مظہر عباس ، نیو ایج اسلام
3 جولائی، 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
گزشتہ ہفتے ہی، مصری عالم اور اخوان المسلمین نظریات کے حامی یوسف القرضاوی نے شام کے شیعوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور بشار الاسد کی رافضی حکومت کو گرانے کے لئے شام کے جہاد میں حصہ لینے اور شیعوں کو قتل کرنے کے لئے پوری دنیا کے سنی مسلمانوں سے اپیل کی تھی اس لئے کہ پوری دنیا کے دیگر سنی مسلمان ملاؤں اور خاص طور پر مشرق وسطی اور افریقہ اور پاکستان کے طالبانی تنظیموں کی طرح انہوں نے بھی یہ یقین کر لیا ہے کہ شیعہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور کافر و مشرکین سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ایسے ملاؤں کے مطابق، مشرکوں، ملحدوں اور بت پرستوں کو بخشا جا سکتا ہے لیکن شیعہ (رافضی، مرتد ) کو جینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ القرضاوی جیسے علماء کا بھی یہ ماننا ہے کہ شیعوں کے بچوں کو بھی جینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اس لئے کہ ان کے الفاظ میں سانپ کی اولاد بھی سانپ ہی ہے اورسانپ کو زندہ نہیں چھوڑا جانا چاہئے۔ لہذا، ان کا ضمیر اس وقت نہیں دہلتا جب نام نہاد مقدس جنگجوؤں کے ذریعہ شیعوں کو ان کے معصوم بچوں کے ساتھ ہلاک کیا جاتا ہے ۔ القرضاوی نے شام کے متحارب سنیوں اور شیعوں کے درمیان بات چیت کی اپیل نہیں کی جیسا کہ لاکھوں بیمار، بچوں اور خواتین کو شام کے مسلح تصادم کے دوران المناک نقصان اٹھانا پڑا ۔
ان کا دل ضرور پگھلتا ہے اور ان کا ضمیر ضرور دہلتا ہے جب سنیوں کے درمیان تقسیم ہوتی ہے اس لئے کہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی اور خونریزی نہیں ہونی چاہئے۔ (صرف سنی ہی مسلمان ہیں)۔ لہٰذا القرضاوی کا ضمیر اس وقت دہلا جب انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ مصر کے مسلمان مورسی کی صدارت کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔ مورسی کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان شدید تصادم میں بیس سے زائد مصریوں کی موت ہوئی ۔ چونکہ مورسی پسپا ہو رہےہیں اور مورسی کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، مورسی کے زبردت حامی القرضاوی نے ملک کے سب سے بڑی مذہبی رہنما کے طور پر اپنی شبیہ سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں الجزیرہ ٹی وی پر مذاکرات اور مفاہمت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے قوم کو خطاب کیا۔ انہوں نے مصر کے عوام کو متحد ہونے اور اپنے تمام تنازعات اور اختلافات کو خونریز لڑائی کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے ایک طویل تقریر کی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا ،‘‘ یہ میرے لئے بڑی تکلیف کی بات ہے کہ میں آپ سب(مصر کے لوگ کو متحد) کو ایک کیمپ میں نہیں پا تا تا کہ میں آپ سب سے خطاب کر سکوں ’’۔ '
انہیں ایک وقت میں متحد اس مصری قوم جس نے حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا، کی تقسیم سے اتنی مایوسی ہوئی ،کہ انہوں نے کہا کہ:
"مصریوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ انہیں کس چیز نے اس قدر تقسیم کر دیا ؟ دوسروں کے تئیں محبت، ایثار اور اخوت کے جذبات کو پروان چڑھانے کے بجائے دشمنی اور نفرت پھیلی ہوئی ہے ۔"
اس کے بعد انہوں نے مصری عوام کو کسی بھی اختلاف کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور مذاکرات کا سہارا لینے کا مشورہ دیا ۔
"ملاقات اور ایک دوسرے کی بات سننے کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہے"
اور جیسا کہ اموی اور عباسی حکمرانوں کے زمانے میں پہلے کے اماموں اور مذہبی علماء نے اپنے سیاسی اور نظریاتی مفادات کے لئے اس وقت کے حکمرانوں کی حکمرانی درست ٹھہرانے کے لئے احادیث اور قرآنی آیات کے حوالے پیش کئے القرضاوی نے بھی اسی حکمت عملی کا سہارالیا ۔ انہوں نے بھی مظاہرین کی حوصلہ شکنی کرنے اور مورسی کے مخالفین کو اس کے خلاف بڑھنے سے روکنے کے لئے قرآن اور احادیث کو نقل کیا۔ مندرجہ ذیل میں وہ حدیث اور آیات ہیں جو اسلامی تاریخ کے ہر دور میں اسلامی حکمرانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے نقل کئے گئے ہیں، خواہ وہ کتنے ہی ظالم کیوں نہ ہوں ۔
"اللہ نے فرمایا ، {مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی ۔} (النساء 4:59)
اور نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ،
"(حکمران کے احکامات) کو سننا اور اطاعت کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، خواہ وہ (احکامات) کو پسند کرتا ہو خواہ ناپسند کرتا ہو ، جب تک کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم نہ دے ، جب وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دے تو نہ ہی اس کی بات سنی جائے اور نہ ہی اس کے احکام کی تعمیل کی جائے ۔ "
القرضاوی نے انہیں یہ سمجھایا کہ ‘‘ اگر مورسی ہمیں اللہ کی نافرمانی کا واضح حکم دے تو ہمیں نہ ہی انہیں سننا چاہئے اور نہ ہی ان کی اطاعت کرنی چاہیے ۔
بصورت دیگر ہمیں اس کی اطاعت کرنے کا حکم اس لئے دیا جاتا ہے کہ افراتفری نہ پھیل جائے ۔ ایک صدر کی جگہ دوسرے صدر کو (جمہوریت کے کسی مناسب عمل کے بغیر) کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اسے درست کرنا اور [جو ہم چاہتے ہیں] اس کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔"
تاہم القرضاوی اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ملک کے عوام کی اکثریت حکمران کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے لہٰذا اسلامی نقطہ نظر کے مطابق حکمران کو اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہئے ۔ حال ہی میں، الازہر یونیورسٹی نے یہ کہتے ہوئے اس موضوع پر اپنا موقف جاری کیا ہے کہ مصر کے عام لوگوں کے ذریعہ احتجاج غیر اسلامی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ، اسلامی نقطہ نظر سے بھی مورسی نے حکومت کا حق کھو دیا ہے اس لئے کہ اس کی حکومت نے اخوان المسلمین کے کارکنوں کو ان کے مخالفین کی عصمت دری اور قتل کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ لہذا، وہ حدیث جو القرضاوی نے مورسی کی حکومت کے قانونی جواز کے لئے پیش کی ہے در حقیقت وہ خود اس کے خلاف ہےاس لئے کہ اس نے اپنے حامیوں کو دو بڑے گناہ (عصمت دری اور قتل) کی اجازت دی ہے۔
در اصل مصر کے نئے آئین کے لئے رائے دہندگی میں عوام کی اکثریت کے ذریعہ حصہ نہیں لیا گیا تھا، اس لئے کہ وہ اس قسم کا آئین نہیں چاہتے تھے جو اخوان المسلمین مسلط کرنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت کے درمیان انتخابات میں عوام کی دلچسپی کا فقدان تھا ۔ ملک کے تمام حصوں میں اخوان المسلمین کی مضبوط اور دھمکی آمیز موجودگی نے بھی اس بات کو یقینی بنایا کہ اخوان المسلمین کی حمایت یافتہ آئین کے مخالفین نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا ۔صرف 33 فی صد آبادی نے ہی انتخابات میں حصہ لیا۔ 66 فیصد ووٹ اسلامی شرعی قانون کے حق میں تھے اور 34 فیصد ووٹ اس کے خلاف تھے۔ لہٰذا لوگوں (67 فیصد) کی اکثریت نے انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہا، اور ان 33 فیصد میں جنہوں نے حصہ لیا 33 فیصد نے اس آئین کی مخالفت کی۔ لہٰذا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مصر کے لوگوں کی اکثریت نے اخوان المسلمین کی حکومت اور آئین کی مخالفت کی ہے۔ لہذا، پہلے ہی دن سے اخوان المسلمین اور مورسی کی حکومت، غیر جمہوری غیر قانونی اور غیر اسلامی تھی۔ لہذا، ایک غیر اسلامی حکومت کی مخالفت میں کچھ بھی غیر اسلامی نہیں ہو سکتا۔
یہی وہ حقیقت ہے جو مولانا القرضاوی کے ذہن میں اس وقت تھی جب وہ ٹی وی پر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ 'بات چیت' کرنے کے لئے مسلمانوں سے اپیل کر رہے تھے۔ ہمیں انتخابات سے قبل کی اس بات کو یاد کرنا چاہیےکہ اخوان المسلمین کے ایک مصری رہنما نے یہ اعلان کیا کہ جس نے اخوان المسلمین کی مخالفت کی اس نے اسلام کی مخالفت کی اور جس نے اسلام کی مخالفت کی اسے ہلاک کر دیا جانا چاہئے ۔ یہاں تک کہ انتخابات کے بعد، ایک مصری عالم نے یہ اعلان کیا تھا کہ مظاہرین کو ہلاک کر دیا جانا چاہئے اور خواتین مظاہرین کی عصمت دری کی جانی چاہئے کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ حیرت کی بات ہے، راتوں رات وہ اخوان المسلمین کے رہنما اور علماء کی نظر میں 'مسلم بھائی' بن گئے ۔
دل اور شعور کی اس تبدیلی کی وجہ واضح ہے۔ اب چونکہ مورسی اور اخوان المسلمین کی مخالفت ایک خطرناک سطح تک بڑھ رہی ہے ، وہ پسپا ہو رہے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ گفتگو ، بحث و مباحثہ اور با ہم بات چیت کی بات کر رہے ہیں ۔ اور وہ مورسی کے لیے معاملات کو آسان بنانے کے لئے احادیث اور قرآن کی آیات تلاش کر رہے ہیں۔
یہ علماء کے نفاق کو ظاہر کرتا ہے۔ جب شام میں تنازعات اور بحران کا سیلاب تھا علماء نے مکالمے اور بحث و مباحثہ کی بات نہیں کی اس لئے کہ شیعہ مسلمان نہیں تھے ۔ صرف وہ لوگ مسلمان تھے جو قطر، اردن، ترکی اور سعودی عرب سے ، جبہۃ النصرہ ، القاعدہ اور دوسرے سلفی، وہابی جنگجو بشار الاسد کےخلاف تھے ۔ شیعوں کے بچے خواتین اور بزرگ مسلمان نہیں تھے۔ لہٰذا القرضاوی ان کے تحفظ اور ان کی بھلائی کے بارے میں فکر مند نہیں تھے۔ سلفی جنگجوؤں کے ذریعہ ان کی خواتین اور بچوں کو ہلاک کئے جانے پر ان کا دل نہیں پکھلا ۔ انہیں ایسی احادیث نہیں مل سکیں جو یہ بتا ئے کہ عورتوں، بچوں، مذہبی رہنماؤں، عمائدین اور مندرجہ بالا دشمنوں کے تمام غیر جنگجو کو نقصان اور ضرر نہیں پہنچایا جانا چاہئے ۔ انہیں ایسی احادیث اور قرآنی آیات یاد نہیں آئیں جس میں یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا کفر کا عمل ہے ۔
سچ یہ ہے کہ القرضاوی اخوان المسلمین اور مصر میں مورسی کے مستقبل کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں ، اسی لئے انہوں نے اس کی ایک اعتدال پسند اور باشعور رہنما کے طور پر تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو اعتدال پسندی، رواداری اور مکالمے کی بات کرتا ہے، جبکہ جب شیعوں کے مقابلے میں ایک موقف اختیار کر نےکی بات آتی ہے تو القرضاوی اچانک خود کو ایک جہادی، عدم روادار اور فرقہ وارانہ بھوت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اپنے نظریاتی اور فرقہ وارانہ مخالفین کے خون کا پیاسا ہے ۔
URL
https://newageislam.com/the-war-within-islam/the-hypocrisy-al-qaradhawi/d/12403URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-hypocrisy-al-qaradhawi-/d/12483