خورشید عالم
ہم سبھی اس بات سے اچھی
طرح واقف ہے کہ 1857 کے انقلا ب کی بنیاد سپاہیوں نے ہی ڈالی تھی۔ انقلاب کی
شروعات سے لے کر آخر تک ریڈھ کی ہڈی بھی بنے رہے، انہیں سپاہیوں کے ساتھ
بادشاہ۔شہنشاہوں کا بھی نام ہماری زبان پر آہی جاتا ہے۔
تاہم ان کے ساتھ ساتھ
مزدوروں، کسانوں، زمینداروں، سابق فوجیوں، ادیبوں اور صحافیوں کا بھی کردار کم نہیں
تھا۔ وہ بات اور ہے کہ ان میں سے کئی نام ایسے ہیں، جو گمنامی کے اندھیرے میں گم
ہوگئے!
مولوی محمد باقر یک ایسا
ہی نام ہے۔
1857کے انقلاب میں ایک انقلابی سرگرم تھا،جنہوں نے اپنے صحافت سے
انگریزوں سے بغاوت کی۔
کہتے ہیں کہ انہوں نے بغیر
تلوار اٹھائے اپنی قلم کی طاقت سے انگریزوں کے ناک میں دم کردیا تھا۔
کیسے آئیے جانتے ہیں۔
سرکاری نوکری چھوڑ کر
نکالا اپنا اردو اخبار!
1790 میں دلی کے ایک صوبے دار گھرانے میں پیدا ہوئے، مولوی محمد
باقر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بعد میں وہ آگے کی پڑھائی پوری کرنے
کے لیے ’دلّی کالج‘ گئے۔ وہاں سے پڑھائی پوری کرنے کے بعد وہ فارسی کے استاد بن
گئے۔ ملازمتوں کے بعد، وہ محکمہ انکم ٹیکس میں تحصیلدار کے عہدے پرمقرر ہوئے۔
اس طرح قریب 16سال تک وہ
سرکاری محکمہ میں اعلیٰ عہدہ پررہے۔ چونکہ سرکاری نوکری میں ان کا دل نہیں لگتا
تھا،اس لئے ایک دن اچانک انہوں نے سرکاری نوکری چھوڑدی۔
آگے 1836ء میں پریس ایکٹ
میں ترمیم کیا گیا اور اخبار نکالنے کی اجازت دے دی گئی،تب انہوں نے بھی صحافت کے
میدان میں کود پڑے۔ 1837ء میں انہوں نے ہفتہ وار ’دہلی اردو اخبار‘ کے نام سے اپنا
اخبار نکالنا شروع کر دیا۔ یہ ملک کا دوسرا اردو اخبار تھا، اس سے پہلے اردو زبان
میں ’جانے جہاں نما‘ اخبار کلکتہ سے نکلتا تھا۔
Delhi
Urdu Akhbar (Pic: Indiatimes)
------
اخبار کا مطلب کاروبار نہیں،
بلکہ...
مولوی محمد باقر کا ’'دہلی
اردو اخبار‘ لگ بھگ 21سالوں تک زندہ رہا، جو اردو اخبار کے میدان میں میل کا پتھر
ثابت ہوا۔ اس اخبار کے مدد سے مولوی باقر سماجی مسائل کے ساتھ ہی لوگوں کو آگاہ
کرنے کا کام بخوبی انجام دینے لگے۔ کہتے ہیں اس اخبار کا مقصد کاروبار نہیں،بلکہ یہ
ایک مشن کے تحت کام کرتا ہے۔
اس کی کاپیاں کے فروخت
ہونے پر جو بھی رقم آتا انہیں مولوی محمد باقر غریبوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔
اس اخبار کی قیمت صرف
2روپئے تھی۔ مولوی محمد باقر نے اپنے اخبار کی سائز بھی بڑی کررکھی تھی۔ اس ساتھ ہی
انہوں نے اخبار میں دلچسپی پیدا کرنے اور اس کو آسانی سے پڑھنے کے لائق بنانے کے
لئے الگ الگ زبانوں میں بانٹ رکھا تھا۔
اس اخبار میں عدالت کی
خبر کے لئے’حضور۔والا جب کی کمپنی کی خبر کو ’صاحب ِکلاں بہادر‘ کے تحت اور مزید
حصوں میں درجہ بند کیا گیا تھا۔ اسی کے ساتھ مولوی محمد باقر اس زمانے میں بھی
تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے بھروسے مند نامہ نگار (رپورٹر) سے بھی رابطہ
بنائے رکھتے تھے۔ خاص ان سے،جن کی پہنچ اعلیٰ عہدیداروں تک تھا۔
دہلی اردو اخبار قوم کے
جذبات کا پرچار کرنے والا تھا۔ اس نے سیاسی شعور کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ
برطانوی حکومت کے خلاف متحدہونے سے اہم کردار ادا کیا۔
REVOLT OF 1857 INDIA
(Repersentative Pic: factsninfo)
-----------
آزادی کی لڑائی میں بنایا
اپنا اہم ہتھیار
ایک طرف مولوی محمد باقر
اپنے اخبار کے ذریعہ سے ہندوستانیوں کے اندر آزادی کا پیار جگانے کا کام کرتے تھے۔
دوسری طرف سپاہیوں نے 1857 ء کی انقلاب چھیڑ دی۔ یہ دیکھ کر مولوی صاحب زیادہ
سرگرم ہوگئے۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے
کئی باغی سپاہیوں کو میرٹھ سے دلی بہادر شا ہ ظفر تک پہنچانے میں اہم کردار نبھا یا
تھا۔ اس کی جانکاری انگریزوں کو ہوئی تو ان کی نظروں میں وہ چڑھ گئے، ان کا اخبار او
را ن کی زندگی داؤ پر لگ چکا تھا۔
بہر حال وہ ڈرے نہیں ڈٹے
رہے۔
اخبار کے ذریعہ سے مولوی
کمپنی کی لوٹ مار اور غلط پالیسیوں کے خلاف کھل کر لکھنے لگے، کہتے ہیں کہ اس
اخبار کے تیخے تیور نے باقی اخباروں کے مدیدان او رمصنفین کے اندر آزادی کا جوش
بھر دیا تھا۔ وہی اخبار میں آزادی کے دیوانوں کی اعلانیہ خطوط اور مذہبی علماء کے
فتوے کو بھی جگہ دی جاتی۔
اس کے ساتھ ہی لوگوں کو
اس کی حمایت کے لیے اپیل بھی کی جاتی تھی۔
ان کا اخبار جہاں ایک طرف
ہندو سپاہیوں کو ارجن او ربھیم بنانے کی نصیحت دیتا،وہیں دوسری طرف مسلم سپاہیوں کو
رستم، چنگیز اور ہلاکو کی طرح انگریزوں پر قہر برپا کرنے کی بات کرتا تھا۔
اسی کے ساتھ باغی سپاہیوں
کو سپاہی۔اے۔ہند وستان کا نام دیا گیا
Indian Rebellion in 1857 revolt
(Repersentative Pic: BBC)
------------
اخبار کا نام بدلنے سے بھی
پیچھے نہیں ہٹے۔
مولوی محمد باقر
ہندو۔مسلم اتحاد کے پرجوش پیروکار تھے۔ انہوں نے اپنے اخبار کی مدد سے کئی انگریزوں
کے فرقہ وارانہ کشیدگی کو پھیلانے کی چالوں اور ان کے منصوبے کو جنتا کے سامنے
اجاگر کیا۔ یہی نہیں سبھی مذہبوں کے لوگوں کو ایسی باتوں میں نہ الجھا کر ملک کی
آزادی میں کندھے سے کندھے ملا کر چلنے کی پرزور اپیل کی۔
اس اخبار نے 5جولائی
1857ء کے شمارے میں جامع مسجد پر چپکے ایک فرقہ وارانہ پھیلانے والے پوسٹر کی چھان
بین کر کے انگریزوں کے ناپاک منصوبوں پر پانی پھیر دیاتھا اسی کے ساتھ ہی مولوی
محمد باقر نے بہادر شاہ ظفر کو وقف کرتے ہوئے اپنے اخبار ’دہلی اردو اخبار‘ کا نام
بدل کر اخبار۔الظفر کردیا تھا۔
نام بدلنے کے بعد اس
اخبار سے آخری کے دس کاپیاں اور چھاپی گئیں۔
غور طلب ہے کہ مولوی محمد
باقر کے اخبار کو انگریزوں سے لگاتار وارننگ ملتی رہی، لیکن انہوں نے اس کے باوجود
آزادی کے جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
Bahadur Shah Zafar
(Repersentative Pic: Famous People)
---------
...اور آزادی کی لڑائی میں شہید ہو گئے۔
1857کے انقلاب میں کئی ماؤں کے گود اجڑ گئے،نہ جانے کتنی عورتوں نے
اپنے شوہر کو گنوادیا۔ اس کے باوجود اس کے انقلاب کی آگ جلتی رہی،جس کو دبانے کے لیے
انگریزوں کا دباؤ لگاتار چلتا رہا۔
انہوں نے بادشاہ بہادر
شاہ ظفر کو بندی بنا کر دلی پر اپنا دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد برٹش طاقتوں نے
ایک ایک ہندوستانی سپاہیوں کو ڈھونڈ دھونڈ کر کالا پانی،پھانسی اور توپوں سے اڑانے
کا کام کرنے لگی۔
اسی کے ساتھ انگریزوں نے
14ستمبر 1857کو مولوی محمد باقر کو بھی گرفتار کرلیا اور انہیں 16ستمبر کو کیپٹن
ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے مولوی محمد باقر کو موت کی سزا کا فرمان سنایا۔
اس کے تحت دلی گیٹ کے
سامنے مولوی کو توپ سے اُڑا دیا گیا۔
حالانکہ کچھ لوگوں کا
ماننا ہے کہ ان کو توپوں سے نہیں بلکہ پھانسی دی گئی تھی۔
Hodsons captures of Maulvi
Mohammad Baqir (Repersentative Pic: twitter)
----------
تو یہ تھے عام لوگو ں میں
اپنی قلم سے جوش وخروش بھرنے والی نڈر صحافی مولوی محمد باقر سے جڑی کچھ جانکاری۔
اگر آپ کے پاس بھی ان سے
جڑے کچھ سچائی ہیں تو نیچے دیئے ہوئے کمنٹ باکس میں بتائیں۔
Source:
https://roar.media/hindi/main/history/maulvi-mohammad-baqir-the-first-journalist-to-be-martyred-in-the-freedom-of-india
URL for Hindi article:
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulvi-mohammad-baqar-shaheed-great/d/2178
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism