضین کو صرف استشنائی صورت میں فروخت  کی اجازت  پرکیوں  اعتراض سمجھ میں نہیں آتا ۔ کیونکہ  وقف بورڈ  کو وقف  جائیداد رہن رکھنے کی جو اجازت ا سکے تعلق  سےان کی زبانیں  بند ہیں  اگر مقررہ مدت میں رقم واپس کر کے  انفکار  رہن نہیں  کروا یا گیا تو کیا یہ جائیداد  جس کے پاس رہن  ہے اس کی  نہیں ہوجائے گی اور وہ بھی بہت کم پیسوں  ہی ‘ سستے دام’  چنانچہ  پرسنل لا بورڈ کا مطالبہ ہے کہ رہن کا اختیار ختم کردیا جائے ۔

اب رہا فروخت  کا سوال۔ یہ اختیار  وقف بورڈ  کو 1954 کے قانون  سے اب تک حاصل ہے۔ آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ نے اس اختیار کو غیر معمولی صورت حال تک محدود کر نے کی تجویز دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ  مسجد ، درگاہ، خانقاہ او رامام باڑہ وغیرہ جیسے اوقاف کسی صورت میں فروخت  نہیں کئے جاسکتے ان کے علاوہ  ایسے  اوقاف  جن کا استعمال منشاو مقصد وقف کے لئے تقریباً نا ممکن ہوگیا ہو ان کو فروخت کرنے کا فیصلہ وقف بورڈ  کل ارکان کی دوتہائی تعداد سےکرسکتا ہے مگر اس فیصلہ کی توثیق  ادارۂ بالا دست ( سنٹرل  وقف کونسل یا ٹریبیونل) سے حاصل کرنی ہوگی اور فروخت عام نیلام کے ذریعہ  ہوگی اور حاصل ہونے والی رقم  سے جائیداد  خرید کر اسی منشا  اور مقصد  کےلئےاستعمال کی جائے ۔ تاکہ اس فروخت کے نتیجہ  میں کوئی  وقف ختم نہ ہوجائے ۔ بعض  اصحاب کہتے ہیں کہ شریعت  میں اس کی اجازت نہیں ہے ۔ وقف کے سلسلہ  میں پرسنل لا بورڈ  کی کوششوں میں مولانا محمد ولی رحمانی پیش  پیش رہے ہیں جو فقہ اسلامی پرعبور رکھتے  ہیں ۔

 اگر شریعت میں ایسی  اجازت نہ ہوتی تو کیا وہ آگے آکر یہ تجویز  پیش کرتے ۔ معتر ضین  کسی بھی عالم دین  اور مفتی سے استبدال  وقف،  کے مسئلہ کو پوچھ  لیں اوہ ایسی  اجازت سے واقف  ہوجائیں  گے ۔ استثنائی صورت میں فروخت  کی اجازت ضروری  اس لئے  ہے کہ بعض  حالات اور کوائف  کی وجہ سے ہزاروں جگہ، خصوصاً دیہاتوں میں زمینوں  کا استعمال وقف کے منشا  کے لئے نہیں ہورہا ہے اور یہ بات تقریباً نا ممکن ہوچکی ہے جن  مقامات اور دیہاتوں سےمسلم آبادی اکھڑ چکی  ہیں وہاں  کی اوقافی زمینات  اور مکانات پر نہ کسی مسلم  اور نہ ہی وقف بورڈ کا کنٹرول  ہے تو کیا ان کو ان ہی کے ہاتھوں چھوڑ دیا جائے جو قابض ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسی  غیر معمولی صورت حال کے لئے فروخت کی اجازت  ہو۔ اور  اس پر ایسی پابندی  لگائی جائے کہ کوئی اس کا غلط استعمال نہ کرسکے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  یہ چاہتا ہے کہ کوئی وقف  جو چاہے  کتناہی عرصہ قبل کیا گیا ہو ضائع ہونے  نہ پائے اس کی کوشش وقف  کی جائیداد وں  پر سے ناجائز  قبضوں  کو ہٹانے کے لئے  پبلک  پریما ئسس ایکٹ کی طرح کا قانون بنوانے  کے سلسلہ  میں چل رہی ہے۔

3 جولائی، 2013  بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/an-analysis-wakf-bill-select/d/12784

 

Loading..

Loading..